مکتوب بھارت۔۔
احسان مندی اور اظہارِ تشکر کے کچھ کلمات.
(سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی ﷺ کے فضلاء میں مرد و خواتین شامل ہوتے ہیں ۔ادارہ ہذا کی خدمات کا دائرہ کئی ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔معالجین طبور تشکر کچھ تجربات و مشاہدات قلمبندکرکے بھیجتے رہتے ہیں۔ان میں سے ایک عائشہ عابد ندوی صاحبہ بھی ہیں ۔انہوں نے ادارہ ہذاء کے وٹس ایپ گروپ۔اطباء و عاملین کی کلاس۔ میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا تھا،جسے افادہ ناظرین کے لئے پیش کیا جارہا ہے۔۔ ارداہ۔سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور پاکستان)
.. استاد محترم: حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد صاحب کے نا م ۔
یہ عائزہ ہے۔ننھی سی لڑکی۔ اسلام نگر، اتر پردیش کے شہر علی گڑھ سے…
؛عمر یہی سات آٹھ سال۔ اس کے دماغ میں پہلے ایک، تین ، پانچ پھر سات گانٹھیں بن گئی تھیں۔
ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اس لڑکی کا آپریشن بھی رِسکی ہے۔ آپریشن کے دوران بھی مر سکتی ہے۔ اور اگر بچ گئی تو عمر بھر کے لئے معذور ہو جائے گی۔
وہ ہر طرف سے ناامید اور مایوس ہو کر ہمارے یہاں آئے تھے ۔ وہ لمحے مجھے یاد ہیں، اور شاید یاد رہینگے، جب اس کے گھر والے بیٹی کے لئے زارو قطار رو رہے تھے
، بلک رہے تھے ۔وہ بس بیٹی کی صحت ، زندگی مانگ رہے تھے، کہتے تھے کہ بیٹی کو پالا اس لئے نہیں کہ اسے لمحہ لمحہ مرتے دیکھیں۔
یہ بھی پڑھئے
سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی ﷺخدمات و اہداف
یہ وہ وقت تھا، جب ہم خود ٹائیفائڈ کے ہاتھوں شکست کھائے ہوئے تھے۔ ہم نے پہلے معذرت کر لی۔وہ ہمارے ایک ایسے مریض کے توسط سے آئے تھے
، جو اللہ کے حکم سے ہمارے یہاں سے شفایاب ہوئے تھے۔ دوبارہ ان لوگوں نے رابطہ کیا ، اور ساتھ ہی اس مریض سے بھی سفارش کروائی کہ..
. اس بچی کو کوئی ڈاکٹر لینا نہیں چاہتا، آپ انہیں مایوس نہ کریں۔ ہم نے استاد محترم سے اس لڑکی کا ذکر کیا، استاد محترم نے کہا تھا کہ امید ہی کہ یہ لڑکی ٹھیک ہو جائے گی ۔
اس لڑکی کا کیس کچھ آسان نہیں تھا اس کے کچھ بڑے مسائل تھے:پیدائشی طور پر اس کے دل میں سوراخ تھا۔ اس سوراخ کے علاج کے دوران رگیں بلاک ہونے لگیں
، پھر اس کو نمونیہ ہوگیا۔ اس کے علاج کے دوران سر میں درد کی شکایت ہوئی، دونوں کانوں سے گندا مواد بہتا تھا۔ جانچ کے دوران دماغ میں گانٹھ کی تشخیص کی گئی
، پہلے ایک۔ پھر تین، پھر پانچ اور پھر سات۔ جتنا علاج دیا جاتا مرض اتنا بپھر رہا تھا۔ لڑکی کے سینے اور سر یعنی دل اور دماغ میں مستقل درد رہتا تھا۔
کبھی تو درد کے شدید دورے پڑتے۔ خیر استاد محترم سے صلاح مشورہ کے بعد اس کا علاج شروع کیا گیا۔ اس کے علاج کے دوران کافی زیادہ نشیب و فراز آئے۔
جب اس لڑکی کو درد کا دورہ پڑتا تو کسی تدبیر سے کم نہ ہوتا تھا۔ اس کے گھر والے مجھے بار بار میسیج کرتے، فون کرتے، ایک طرح سے مجھے پریشان کر کے رکھ دیا تھا۔
میں نے ایک دن استاد محترم سے کہا کہ… ہم بھی دیسی طب میں ایک نیند آور دوا تیار کرینگے۔ جو مریضہ کو کھلاتے ہی نیند آ جائے، اور درد کا احساس کم ہو جائے
۔ استاد محترم نے منع کیا۔ انہوں نے کہا کہ شفا دینا ہمارا کام نہیں ہے۔ ہم بس دوا اور تدبیر کر سکتے ہیں۔ یوں نشہ آور دوا دینے سے دیسی طب کا نام خراب ہوگا
۔وہ لوگ اپنی بیٹی کے لئے بہت زیادہ پریشان تھے۔ وہ ایک بار ہمارے یہاں سے بھی مایوس ہو کر دوبارہ ایلوپیتھ ڈاکٹر کے یہاں گئے۔
وہاں سفاکیت کی انتہا یہ ہوئی کہ ڈاکٹر نے بچی کو دیکھتے ہی دور سے ہی منع کردیا۔ کہ اسے میرے پاس مت لانا۔ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا…
کہ اس کا اب میڈیکل میں سوائے آپریشن کے کوئی علاج نہیں ہے۔کبھی وہ دماغ کے ڈاکٹر کے پاس جاتے کبھی دل کے ڈاکٹر کے پاس۔ ہر جگہ سے ناامیدی اور مایوسی ہوتی۔
ایک وقت آیا ان لوگوں نے طے کر لیا کہ وہ بچی کا دل کا آپرشن کروا لینگے۔ کیونکہ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اس کے گلے کے پاس دو رگیں آپس میں مل گئی ہیں
، جس کی وجہ سے صاف اور گندا خون باہم مل جاتا ہے ، اور دماغ میں گلٹیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اگر آپریشن کر کے اتنی رگ کو کاٹ دیا جائے تو شاید دماغ کی گلٹیاں ٹھیک ہو جائیں
۔ مگر یہاں آپریشن کا خرچ لاکھوں میں تھا۔ ایک بار وہ پھر تذبذب میں تھے۔ ہم نے بھی انہیں اختیار دے دیا تھا کہ اپنی بچی کے بارے میں جو فیصلہ کرنا ہو کریں
، لیکن یہ ہمارے یہاں زیر علاج رہی تو ہر ممکن کوشش کرینگے کہ وہ آپریشن کی تکلیف اور خرچ دونوں سے بچ جائے۔ موت کے خطرات بچی پر منڈلاتے ہی رہے۔
یہ بھی ایک رِسکی آپریشن ہی تھا۔ اسی لئے مجبور والدین نے پھر ایک بار ہم سے رابطہ کیا کہ جو بھی ہو ، آپ ہی علاج دیں۔ ہم اپنی بچی کو مزید تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے ہیں
۔اس کا علاج دوبارہ شروع کیا گیا۔ لڑکی کی حالت میں کبھی افاقہ ہوتا۔ کبھی مزید بگڑ جاتی۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لڑکی نے کھانا پینا بھی بند کردیا تھا۔ کچھ کھاتی ہی نہیں
، اگر زبردستی کھلایا جاتا تو الٹی کر دیتی۔ استاد محترم نے کہا کہ. معلوم ہوتا ہے اس کا نظام ہضم جواب دینے لگا ہو۔
وہ تکلیف سے چیخ چیخ کر روتی تو اس کے گھر والے فون کر کے ہمیں سناتے کہ دیکھیں ہماری بیٹی اتنی تکلیف میں ہے۔
پھر ایک وقت آیا کہ اس کو پیشاب میں خون یا پیشاب کے بجائے خون آنے لگا۔ گھر والے آدھی آدھی رات کو بھی فون کرتے…
لڑکی کی والدہ رو رو کر کہتی تھیں کہ دیکھیں ہماری بچی اگر مرنے والی ہو نا تو ہمیں پہلے بتا دیں۔ گول مول باتیں نہ کریں اور ہمیں دھوکہ میں نہ رکھیں۔
استاد محترم نے کہا کہ معالج مایوسی کی باتیں نہیں کرتا۔ ہمارا کام علاج جاری رکھنا ہے۔ ہم نے بھی لڑکی کی والدہ کو دلاسہ دیا۔
یہ بھی پڑھئے
طب سیکھنا کیوں ضروری ہے 22ستمبر
2022
کبھی لڑکی سے بھی بات کر کے اس کو سمجھاتے، اور تسلی دیتے تھے۔ پھر استاد محترم سے مشورہ کے بعد اسے سرس کے بیج بطور قہوہ دئے گئے، کھا
نے میں صرف نرم اور ابلے ہوئے چاول یا دودھ روٹی۔ اور پینے کے لئے شہد ملا ہوا پانی۔اس کے علاوہ ہم نے ساری دوائیں بند کر دیں
۔ ہماری طبیعت بھی مضمحل ہوگئی تھی ، ایک مایوسی کہ پتہ نہیں بچی کا کیا ہو؟ دلاسہ تو دے چکے تھے ،ہمت ہماری بھی ٹوٹ رہی تھی
۔اور ہم نے سوچا کہ اب موقع ہے ، ہمیں بھی ہمارا ہنر آزمانے کا۔ ہم نے کئی سال پہلے سوجوک ایکیوپریشر کے کچھ کورسز کئے تھے
۔ جو ہمارے گھر والوں کا خیال تھا کہ وقت اور پیسوں کا ضیاع تھا۔ کیونکہ اس کورس میں لگ بھگ بارہ پندرہ ہزار روپے خرچ ہوئے تھے
۔ والد صاحب نے یہ کورس محض ہمارے شوق میں دو وجہ سے کروا دئے تھے کہ وہ اپنی بیٹی کی کوئی خواہش ٹالتے نہیں تھے
۔ اور دوسرے یہ کہ انہوں نے کہا کہ اگر میں یہ سیکھ کر کسی کو نفع پہنچا سکوں تو وہ ان کے لئے ذخیرہ آخرت ہوگا
۔ کورس سیکھنے کے بعد گھر سے نکل کر کہیں جا کر پریکٹس کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ البتہ گھر والوں پر اس کا تجربہ چلتا رہتا تھا
۔ اور جو مریض علاج کے لئے رابطہ کرتے، ضرورت معلوم ہونے پر انہیں کچھ پوائٹنس بتا دئے جاتے تھے۔ یہاں اس بچی کے معاملے میں ، جب مایوسی بڑھتی جا رہی تھی، ہمیں خیال آیا کہ چلیں، اب دوا نے کام کرنا بند کر دیا ہے، کم سے کم اس فن کا تجربہ کر کے دیکھ لیتے ہیں کہ اس سے نقصان بھی تو کچھ نہیں ہوگا۔
پھر ہم نے ایکیوپریشر کے دو پوائنٹ اور کلر تھیراپی میں ایک پوائنٹ پر نارنجی رنگ لگانے کی صلاح دی،پہلے تو دبانے اور رنگنے کا علاج انہیں سمجھ میں نہیں آیا، انہوں نے سمجھا کہ ہم کوئی مذاق کر رہے ہیں، لیکن پھر ہمارے سمجھانے پر وہ تیار ہوگئے اور یہ علاج شروع کر دیا ہم مستقل تاکید کرتے رہے کہ اب عائزہ کی دوا ہی یہی ہے
۔ یہی پوائنٹس دبانا ہے۔ یہی کلر لگانا ہے ، اور یہی سرس کے بیج بطورِ قہوہ پلانا ہے۔یہ علاج لگ بھگ دو تین ماہ چلتا رہا۔ الحمد للہ… اس میں ہمارا کچھ بھی کمال نہیں۔ محض اللہ کا کرم ہے ، مہربانی ہے کہ لڑکی دھیرے دھیرے روبصحت ہونے لگی۔ ھٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ الحمد للہ اب وہ بہت بہتر ہوگئی
۔ اس کے گھر والوں نے بار بار میسیج اور فون کرنا بند کر دیا تھا تو ہمیں خود تشویش ہونے لگی تھی یہاں تک کہ ہم نے خود ہی ایک دو بار فون کر کے لڑکی کی خیر خبر لی۔ اور ہمیں اس میں کوئی عار نہیں محسوس ہوئی کہ معالج ہو کر ہم کیسے مریض کی خیر خبر لیں۔ لڑکی ہمارے علاج میں تھی، ہمارا تو اخلاقی فرض بھی بنتا ہے کہ اس کی خبر لیں۔
اکتوبر ۲۰۲۳ کی وہ کوئی سرد اور تاریک رات تھی۔ رات کے نو ساڑھے نو بجے ہی گہرا سناٹا تھا۔ ان لوگوں نے بیٹی کے علاج کے لئے فون کیا تو ہمیں اُس کا مستقبل اُسی رات کی طرح تاریک نظر آتا تھا۔ دو دن قبل اٹھائیس مئی منگل کے روز، دن کے اجالے میں لڑکی کی والدہ کا فون تھا۔برسات کی آمد آمد ہے۔
دن کی یہ روشنی،اور موسمِ بہار کی خوشی دونوں سے ہم نے لڑکی کی صحت و مستقبل کے لئے نیک استعارہ لیا۔ نیک شگون لینا ویسے بھی اچھی بات ہے۔ عائزہ کی والدہ کہہ رہی تھیں کہ ہماری لڑکی الحمد للہ بہت حد تک ٹھیک ہوگئی ہے۔ ہم آپ کے اس احسان کو کبھی نہیں بھلا سکتے ہیں۔ آپ ہمارے لئے کیا ہیں، یہ ہم ہی سمجھ سکتے ہیں
۔ آپ کی تسلی،دلاسہ اور توجہ کی وجہ سے ہم آج یہ دن دیکھ رہے ہیں۔آپ نے ہمیں اس وقت تھاما، جب ہمیں دوسرے دھتکار چکے تھے
۔ ڈاکٹروں نے بھی ہاتھ اٹھا دیا تھا، اپنوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ لوگ انہیں دیکھ کر دور بھاگتے تھے کہ پتہ نہیں، یہ کہیں قرض مانگنے تو نہیں آرہے۔ وہ کہہ رہی تھیں۔ آپ کا بہت شکریہ کہ ہماری لڑکی اب عام بچوں کی طرح کھا رہی ہے ، کھیل رہی ہے ، پڑھنے جا رہی ہے، معمول کی زندگی پر آگئی ہے ۔ ہم ہر وقت آپ کے لئے دعا کرتے ہیں
۔ یہ وہ لمحے تھے، جنہوں نے مجھے بہت زیادہ جذباتی کردیا۔ میری آنکھوں میں شکر کے آنسو تھے۔ اپنے رب کا شکر….
جس نے اس عاجز کی لاج رکھی، اور اپنے کرم سے لڑکی کو صحتیاب کر دیا۔ اور میں یہ ساری کامیابی استاد محترم کے نام کرتی ہوں کہ وہی شکریہ اور دعاؤں کے اصل مستحق ہیں۔ کہ انہی کے حوصلے اور سہارے پر ہم نے یہ کیس لیا تھا۔ دوائیں بھی انہی کی تجویز کردہ تھیں۔ میں ایک ذرّہ بے نوا… میرا تو یہ میدان بھی نہیں تھا
۔ بس یہ اللہ کی مہربانی ہیکہ وہ جس سے کام لینا چاہتا ہے، اسباب بنا دیتا ہے، اپنی مخلوق کو اس کے دروازے پر بھیج دیتا ہے
۔ یہ سفر ہمارا ہے۔ تجربے استاد محترم کے ہیں۔ محنت ہماری ہے، مہارت ، صلاحیت، فن اور قابلیت استاد محترم کی ہے۔ سبب ہم اور ہمارا ادارہ ہے، فیض استاد محترم کا ہے
۔ ہم اور ہمارے معاونین مستحق لوگوں کو دیسی علاج فراہم کرنے کی کوشش تو ڈیڑھ دو سال سے کر رہے تھے، لیکن اب یہ سلسلہ مزید پھیل بھی رہا ہے تو یہ بھی استاد محترم ہی کی مدد، توجہ، عنایت اور رہنمائی کی وجہ سے کہ…. ہم محض پیچیدہ کیسز بھی ان کی رہنمائی کے بھروسے پر لے لیتے ہیں۔ یہ سچائی ہیکہ اگر ان کی توجہ اور شفقت ساتھ ساتھ نہ ہوتی تو ہم کبھی کے ہمت ہار چکے ہوتے۔ اگر میں اپنی کسی خوشی یا کامیابی میں اپنے والد محترم کو شامل نہ کروں تو وہ بلاشبہ ادھوری رہیگی۔ اور بڑی ناقدری بھی کہ…. حق تو یہ ہیکہ آج زندگی میں جو کچھ ملا ہے، جس مقام پر ہیں ، سب والد محترم کی محنت و قربانیوں کا ثمرہ ہے۔ اور کسی حد تک اس کیس کی کامیابی میں ، میں ان کا بھی حصہ مانتی ہوں ۔کیونکہ میں نے اس کے علاج میں اس ہنر سے مدد لی،جو والد محترم نے خالص اپنی آخرت کے لئے مجھے سکھایا تھا۔ دوسرے یہ کہ میں نے والد صاحب کو تاکید کی ہوئی تھی، اور عائزہ سمیت دو تین پیچیدہ مریضوں کے نام انہیں یاد کروا دئے تھے کہ آپ جب بھی حرمِ مکہ جائیں، ان مریضوں کے لئے ضرور دعا کریں۔ استاد محترم بھی مجھے کبھی کہتے کہ… اللہ سے دعا کریں کہ وہ انہی مریضوں کو ہمارے یہاں بھیجے، جس کے لئے اس نے شفا کا فیصلہ کیا ہے۔ اور ہر قسم کی ابتلاء و آزمائش سے اللہ کی پناہ مانگیں۔یہ تحریر افادہ عام کے لئے لکھی گئی ہے۔اور اگر اللہ کا فضل شاملِ حال رہا تو آگے بھی پیچیدہ امراض کے کامیاب علاج کو بتانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ان شاء اللہ۔ البتہ اس تحریر کو لکھنے کا مزید بھی ایک سبب ہے: کوئی تین چار ماہ پرانی بات ہوگی۔ ہمارے ادارہ کے نمبر پر کئی میسیجز، مسڈ کالز تھے۔ جواب دینے پر معلوم ہوا کہ ممبئی سے کوئی خاتون ہیں، جنہیں پینیل گلینڈ میں ٹیومر ہے۔ ایک یا دو بار آپریشن ہوچکا تھا۔ کچھ دن افاقہ رہتا۔ پھر تکلیف شروع ہوتی۔ خاتون نے لگ بھگ ستر اسی فیصد بینائی بھی کھو دی۔ ڈاکٹر یہی کہہ رہے تھے کہ ہمارے پاس اس کا علاج صرف آپریشن ہے۔اور آپریشن بھی بڑا تکلیف دہ…. کہ ناک میں سے آلات گذار کر پینیل غدود میں جمع شدہ فاسد مواد کو نکالا جاتا تھا۔ وہ لوگ کافی پریشان تھے۔ ہومیو پیتھی علاج بھی لے رہے تھے ۔خاطر خواہ فائدہ نہیں تھا۔ ہم نے اس خاتون کو بس اتنا کہا کہ دیسی طب میں اس کا علاج ہو سکتا ہے۔ باقی آپ کو جہاں اطمینان ہو رابطہ کرلیں۔ وہ کئی دن تذبذب میں تھے، پھر پتہ نہیں کہاں چلے گئے۔عائزہ جیسے نہ جانے کتنے پریشان حال مریض ہوں، ہم اگر ان کی مدد کے لئے آگے بڑھ سکتے ہیں تو ہمیں ضرور آگے آنا چاہئے۔ بلکہ دیسی طب کا علم رکھنے والوں کا فرض ہیکہ وہ اپنے متعلقین میں شعور و آگہی پیدا کریں، پریشان اور بیمار لوگوں کو بتائیں کہ دیسی طب ہر مرض کا علاج کر سکتی ہے۔ بشرط یہ کہ طبیب کی تشخیص صحیح ہو۔ اور کسی بھی مریض کو ابتدائی مرحلے میں ہی اگر دیسی طب سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کے صحتمند ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن لوگ دیسی طب کے پاس اس وقت آتے ہیں، جب ہر جگہ سے مایوس ہو چکے ہوتے ہیں۔ بہرحال طبیب صرف کوشش کرتا ہے۔ یقینی طور پر شفا اللہ کے حکم سے ہی ہے