نصاب طب جدید کی عین مطابق دوسری کتاب۔
کتاب الصدمات
سرج الاطباء حکیم مختار احمد۔ جانشین حضرتب موجد طب جدید۔
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم
دباچہ
میں اپنے مالک حقیقی حکیم مطلق کا نام لے کر اس کتاب کو شروع کرتا ہوں جس کی رضا اور ارادہ سے ہی تمام کام سرانجام پاتے ہیں۔ رب الشرح لي صدري ويسر لي في امری
العلم علمان علم الأبدان وعلم الادیان – جاننا چاہئے کہ دنیا میں علم دو طرح کے
ہیں۔ ایک دینی یعنی روحانی علم دوسرے بدنی علم۔ خالق حقیقی نے اس جہان کی تمام موجدات کو دو چیزوں کا مجموعہ تخلیق کیا ہے۔ ایک روح اور ایک جسم بس ایک علم وہ ہے جس کا تعلق ہمارے روح سے ہے اور دوسرے۔کا تعلق جسم کے ساتھ ہے۔ اسی طرح دنیا میں امراض بھی دو قسیم کے ہی پیدا ہوتے ہیں۔
روحانی امراض ہیں اور دوسرے جسمی امراض پس خالق حقیقی نے ان ہر دو اقسام امراض کے دفعیہ یا روک تھام کے لیئے معالج بھی دو قسم کے ہی پیدا کئے ہیں روحانی علم جانے والے حکیم کہلاتے ہیں ۔ اور بدنی علم جاننے والے طبیب کہلاتے۔ ہیں ۔ روحانی علم کو مذہب اور بدنی علم کو علم طب کہا جاتا ہے ۔ دنیا کی پیدائش – سے لے کہ آج تک یہ دونوں علم ضرورت زنانہ اور تمدن کے لحاظ سے مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتے رہے ہیں۔ لیکن ان ہر دو قسم کے معالجوں کے مقا صد میں کبھی تبدیلی نہیں ہوئی جس طرح ایک روحانی معالج خواہ وہ کسی طریق یا مذہب کا پابند ہو اسکے مد نظر یہی بات ہوتی ہے۔ کہ دنیا کو اسی راہ پر چلایا جائے ۔ کہ جس پر چل کر وہ اپنے مالک حقیقی کی رضا حاصل کرتے ہوئے پیدائش کی اصل غرض کو پورا کر سکیں۔ اورروحانی امراض کی دنیا میں پیدائش نہ ہو ۔ اور روحانی مریض امراض سے نجات پائیں ۔ اسی طرح بدنی معالج کا بھی خواہ وہ کسی طریق طب کا حامل ہو۔ یہی کام اور خواہش ہوتی ہے۔ کہ دنیا میں ایسے طریق اور علاج رائج کئے جائیں۔ کہ لوگ بدنی امراض سے محفوظ رہیں ۔ اور جوکسی مرض میں گرفتار ہیں۔ وہ اس سے نجات حاصل کر سکیں ۔
پس علم طب سے مراد وہ علم ہے ۔ کہ جس میں بدن انسان کے متعلق بحث ہو۔ اور اس کی مدد سے ہم بدنی امراض سے محفوظ رہ سکیں اور پیدا شدہ امراض کو دور کر سکیں۔ چونکہ تمام مقاصد انسانی کا لب لباب بقاء صحت و ازالہ مرض ہے ۔ اسلئے یہ بھی نہایت ضروری ہے ۔ کہ ہمیں پیدائش امراض اور طریق علاج کے متعلق صحیح علم ہو۔ پس وہ صحیح علم اس دور میں صرف طب جدیدمشرقی ہی پیش کرتی ہے ۔ ہندوستان میں جس طرح قوموں مذہب اور طرز معاشرت میں
اختلاف بین پایا جاتا ہے۔ اسی طرح حصول صحت کے ذرائع بھی اس ملک میں مختلف ہیں۔ لیکن طب جدید ایسا عالمگیر اور آسان علم طب پیش کرتی جس میں کسی قسم کی پیچیدگیاں نہیں ۔ اور اس کا عامل یقین کی راہ پر چلتا ہوا ہرقسم کے امراض کا مداوا نہائیت، خوش اسلوبی سے کر سکتا ہے ۔
اس کا طریق تشخیص اور طریق علاج ایسا مکمل اور آسان ہے کہ کسی دوسرے طریق علاج میں اس کی مثال نہیں ملتی مجھے اس جگہ کسی طریق طب کے نقائص بیان کرنیکی ضرورت نہیں بلکہ صرف طب جدید کی حقیقت کو واضح کرنا مطلوب ہے ۔ تاکہ حاملان طب جدید صحیح راہ عمل پر گامزن ہو کرمخلوق خدا کی بھلائی اور بہتری کا موجب بن سکیں ۔
طب جد ید کی وجہ تسمیہ :
اس طریق طب کو ہم طب جدید مشرقی کے نام سے اسلے موسوم کر تے ہیں۔ کہ حضرت موجد طب جدید۔ استاذلا طبا حکیم احمد الدین صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے خذما صفاودع ماکدر کے زریں اصل کے مطابق تمام مروجہ طبوں پر نظر کر تے ہوئے ان کی کمزوریوں اور اغلاط کو بے نقاب کر کے ایک نیا دستور العمل
تجویز فرمایا ۔
اور وہ تمام نی اصول جو الگ الگ تمام طبوں میں پائے جاتے تھے۔ اس طب میں سب کو جمع کر دیا۔ چونکہ عام مروجہ طبوں کو تطبیق دے کر نئے سرے سے ایک ایسی طلب کی بنیاد ڈالی گئی جس کے اصول تمام طبوں پر حاوی ہیں۔ اور دنیا کی کوئی طلب نہیں جو ان کے ماتحت نہ آتی ہو ۔ اسلئے اسکول ہے مشرقی عالمیہ کہا جاتا ہے ۔ اب ذیل میں طلب سید شرقی کے اصول بیان کئے جاتے ہیں ۔
امراض کی حقیقت
صحت: جب تمام اعضای انسان اپنے پنے مینی کاموں کو یہ طور پر سر انجام دیتے ہوں تو اس حالت کا نام صحت ہے۔
مرض : جب بعض اعضاء کے بعض افعال میں تقل طور پر بے اعتدالی واقع ہو۔ تو اس حالت کو مریض کا نام دیا جاتا ہے۔
موت :- جب تمام اعضا ر اپنے اپنے فرائض منصبی کو نکلی چھوڑ دیں۔ تو اسے موت کے نام سے پکارا جائے گا۔
پس جاننا چاہئے ۔ کہ تغیر افعال الاعضاء ہی ایک ایسا سبب ہے۔ جس سے امراض پیدا ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ کوئی سبب نہیں اور نہ ہو سکتا ہے۔ یہی ایک صحیح سبب ہے جس سے امراض ظہور پذیر ہو سکتے ہیں۔ اور یہ ایک ایسا اصول ہے۔ جس پر باقی طریق علاج بھی باوجود دیگر سخت اصولی اختلافات کے ضرور متفق نہیں ۔ دنیا کی کوئی کبھی طب ایسی نہیں جو افعال الاعضا کے اعتدال کو مرض کے نام سے تعبیر کر سکے ۔ اور افعال الاعضاء کے تغیر کو حالت صحت کہہ سکے۔ ہر ایک طب با الاتفاق ایسے شخص کو تندرست ماننے پر مجبور ہے جس کے تمام اعضاء جسم اپنے اپنے مفوضہ افعال کو اعتدال سے بالا ہے ہوں۔ اور جس شخص کے بعض اعضاء طبعی اعتدال کو چھوڑ کر افراط یا تفریط کی طرف