
اسلام میں بارات کا تصور ایک فقہی، ثقافتی اور سماجی تجزیہ
جامع خاکہ (Outline)
حصہ اول: اسلامی شادی کا بنیادی ڈھانچہ
فصل 1: نکاح – ایک مقدس معاہدہ
نکاح کی تعریف اور شرعی حیثیت
نکاح کے بنیادی ارکان:
ایجاب و قبول (رضامندی)
گواہوں کی موجودگی
ولی کا کردار اور فقہی اختلافات
فصل 2: حق مہر اور ولیمہ – سنت کی روشنی میں
حق مہر:
شرعی حیثیت
مہر اور جہیز کا فرق
ولیمہ:
مسنون وقت اور شرعی فضیلت
سادگی اور تقشف کی تلقین
فصل 3: سادگی اور برکت – اسلامی شادی کا جوہر
اسراف و نمود کی مذمت (قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں)
حدیث: “أعظم النکاح برکة أیسَرُه مَؤونةً”
شادی کو آسان بنانے کا مقصد
برکت کا معیار: سادگی، اخلاص اور اللہ کی رضا
حصہ دوم: بارات کی رسم – ایک تنقیدی جائزہ
فصل 4: بارات – تعریف، تاریخ اور ثقافتی جڑیں
سنسکرتی ماخذ: ورایاترا
تاریخی پس منظر: ہندو-مسلم مشترکہ ورثہ
جلوس کی شکل و صورت اور ثقافتی مظاہر
فصل 5: بارات کا شرعی حکم
سنت نبویؐ اور صحابہ کرام کے طرزِ عمل
بارات کی موجودہ شکل:
بدعت اور مشابہت بالکفار
اسراف، بے پردگی، موسیقی، لڑکی والوں پر بوجھ
مشروط گنجائش:
اگر بارات میں غیر شرعی امور نہ ہوں
فصل 6: بارات اور شبِ برات – ایک اہم وضاحت
صوتی مشابہت کے باعث پیدا ہونے والی غلط فہمی
بارات: ثقافتی شادی کی رسم
شبِ برات: مذہبی رات (لیلۃ النصف من شعبان)
دونوں میں فرق واضح کرنا ضروری
جدول 1: شادی کی دعوتوں کا تقابلی جائزہ
خصوصیت | نکاح کی دعوت (بارات) | دعوتِ ولیمہ |
مقصد | باراتیوں کی ضیافت | نکاح کا اعلان |
میزبان | دلہن کا خاندان | دولہا کا خاندان |
وقت | رخصتی سے پہلے | رخصتی کے بعد |
شرعی حیثیت | غیر مسنون | سنت مؤکدہ |
سنت سے ثبوت | نہیں | موجود ہے |
معاشی ذمہ داری | دلہن کا خاندان | دولہا |
حصہ سوم: مختلف اسلامی مکاتبِ فکر کا نقطہ نظر
فصل 7: دیوبندی مکتبہ فکر
بارات کی مذمت
فتاویٰ: بدعت، اسراف، خواتین کا اختلاط، کھانے کا بوجھ
مشروط جواز کی گنجائش: بغیر اسراف و خرافات کے چند قریبی افراد
فصل 8: بریلوی مکتبہ فکر
ثقافتی روایات کو مشروط قبولیت
“بدعتِ حسنہ” کا تصور
دعوتِ اسلامی کا مؤقف
غیر شرعی خرافات کی مذمت
“اصلاح کرو، ختم نہ کرو” کی حکمت عملی
فصل 9: اہلِ حدیث مکتبہ فکر
قرآن و حدیث پر سختی سے التزام
بارات کو واضح بدعت اور “تشبہ بالکفار” قرار دینا
نکاح و ولیمہ تک تقریبات کو محدود رکھنے کی تلقین
موسیقی، سہرا، جلوس، آتش بازی کی شدید مذمت
اختتامی حصہ (نتیجہ): خلاصہ و تجزیہ
اسلامی شادی کا ماڈل سادگی، شفافیت اور عدل پر مبنی
بارات ایک غیر مسنون ثقافتی رسم
اسراف اور خرافات کی وجہ سے غیر شرعی عناصر
محدود شرائط میں جائز مگر موجودہ شکل ناقابلِ قبول
معاشرتی اصلاح کے لیے سادہ نکاح اور سنت ولیمہ کا فروغ ضروری
اسلام میں بارات کا تصور ایک فقہی، ثقافتی اور سماجی تجزیہ
حصہ اول: اسلامی شادی کا بنیادی ڈھانچہ
اسلام میں شادی محض ایک رسم نہیں بلکہ ایک جامع سماجی، روحانی اور قانونی نظام کی حیثیت رکھتی ہے، جس کا مقصد ایک مستحکم خاندان اور صالح معاشرے کی تشکیل ہے۔ اس نظام کا بنیادی ڈھانچہ قرآن و سنت سے ماخوذ ہے، جو سادگی، باہمی حقوق کے تحفظ اور سماجی ذمہ داریوں پر مبنی ہے۔ ثقافتی رسومات جیسے کہ بارات کا جائزہ لینے سے پہلے، اس بنیادی اسلامی ماڈل کو سمجھنا ناگزیر ہے، کیونکہ یہی وہ معیار ہے جس پر ہر رواج کو پرکھا جاتا ہے۔
فصل 1: نکاح – ایک مقدس معاہدہ
اسلامی قانون میں، نکاح کو ایک “میثاق غلیظ” یعنی مضبوط عہد و پیمان قرار دیا گیا ہے ۔ یہ ایک سماجی معاہدہ ہے، نہ کہ کوئی ناقابلِ تنسیخ مذہبی رسم۔ اس معاہدے کی بنیاد چند لازمی ارکان پر قائم ہے جو اس کی شرعی حیثیت کو یقینی بناتے ہیں۔
ان ارکان میں سب سے بنیادی اور اہم ایجاب و قبول ہے، یعنی دلہا اور دلہن کی مکمل اور آزادانہ باہمی رضامندی۔ اسلام میں زبردستی کی شادی کی کوئی گنجائش نہیں، اور نکاح کے درست ہونے کے لیے فریقین کی رضامندی شرطِ اول ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاتون کو، جن کا نکاح ان کی مرضی کے خلاف کر دیا گیا تھا، اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار دیا، جو اس اصول کی اہمیت کو واضح کرتا ہے ۔ کنواری لڑکی کی اجازت بھی ضروری ہے، اور اگر وہ حیا کی وجہ سے خاموش رہے تو اس کی خاموشی کو بھی رضامندی تصور کیا جاتا ہے ۔
دوسرا اہم رکن گواہان کی موجودگی ہے۔ نکاح کے معاہدے کے وقت کم از کم دو عاقل و بالغ مسلمان گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہے ۔ گواہوں کی شرط نکاح کو خفیہ تعلقات سے ممتاز کرتی ہے اور اسے ایک عوامی اور قانونی حیثیت عطا کرتی ہے، جس سے دونوں فریقین کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے۔
تیسرا رکن دلہن کا ولی (سرپرست) ہے، جو عموماً والد یا کوئی قریبی مرد رشتہ دار ہوتا ہے۔ ولی کے کردار اور اس کی لزومیت پر فقہی مکاتب فکر میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مالکی، شافعی اور حنبلی مکاتب فکر کے نزدیک کنواری لڑکی کے نکاح کے لیے ولی کی اجازت لازمی ہے، جبکہ حنفی فقہ کے مطابق ایک بالغ لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر بھی اپنا نکاح خود کر سکتی ہے ۔ تاہم، تمام مکاتب فکر اس بات پر متفق ہیں کہ ولی کا مقصد دلہن کے مفادات کا تحفظ اور اس کی حمایت کرنا ہے۔
ان ارکان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلامی نکاح ایک شفاف، باوقار اور رضامندی پر مبنی معاہدہ ہے جس کا مقصد ایک صالح خاندان کی بنیاد رکھنا ہے۔
فصل 2: حق مہر اور ولیمہ – سنت کی روشنی میں
اسلامی شادی کے ڈھانچے میں دو مزید کلیدی عناصر ہیں جو اس کے سماجی اور معاشی پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں: حق مہر اور ولیمہ۔ یہ دونوں اعمال سنتِ نبوی سے ثابت ہیں اور ان کے گہرے مقاصد ہیں۔
حق مہر دلہن کا ایک واجب شرعی حق ہے، جو نکاح کے وقت شوہر کی طرف سے ادا کیا جاتا ہے یا اس کی ادائیگی کا وعدہ کیا جاتا ہے ۔ یہ محض ایک علامتی تحفہ نہیں بلکہ شوہر کی طرف سے اپنی بیوی کی مالی ذمہ داری قبول کرنے کا عملی اظہار ہے۔ قرآن و سنت میں اس کی ادائیگی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ حق مہر کی کوئی خاص مقدار متعین نہیں، تاہم اس میں اعتدال اور شوہر کی استطاعت کو مدنظر رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اسلام میں حق مہر کا تصور جہیز (Dowry) سے یکسر مختلف ہے۔ حق مہر شوہر کی طرف سے بیوی کو دیا جاتا ہے، جبکہ جہیز دلہن کے خاندان کی طرف سے دیا جانے والا سامان ہے، جس کا اسلام میں کوئی تصور نہیں پایا جاتا ۔

ولیمہ کا لغوی معنی “جمع ہونا” یا “اکٹھا کرنا” ہے اور اصطلاح میں یہ وہ دعوتِ طعام ہے جو دولہا اپنے نکاح کی خوشی اور اللہ کے شکرانے کے طور پر دیتا ہے ۔ ولیمہ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مؤکدہ ہے، اور بعض علماء نے اسے واجب بھی قرار دیا ہے ۔ آپ ﷺ نے خود اپنی ازواج مطہرات سے نکاح کے بعد ولیمہ کیا، حتیٰ کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد ستو اور کھجوروں کا سادہ ولیمہ کیا گیا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ ولیمہ میں تکلف اور اسراف مقصود نہیں ۔ ولیمہ کا مسنون وقت رخصتی اور شبِ زفاف کے بعد پہلا یا دوسرا دن ہے ۔ اس کا بنیادی مقصد نکاح کا اعلان کرنا، لوگوں کو اپنی خوشی میں شریک کرنا اور نئے جوڑے کے لیے دعا کا

حصول ہے۔
یہ دونوں اعمال اسلامی شادی کے نظام کی حکمت کو ظاہر کرتے ہیں: حق مہر کے ذریعے بیوی کو مالی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جبکہ ولیمہ کے ذریعے شوہر اپنی ذمہ داری اور خوشی کا اظہار کرتا

ہے، اور اس پورے عمل میں دلہن کے خاندان پر کوئی مالی بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔
فصل 3: سادگی اور برکت – اسلامی شادی کا جوہر
اسلامی شادی کا ایک امتیازی وصف اس کی سادگی اور فضول خرچی سے اجتناب ہے۔ قرآن و سنت میں بارہا اسراف اور دکھاوے (تفاخر) کی مذمت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: “وَلَاتُبَذِّرْتَبْذِيْرًا،اِنَّالْمُبَذِّرِيْنَكَانُوْٓااِخْوَانَالشَّيٰطِيْنِ” (اور فضول خرچی مت کرو، بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں) ۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: ”
اِنَّهٗلَايُحِبُّالْمُسْرِفِيْنَ” (بے شک وہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا) ۔
ان قرآنی احکامات کی روشنی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات بھی شادی کو آسان اور کم خرچ بنانے پر زور دیتی ہیں۔ مشہور حدیث ہے کہ “أَعْظَمُ النِّكَاحِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُ مَؤُونَةً” یعنی “سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو” ۔ یہ اصول اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شادی کی اصل روح اور برکت اس کی سادگی میں پوشیدہ ہے، نہ کہ دولت اور سماجی حیثیت کے پرتعیش مظاہرے میں ۔
شادی کو آسان بنانے کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں نکاح عام ہو اور نوجوان گناہ اور بے راہ روی سے محفوظ رہیں۔ جب شادیوں کو مہنگی رسومات اور فضول اخراجات کی وجہ سے مشکل بنا دیا جاتا ہے، تو یہ چیز معاشرتی بگاڑ (فتنہ) کا سبب بنتی ہے ۔ اسلامی نقطہ نظر سے شادی کا مقصد دو خاندانوں میں محبت اور ہم آہنگی پیدا کرنا ہے، نہ کہ ان کے درمیان مالی مسابقت کا میدان سجانا۔ لہٰذا، اسلامی شادی کا جوہر سادگی، خلوص اور اللہ کی رضا کا حصول ہے، جو بے جا رسومات اور اسراف سے پاک ہو۔
حصہ دوم: ‘بارات’ کی رسم – ایک تنقیدی جائزہ
شادی کی اسلامی اساس کو سمجھنے کے بعد اب ہم برصغیر پاک و ہند میں رائج ‘بارات’ کی رسم کا تنقیدی جائزہ لیں گے۔ یہ رسم، جو آج کل کی شادیوں کا ایک لازمی جزو سمجھی جاتی ہے، اپنی تاریخ، ثقافتی پس منظر اور شرعی حیثیت کے اعتبار سے ایک مفصل تجزیے کی متقاضی ہے۔
بارات ۔تعریف، تاریخ اور ثقافتی جڑیں
لفظ ‘بارات’ سنسکرت زبان کے لفظ ‘ورایاترا’ (वरयात्रा) سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے “دولہے کا جلوس” ۔ اصطلاحاً، بارات سے مراد دولہے کے خاندان، رشتہ داروں اور دوستوں کا وہ جلوس ہے جو دلہن کو بیاہ کر لانے کے لیے اس کے گھر جاتا ہے۔
تاریخی طور پر اس رسم کی جڑیں شمالی ہندوستان کی قدیم روایات میں پیوست ہیں۔ ماضی میں جب ذرائع آمد و رفت محدود تھے، دولہے کا خاندان اکثر ایک طویل سفر طے کرکے دلہن کے گاؤں یا شہر پہنچتا تھا اور وہاں کئی دن قیام کرتا تھا ۔ یہ جلوس اس سفر کے آغاز کی علامت تھا اور اس کا مقصد شادی کی خوشی کا اظہار کرنا ہوتا تھا۔ آج کے دور میں، اگرچہ یہ سفر چند گھنٹوں تک محدود ہو گیا ہے، لیکن جلوس کی شان و شوکت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے، جس میں گھوڑے،

سجی ہوئی گاڑیاں، بینڈ باجے اور رقص شامل ہوتے ہیں ۔
یہ رسم بنیادی طور پر ایک ثقافتی اور سماجی روایت ہے، اور اس کا کوئی مذہبی تقدس نہیں ہے ۔ اس کا ارتقاء برصغیر کی مشترکہ ثقافتی تاریخ سے جڑا ہوا ہے، جہاں ہندو اور مسلم معاشروں نے ایک دوسرے سے کئی رسومات مستعار لیں ۔ تقسیمِ ہند کے بعد بھی یہ رسم پاکستان اور بھارت دونوں میں مشترکہ ثقافتی ورثے کے طور پر باقی رہی۔ اس کا موازنہ دیگر علاقائی رسومات جیسے گجراتی ‘پونکوا’، مہاراشٹری ‘سیمان پوجا’ یا مسلم شادیوں میں ‘رسمِ دودھ پلائی’ سے کیا جا سکتا ہے، جو سب مقامی ثقافت کی پیداوار ہیں ۔ لہٰذا، بارات کو خالص اسلامی رسم سمجھنا تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے درست نہیں۔
‘بارات’ کا شرعی حکم
جب مروجہ بارات کا اسلامی فقہ کی روشنی میں جائزہ لیا جاتا ہے تو اکثر علماء کرام اسے غیر مسنون اور قابلِ اصلاح عمل قرار دیتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کا ثبوت نہ تو سنتِ نبوی سے ملتا ہے اور نہ ہی خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے دور میں رخصتی کا طریقہ انتہائی سادہ تھا۔ عموماً دلہن کو اس کے والد یا کوئی محرم رشتہ دار خود دولہے کے گھر چھوڑ آتے تھے ۔ مثال کے طور پر، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ان کی والدہ محترمہ خود نبی اکرم ﷺ کے گھر پہنچا کر آئی تھیں ۔ اسی طرح، آپ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر روانہ فرمایا تھا ۔ ان واقعات میں کسی جلوس، ہجوم یا اجتماعی طور پر دلہن کے گھر جانے کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔
اسی بنا پر اکثر علماء مروجہ بارات کو بدعت (دین میں نیا کام) اور غیر مسلموں سے مشابہت (Tashabbuh) قرار دیتے ہیں، کیونکہ اس کی موجودہ شکل و صورت اور اس سے وابستہ رسومات (مثلاً بینڈ باجا) ہندوانہ ثقافت سے ماخوذ ہیں ۔ علماء کا بنیادی اعتراض بارات کے جلوس پر نہیں، بلکہ اس سے منسلک ہونے والی خرافات پر ہے۔ ان خرافات میں سب سے نمایاں لڑکی والوں پر کھانے کا بوجھ ڈالنا ہے، جو اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ اسلام میں دعوتِ طعام (ولیمہ) کی ذمہ داری دولہے پر ہے، جبکہ بارات کی رسم اس ذمہ داری کو دلہن کے خاندان پر منتقل کر دیتی ہے ۔
تاہم، بعض علماء نے اس شرط کے ساتھ محدود گنجائش دی ہے کہ اگر دولہے کے چند قریبی رشتہ دار اور دوست کسی بھی قسم کے غیر شرعی امور (جیسے موسیقی، مرد و زن کا اختلاط، اسراف، اور کھانے کا مطالبہ) سے پرہیز کرتے ہوئے، سادگی کے ساتھ رخصتی کے لیے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ لیکن بارات کی موجودہ پرتعیش اور بوجھل شکل شرعی طور پر ناپسندیدہ اور قابلِ ترک ہے۔
‘بارات’ اور ‘شبِ برات’ – ایک اہم وضاحت
اکثر لوگ ‘بارات’ (شادی کا جلوس) اور ‘شبِ برات’ (ایک متبرک رات) کی اصطلاحات میں صوتی مماثلت کی وجہ سے الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان دونوں کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کے معانی اور پس منظر بالکل مختلف ہیں۔ اس فرق کو سمجھنا موضوع پر واضح گفتگو کے لیے ضروری ہے۔
بارات (Baraat): جیسا کہ پہلے بیان ہوا، یہ سنسکرت کے لفظ ‘ورایاترا’ سے نکلا ہے اور اس سے مراد شادی کا وہ جلوس ہے جو دولہے کی طرف سے دلہن کے گھر جاتا ہے ۔ یہ ایک ثقافتی اور سماجی رسم ہے جس کا تعلق شادی کی تقریب سے ہے۔
شبِ برات (Shab-e-Barat): یہ فارسی زبان کی ترکیب ہے جس کا مطلب ہے “نجات کی رات” (Night of Freedom)۔ عربی میں اسے “لیلۃ النصف من شعبان” یعنی شعبان کی پندرہویں رات کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک مذہبی رات ہے جس کے فضائل کے بارے میں احادیث وارد ہوئی ہیں، اگرچہ ان احادیث کی صحت اور اس رات میں مخصوص عبادات کے حوالے سے علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اس رات مسلمان عبادات، دعا اور استغفار کا اہتمام کرتے ہیں اور اسے بخشش کی رات سمجھتے ہیں۔ اہل تشیع کے نزدیک یہ رات بارہویں امام، امام مہدی کی ولادت کی تاریخ بھی ہے ۔
خلاصہ یہ کہ ‘بارات’ ایک سماجی رسم ہے جبکہ ‘شبِ برات’ ایک مذہبی رات ہے۔ ان دونوں کو خلط ملط کرنا ایک عام غلط فہمی ہے جسے دور کرنا ضروری ہے تاکہ شادی کی رسومات پر بحث اپنے درست شرعی اور ثقافتی تناظر میں رہے۔
جدول 1: شادی کی دعوتوں کا تقابلی جائزہ
خصوصیت | نکاح کی دعوت (بارات کی ضیافت) | دعوتِ ولیمہ |
مقصد | دلہن کے گھر پر باراتیوں کی ضیافت | نکاح کا اعلان اور شکرانہ |
میزبان | دلہن کا خاندان | دولہے کا خاندان |
وقت | رخصتی سے پہلے | رخصتی اور شبِ زفاف کے بعد |
شرعی حیثیت | غیر مسنون، ثقافتی رسم | سنتِ مؤکدہ |
سنت سے ثبوت | کوئی ثبوت نہیں | احادیثِ صحیحہ سے ثابت |
معاشی ذمہ داری | دلہن کے خاندان پر بوجھ | دولہے کی ذمہ داری |
حصہ سوم: مختلف اسلامی مکاتب فکر کا نقطہ نظر
برصغیر پاک و ہند میں رائج بارات کی رسم کے حوالے سے مختلف اسلامی مکاتب فکر کے نقطہائے نظر میں فرق پایا جاتا ہے۔ یہ فرق ان کے فقہی اصولوں اور ثقافتی روایات سے نمٹنے کے طریقہ کار کی عکاسی کرتا ہے۔
دیوبندی مکتبہ فکر
دیوبندی مکتبہ فکر سے وابستہ علماء مروجہ بارات کی رسم پر سخت تنقیدی مؤقف رکھتے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند اور جامعہ بنوری ٹاؤن جیسے بڑے علمی مراکز کے فتاویٰ میں اسے متفقہ طور پر ایک غیر مسنون، قابلِ مذمت اور بدعتِ سیئہ (بری بدعت) قرار دیا گیا ہے ۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ اس رسم کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہیں، اور یہ سنتِ نبوی ﷺ کے بالکل برعکس ہے ۔
ان کے نزدیک بارات کی موجودہ شکل کئی شرعی خرابیوں کا مجموعہ ہے، جن میں سرفہرست نام و نمود اور اسراف ہے، جس سے قرآن نے سختی سے منع کیا ہے۔ دوسرا بڑا اعتراض لڑکی والوں پر کھانے کا ناجائز بوجھ ڈالنا ہے، جسے وہ معاشرتی دباؤ کے تحت مجبوراً قبول کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ، بارات میں خواتین کا بے پردہ ہو کر جانا، مرد و زن کا اختلاط، اور موسیقی جیسے غیر شرعی امور کو بھی اس کی حرمت کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔
تاہم، دیوبندی علماء ایک محدود گنجائش کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، اگر دولہے کے ساتھ چند قریبی رشتہ دار بغیر کسی تکلف، اسراف، اور دیگر غیر شرعی امور کے، سادگی کے ساتھ صرف رخصتی کی غرض سے جائیں تو یہ جائز ہے ۔ لیکن مروجہ بارات، جس میں ایک بڑا ہجوم لے جایا جاتا ہے اور اسے باعثِ عزت سمجھا جاتا ہے، شرعاً ممنوع ہے۔
بریلوی مکتبہ فکر
بریلوی مکتبہ فکر کا عمومی رویہ مقامی ثقافتی روایات اور رسومات کے حوالے سے نسبتاً زیادہ مصالحانہ ہوتا ہے، بشرطیکہ وہ شریعت کے کسی صریح حکم سے نہ ٹکراتی ہوں ۔ وہ ایسی رسومات کو جو خوشی کے اظہار کے لیے ہوں، بدعتِ حسنہ (اچھی بدعت) کے دائرے میں شمار کرنے کا رجحان رکھتے ہیں، جیسا کہ جشنِ میلاد النبی ﷺ کا اہتمام ۔
بارات کی رسم پر براہِ راست امام احمد رضا خان کے فتاویٰ رضویہ سے کوئی واضح حکم دستیاب مواد میں موجود نہیں، تاہم اس مکتب فکر کی نمائندہ تنظیم “دعوتِ اسلامی” کے فتاویٰ اور تحریروں سے ان کے مؤقف کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہ بھی بارات سے منسلک خرافات جیسے موسیقی، ناچ گانا، بے پردگی، اور فضول خرچی کی سختی سے مذمت کرتے ہیں اور انہیں حرام قرار دیتے ہیں ۔ ان کا زور رسم کی فی نفسہ حرمت پر کم، اور اس سے جڑے ہوئے گناہوں اور مفاسد سے بچنے پر زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک اگر بارات کو تمام غیر شرعی امور سے پاک کر دیا جائے اور اس میں لڑکی والوں پر کوئی ناجائز بوجھ نہ ڈالا جائے تو محض خوشی کے اظہار کے لیے چند افراد کا جانا جائز ہو سکتا ہے۔ ان کا مؤقف “اصلاح کرو، ختم نہ کرو” کے اصول پر مبنی دکھائی دیتا ہے۔
اہل حدیث مکتبہ فکر
اہل حدیث مکتبہ فکر، جو صرف قرآن اور صحیح حدیث کو ہی شریعت کا ماخذ مانتا ہے اور قیاس و تقلید کو رد کرتا ہے، بارات کی رسم کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ ایک واضح بدعت اور غیر مسلموں، بالخصوص ہندوؤں، کی ثقافت سے مشابہت (Tashabbuh bil-Kuffar) ہے، جو کہ شرعاً حرام ہے ۔
ان کا مؤقف یہ ہے کہ دین مکمل ہو چکا ہے اور عبادت یا رسم کے نام پر ہر وہ عمل جو نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے دور میں موجود نہیں تھا، دین میں ایک ناپسندیدہ اضافہ اور گمراہی ہے۔ وہ شادی کی تمام تقریبات کو انتہائی سادگی اور صرف مسنون اعمال، یعنی نکاح اور ولیمہ، تک محدود رکھنے کی پرزور تلقین کرتے ہیں ۔ بارات کے ساتھ بینڈ باجے، آتش بازی، سہرا بندی اور دیگر تمام رسومات کو وہ غیر اسلامی اور ہندوانہ قرار دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک ایسی تقریبات کا انعقاد کرنا اور ان میں شرکت کرنا، دونوں ہی گناہ اور بدعت کی معاونت کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان کا مؤقف “ترکِ بدعت” کے اصول پر سختی سے قائم ہے۔
جعفریہ (شیعہ) مکتبہ فکر
فقہ جعفریہ میں بھی شادی کے بنیادی ارکان، جیسے باہمی رضامندی اور حق مہر، سنی فقہ سے بڑی حد تک مماثلت رکھتے ہیں ۔ شادی کو ایک مستحب عمل قرار دیا گیا ہے، لیکن اگر گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو یہ واجب ہو جاتی ہے ۔
جہاں تک بارات جیسی ثقافتی رسومات کا تعلق ہے، فراہم کردہ مواد میں اس پر کوئی مخصوص اور براہِ راست فقہی حکم یا فتویٰ موجود نہیں ہے۔ تاہم، اسراف اور فضول خرچی کی عمومی ممانعت کے اصول ان کے ہاں بھی پوری شدت سے پائے جاتے ہیں ۔ پاکستان اور ہندوستان کی شیعہ کمیونٹی میں بھی، مشترکہ ثقافتی ورثے کے باعث، بارات اور مہندی جیسی رسومات عام طور پر رائج ہیں ۔ ان رسومات کی شرعی حیثیت کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آیا وہ کسی حرام کام، جیسے اسراف، ریاکاری یا مرد و زن کے غیر شرعی اختلاط، پر مشتمل ہیں یا نہیں۔ اگر یہ رسومات ان خرابیوں سے پاک ہوں تو ثقافتی عمل کے طور پر ان کی گنجائش موجود ہو سکتی ہے، لیکن اگر ان میں غیر شرعی عناصر شامل ہوں تو وہ بھی ناجائز ہوں گی۔ لہٰذا، ان کا مؤقف بھی رسم سے جڑے اعمال کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے۔
جدول 2: بارات کے جلوس پر علماء کی آراء کا خلاصہ
مکتبہ فکر | بنیادی مؤقف | کلیدی دلائل | شرعی حکم |
دیوبندی | مروجہ بارات غیر مسنون اور قابلِ مذمت ہے۔ | سنت سے ثابت نہیں، اسراف، لڑکی والوں پر بوجھ، نمود و نمائش۔ | ناجائز/مکروہ تحریمی۔ سادگی سے چند افراد کا جانا جائز۔ |
بریلوی | بارات سے منسلک خرافات (گانا، اسراف) حرام ہیں، اصل رسم پر بحث ہے۔ | بدعتِ سیئہ (بری بدعت) اگر حرام امور شامل ہوں، ثقافتی عمل (urf) اگر پاکیزہ ہو۔ | اگر غیر شرعی امور سے پاک ہو تو گنجائش ہے، ورنہ ناجائز۔ |
اہل حدیث | بارات ایک واضح بدعت اور غیر مسلموں سے مشابہت ہے۔ | کتاب و سنت میں کوئی اصل نہیں، تَشَبُّہ بِالکُفَّار (کفار سے مشابہت)۔ | ناجائز و حرام۔ |
جعفریہ | اسراف اور دکھاوا حرام ہے، رسم پر مخصوص حکم واضح نہیں۔ | عمومی طور پر اسراف اور فضول خرچی کی ممانعت۔ | مخصوص فتویٰ دستیاب نہیں، لیکن اسراف پر مبنی تقریب ناجائز ہوگی۔ |
حصہ چہارم: سماجی و معاشی اثرات اور متعلقہ غیر شرعی امور
بارات کی رسم کا تنقیدی جائزہ صرف فقہی اور نظریاتی مباحث تک محدود نہیں، بلکہ اس کے گہرے سماجی اور معاشی اثرات بھی ہیں جو معاشرے پر منفی طور پر مرتب ہوتے ہیں۔ یہ رسم اپنے ساتھ کئی ایسی خرافات لے کر آتی ہے جو اسلامی اقدار اور روح کے منافی ہیں۔
اسراف، تفاخر اور نمود و نمائش
مروجہ بارات کی سب سے بڑی خرابی اس میں پایا جانے والا بے پناہ اسراف اور دکھاوا ہے۔ قرآن مجید نے فضول خرچی کرنے والوں کو “شیطان کے بھائی” قرار دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ اس کے باوجود، آج کل شادیاں سماجی حیثیت کے مظاہرے اور مقابلے کا میدان بن چکی ہیں۔ بارات کی تقریب کو پرتعیش بنانے کے لیے وسیع انتظامات کیے جاتے ہیں، جن میں مہنگے شادی ہال، انواع و اقسام کے کھانے، اور سجاوٹ پر بے تحاشا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔
یہ سب کچھ اکثر “لوگ کیا کہیں گے” کے معاشرتی دباؤ کے تحت کیا جاتا ہے ۔ خاندان اپنی استطاعت سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں، یہاں تک کہ اس مقصد کے لیے قرض لینے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ یہ نمود و نمائش اور تفاخر نہ صرف اسلامی تعلیمات کی روح کے خلاف ہے بلکہ یہ معاشرے میں ایک ایسی غلط روایت کو جنم دیتا ہے جہاں شادی کی کامیابی کا معیار اس پر اٹھنے والے اخراجات کو سمجھا جانے لگتا ہے، جو کہ ایک انتہائی سطحی اور مادی سوچ ہے۔
دلہن کے خاندان پر معاشی بوجھ
بارات کی رسم کا سب سے تباہ کن پہلو دلہن کے خاندان پر ڈالا جانے والا ناقابلِ برداشت معاشی بوجھ ہے۔ اسلامی اصولوں کے مطابق، مرد کو خاندان کا کفیل (قوام) بنایا گیا ہے اور بیوی بچوں کے نان نفقے کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے ۔ ولیمہ کی سنت بھی اسی اصول کی عکاس ہے کہ دعوت کا اہتمام دولہا کرے گا۔ لیکن بارات کی رسم اس اصول کو الٹ دیتی ہے۔ دولہے کے سینکڑوں رشتہ داروں اور دوستوں پر مشتمل بارات کی مہمان نوازی اور پرتکلف کھانے کا انتظام دلہن کے غریب والدین کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔
یہ مطالبہ، چاہے زبان سے کیا جائے یا معاشرتی رسم کے دباؤ کی شکل میں ہو، لڑکی والوں سے زبردستی مال وصول کرنے کے مترادف ہے، جو شرعاً ناجائز ہے ۔ بہت سے خاندان اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے اپنی عمر بھر کی جمع پونجی خرچ کر دیتے ہیں، جائیدادیں بیچتے ہیں یا سودی قرضوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔ اس رسم کا موازنہ ہندوانہ “دان” کے تصور سے بھی کیا جاتا ہے، جہاں جہیز کو وراثت کا متبادل سمجھا جاتا ہے، جو کہ اسلامی قانونِ وراثت کی بھی صریح خلاف ورزی ہے، کیونکہ اسلام نے بیٹی کا وراثت میں باقاعدہ حصہ مقرر کیا ہے ۔ یہ معاشی بوجھ نہ صرف خاندانوں کو تباہ کرتا ہے بلکہ شادی جیسے مقدس فریضے کو ایک مصیبت بنا دیتا ہے۔
دیگر خرافات
بارات کی تقریب عموماً تنہا نہیں ہوتی، بلکہ اپنے ساتھ بہت سی دیگر غیر شرعی اور غیر اخلاقی رسومات بھی لاتی ہے جو مجموعی طور پر ایک غیراسلامی ماحول پیدا کرتی ہیں۔ ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
- موسیقی اور ناچ گانا: بارات کے جلوس کے ساتھ بینڈ باجے اور شادی ہال میں بلند آواز میں موسیقی اور ناچ گانے کا اہتمام عام ہے، جسے اکثر جید علماء نے ناجائز اور گناہ قرار دیا ہے ۔
- مرد و زن کا اختلاط: شادی کی تقریبات میں پردے کا اہتمام ختم ہو جاتا ہے اور غیر محرم مردوں اور عورتوں کا آزادانہ میل جول ہوتا ہے، جو اسلامی تعلیمات اور حیا کے تقاضوں کے سراسر خلاف ہے ۔
- ہندوانہ رسومات: بارات کے علاوہ مہندی، مایوں، جوتا چھپائی، اور کئی دیگر رسومات بھی شادی کا حصہ بن چکی ہیں، جن میں سے اکثر کی جڑیں ہندوانہ یا دیگر غیر اسلامی ثقافتوں میں ہیں ۔ یہ رسومات نہ صرف فضول خرچی کا باعث ہیں بلکہ غیروں کی نقالی کے زمرے میں بھی آتی ہیں۔
- تصویر کشی اور ویڈیو سازی: ان تقریبات میں، خاص طور پر خواتین کی، تصاویر اور ویڈیوز بنائی جاتی ہیں، جو بعد میں سوشل میڈیا پر بھی شیئر ہوتی ہیں۔ یہ عمل پردے کے احکام کی سنگین خلاف ورزی ہے اور بے حیائی کو فروغ دینے کا ذریعہ بنتا ہے ۔
یہ تمام خرافات مل کر شادی کی تقریب کی روحانیت اور برکت کو ختم کر دیتی ہیں اور اسے گناہوں کا مجموعہ بنا دیتی ہیں، جس سے بچنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔
حصہ پنجم: معاصر مسلم مفکرین کی آراء
موجودہ دور کے مسلم مفکرین نے بھی شادی بیاہ میں رائج غیر اسلامی رسومات، بالخصوص بارات، پر اپنی آراء کا اظہار کیا ہے۔ ان میں سے دو نمایاں شخصیات، ڈاکٹر اسرار احمد (مرحوم) اور ڈاکٹر محمد طاہر القادری، کے خیالات اس حوالے سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد (مرحوم) کا موقف
ڈاکٹر اسرار احمد، جو تنظیم اسلامی کے بانی تھے، نے بارات اور اس سے منسلک رسومات پر ایک انتہائی سخت اور غیر مصالحانہ مؤقف اختیار کیا۔ وہ ان رسومات کو محض ایک ثقافتی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک “معاشرتی ناسور” سمجھتے تھے جس کے خاتمے کے لیے “سخت آپریشن” کی ضرورت ہے ۔ ان کے نزدیک یہ رسومات ہندووانہ تہذیب کا اثر ہیں اور ان میں نمود و نمائش، اسراف اور فضول خرچی کے سوا کچھ نہیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد کا مؤقف تھا کہ شادی کی تمام تقریبات اور اخراجات کی ذمہ داری مکمل طور پر لڑکے والوں پر ہونی چاہیے۔ ان کے مطابق، لڑکی والوں کی طرف سے کسی بھی قسم کی دعوت، چاہے وہ بارات کی ہو یا کسی اور نام سے، اسلامی روح کے منافی ہے اور اسے مکمل طور پر ختم ہونا چاہیے ۔ ان کی تنظیم، تنظیم اسلامی، نے اس نظریے پر عملی طور پر بھی کام کیا اور اس سے وابستہ افراد کی ایک بڑی تعداد نے اپنی شادیوں میں بارات کی رسم کو ترک کر کے ایک مثال قائم کی ۔ ان کا نقطہ نظر “خاتمے” پر مبنی تھا، یعنی اس رسم میں اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں، بلکہ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ضروری ہے۔ یہ مؤقف اہل حدیث اور اصلاح پسند دیوبندی علماء کے خیالات سے قریب تر ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کا موقف
ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا مؤقف بارات اور دیگر رسومات کے حوالے سے اصلاحی نوعیت کا ہے۔ وہ بھی شادی بیاہ کی “تباہ کن رسومات” کی مذمت کرتے ہیں اور انہیں اسلامی تعلیمات سے متصادم سمجھتے ہیں ۔ تاہم، ان کا زور مکمل خاتمے کے بجائے ان رسومات کی اصلاح اور انہیں اسلامی سانچے میں ڈھالنے پر ہے۔
ڈاکٹر قادری نے مہندی اور تیل جیسی مخصوص رسومات پر بھی گفتگو کی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ثقافتی اظہار کو یکسر مسترد نہیں کرتے، بلکہ اس میں موجود غیر شرعی عناصر (جیسے اسراف، بے پردگی، موسیقی) کو ختم کرنے کے قائل ہیں ۔ ان کا مؤقف ہے کہ خوشی منانے کی اجازت ہے، لیکن یہ شریعت کی مقرر کردہ حدود کے اندر ہونی چاہیے۔ وہ خاندان کے سربراہ، یعنی مرد (باپ یا شوہر)، پر یہ ذمہ داری عائد کرتے ہیں کہ وہ اپنے اہل و عیال کو غیر شرعی کاموں سے روکے ۔ ان کا نقطہ نظر “اصلاح پسندی” پر مبنی ہے، جو بریلوی مکتبہ فکر کے عمومی مزاج سے مطابقت رکھتا ہے، جس میں ثقافت کو اسلام کے تابع بنا کر اپنانے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔
ان دونوں مفکرین کے خیالات جدید دور میں مسلم معاشروں کو درپیش ثقافتی چیلنجز سے نمٹنے کی دو مختلف حکمت عملیوں کی نمائندگی کرتے ہیں: ایک کا مؤقف انقلابی اور مکمل ترک پر مبنی ہے، جبکہ دوسرے کا ارتقائی اور اصلاحی ہے۔
حصہ ششم: خلاصہ اور عملی سفارشات
اس تفصیلی تجزیے کے بعد، جس میں بارات کی رسم کا فقہی، ثقافتی، سماجی اور معاشی پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا، ہم درج ذیل نتائج اور سفارشات پر پہنچے ہیں۔
خلاصہ بحث
یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ بارات کی مروجہ رسم کی جڑیں اسلامی تعلیمات میں نہیں، بلکہ یہ برصغیر کی مقامی ثقافت کی پیداوار ہے، جس پر ہندوانہ روایات کے گہرے اثرات ہیں۔ اگرچہ دولہے کا چند افراد کے ساتھ دلہن کو لینے جانا فی نفسہ حرام نہیں، لیکن اس رسم کے ساتھ منسلک ہونے والی اکثر روایات اور لوازمات اسے شرعی طور پر انتہائی قابلِ اعتراض اور ناپسندیدہ بنا دیتے ہیں۔
اس کی سب سے بڑی خرابیاں دلہن کے خاندان پر ناقابلِ برداشت مالی بوجھ ڈالنا، اسراف اور نمود و نمائش، غیر شرعی امور جیسے موسیقی اور مرد و زن کا اختلاط، اور غیر مسلموں کی ثقافت سے مشابہت ہیں۔ یہ تمام امور اسلامی شادی کے بنیادی مقاصد، یعنی سادگی، برکت کے حصول، اور نکاح کو آسان بنانے، کے سراسر منافی ہیں۔ شریعت کی رو سے شادی کی واحد مسنون دعوت ولیمہ ہے، جس کی ذمہ داری دولہے پر عائد ہوتی ہے۔ بارات کی دعوت اس شرعی اصول کو الٹ دیتی ہے اور ایک غیر اسلامی روایت کو فروغ دیتی ہے۔
سفارشات
اس معاشرتی بگاڑ کی اصلاح اور شادی کی تقریبات کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے درج ذیل عملی اقدامات کی ضرورت ہے:
- سنت کو ترجیح دینا: مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی شادیوں میں سنتِ نبوی ﷺ کو ترجیح دیں۔ نکاح سادگی سے مسجد میں کیا جائے اور ولیمہ کا اہتمام اپنی استطاعت کے مطابق، اسراف سے بچتے ہوئے کیا جائے۔
- معاشرتی دباؤ کا مقابلہ: “لوگ کیا کہیں گے” کی فرسودہ سوچ کو ترک کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کو مقدم رکھا جائے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ حقیقی عزت اور برکت اللہ کی اطاعت میں ہے، نہ کہ لوگوں کو دکھانے میں۔
- بارات کا متبادل: رخصتی کے لیے دولہے کے ساتھ صرف چند قریبی اور ضروری افراد (مثلاً والدین، بھائی بہن) جائیں۔ دلہن والوں سے کسی قسم کے کھانے یا پرتکلف استقبال کا مطالبہ یا توقع نہ رکھی جائے۔ دلہن کے والدین اپنی خوشی سے اور بغیر کسی دباؤ کے اگر مہمانوں کو کچھ پیش کرنا چاہیں تو اس کی گنجائش ہے، لیکن اسے رسم نہ بنایا جائے۔
- تعلیم و آگاہی: علماء کرام، خطباء، اساتذہ اور سماجی رہنماؤں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو ان رسومات کے غیر اسلامی پس منظر اور ان کے تباہ کن سماجی و معاشی نقصانات سے آگاہ کریں۔ منبر و محراب کو اس اصلاحی مہم کے لیے مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔
- عملی مثال قائم کرنا: معاشرے کے بااثر اور صاحبِ حیثیت خاندانوں کو اس سلسلے میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہیں اپنی تقریبات سادگی سے منعقد کرکے معاشرے کے لیے ایک مثبت مثال قائم کرنی چاہیے ۔ جب امیر لوگ سادگی اختیار کریں گے تو غریب اور متوسط طبقے پر سے معاشرتی دباؤ خود بخود کم ہو جائے گا۔
شادی ایک رحمت اور برکت کا ذریعہ ہے، اسے رسومات کی زنجیروں میں جکڑ کر زحمت اور بوجھ نہیں بنانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگی کے ہر معاملے میں، بالخصوص نکاح جیسے اہم فریضے میں، سنتِ نبوی ﷺ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔