عید الاضحی کو یوں بھی مناسکتے ہیں۔
از حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
اسلامی تہواروں میں عید الاضحی دو پیغمبروں کی یاد گار ہے جنہوں نے انسانیت کے سامنے پیغام ربی کو اس انداز میں پیش کیا کہ ان کی اس ادا کو آنے والی نسلوں کے لئے ایک نمونہ و اسوہ قرار دیدیا ۔ ساتھ میں کچھ فرائض و آداب بھی بتا دئے کہ عید قربان ایک اسلامی تہوار ہی نہیں یہ تو زندگی کا وہ فسلفہ ہے جس میں انسانیت کے لئے ایک لائحہ عمل پوشیدہ ہے۔
مسلمانوں میں ایک کمزوری پائی جاتی ہے کہ یہ سطحی معامالات اور اپنی طبیعت کے قریب تریب جذبات کو جلد قبول کرتے ہیں ۔غور و تدبر اور احکامات کی روح کی طرف دھیان نہیں دیتے/ظاہری طورپر اس چیز کو پسند کرتے ہیں جس میں ذاتی تشہیر ہو اورنسفیاتی طورپر لوگوں میں برتری کا پہلوپایاجائے۔پویری زندگی میں یہی نفسیات کار فرما دکھائی دیتی ہے۔مثلاَ عباداتکا وہ پہلو جس میں لوگوں سے داد وصول کرنے کا پہلو نمایا ہو اسے بڑے اہتمام سے ادا کیا جاتا ہے۔اور جہاں اخلاص اور تنہائی او ر احکامات کی روح کا تعلق ہے اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ قربانی صرف جانور خرید کر ذبح کرنا ہی نہیں اس قریضہ کے ساتھ دیگر معاشرتی فرائض بھی عائد ہوتے ہیں۔۔
جن دو نبیوں کی سنت کی پیروی میں فریضہ قربانی ادا کیا جاتا ہے۔اگر یہ فلسفہ علماء کرام امت کے سامنے پیش کریں ۔اور عوام اس فلسفہ سے آگا ہوجائیں تو بہت سی غیر ضروری باتوں سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔
قربانی کا طریقہ ہے خود سیکھتے ہیں ،نہ اس بات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ہمیں تو ایک جانور چاہئے جس کی قیمت زیادہ ہو۔پھر اس کی نمائش اور اس کے چارہ کے لئے خود ساختہ برتری کا اہتمام۔عمومی طورپر لوگوں کو ذبیحہ کے بارہ میں ہی معلومات نہیں ہوتیں۔ذبح کرنے والا تبکیر پڑھتا بھی ہے کہ نہیں؟۔کچھ دہیاڑی دار لوگ عید کے موقع پر قصاب بن جاتے ہیں انہیں تکبیرات کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔انہیں ذبیحہ کی نزاکت ویسے ہی معلوم نہیں ہوتیں۔مالک دولت کے خمار میں ایسا مست ہوتا ہے کہ اے سی روم سے باہر قدم رکھنا بھی گورا نہیں کرتا۔
گلی محلوں میں جانوروں کے چارہ کی باقیات نے سڑانڈ پیدا کردی ہے۔بڑے شوق سے چارہ کھلاتے ہیں۔لیکن باقیات کو وہی پڑا رہنے دیتے ہیں۔یہی حال ذبیحہ کے بعد جانور کی باقیات کا بھی ہوتا ہے۔الائشوں سے گلی محلے اٹے ہوتے ہیں ۔گرمی کی وجہ سے گلیوں نالیوں گٹروں میں تعفن پیدا ہوکر ماحول کو مکدر کردیتا ہے۔
گلی محلوں میں جانوروں کو باندھ کر مسافروں راہ گیروںکو تنگ کیا جاتا ہے ۔اگر کوئی سمجھائے تو اسے گستاخ قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے؟
جانورں کی خریداری میں جو رقم صرف کی ہے اس کے حلال و حرام کی تمیز نہیں ہوتی ۔یہی وجہ ہے کہ باوجود اتنی مقدار میں جانور ذبح کرنے کے مسلمانوں کے رویوں میں اور زندگی کے چلن میںنماز روزہ حج۔قربانی۔اور زکوٰۃ جیسی عبادات بھی اصلاح نہیں کرستیں۔کیونکہ لوگوں کو اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔
مذۃبی طورپر عبادات نماز روزہ حج زکوٰۃ قربانی وغیرہ کے جو فضائل اور خواص بیان کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک بھی دکھائی نہیں دیتے۔مثلا ایک رمضان کا اثر دوسریٓے رمضان تک باقی رہتا ہے۔قربانی ایثار و ہمدردی اور معاشرتی طورپر قیمتی متاع کو قربان کرنے کا درس دیتی ہے۔گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے۔اخلاص اتنا کہ اس سے زندگی میں انقلاب پیدا ہوجائے۔۔۔۔قران کریم نے قربانی کا فلسفہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔۔۔
وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ(27)لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِۚ-فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآىٕسَ
الْفَقِیْرَ(28)
اور لوگوں میں حج کی عام ندا کردے وہ تیرے پاس حاضر ہوں گے پیادہ اور ہر دُبلی اونٹنی پر کہ ہر دُور کی راہ سے آتی ہیں تاکہ وہ اپنا فائدہ پائیں اور اللہ کا نام لیں جانے ہوئے دنوں میں اس پر کہ اُنہیں روزی دی بے زبان چوپائے تو ان میں سے خود کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاج کو کھلاؤ ۔۔
دوسری آیت میں قربانی کا فلسفہ یوں بیان کیا گیا ہے
لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰـكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْؕ-كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْؕ-
وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ(37)
اللہ کے ہاں ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اورنہ ان کے خون، البتہ تمہاری طرف سے پرہیزگاری اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہے ۔ اسی طرح اس نے یہ جانور تمہارے قابو میں دیدئیے تا کہ تم اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری دیدو۔
تقوی طہارت فلسفہ قربانی۔عبادات کی روح ان سب باتوں کو پس پشت ڈال کر ایک ایسی سوچ پیدا کرلی گئی ہے جس میں روح تباہ ہوکر رہ گئی ہے۔اور خرفات کو قبول کرلیا گیا ہے۔
جس دن مسلمان قربانی کے مفہوم کو سمجھ گئے اس دن معاشرتی و معاشی مسائل کا حل مل جائے گا۔۔۔قربانی کو اپنی مرضی کے بجائے اللہ کی رضا اور رسول اللہﷺ کی اتباع کا خیال رکھئے۔نمود و نمائش
تو ختم ہوجائے گی۔لیکن اس کے ساتھ آپ کے مال و اور دھلاوے کے عمل کو بھی کھاجائے گی۔
قربانی کا گوشت اور اس کے چمڑے کو صحیح مصرف میں لائے۔اور ذبیحہ کی باقیات اور الائشوں کو بروقت ٹھکانے لگئے۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ دو بوٹی گوشت کا خمار لائشوں کے تعفن میں دب کر برباد ہوجائے۔نیت کی خرابی جانور کی قبولیت میں آڑے آجائے۔۔۔۔اللہ حسن نیت،اوربہترین کردار عطاء فرمائے۔