میو قوم کے وٹس ایپ گروپس۔
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔
کسی بھی وٹس ایپ گروپ کو کسی قوم یا یا کمیونٹی کی طرف منسوب کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایڈمنز حضرات اس توسط سے اپنی بات لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں ۔ڈیسکرپشن میں بھی گروپس کے اغراض ومقاصد لکھے جاتے ہیں۔یہ مواصلاتی دنیا میں ایک انقلاب ہے۔جس کے فوائد و ثمرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔وٹس ایپ گروپس میں شامل ممبران تک بات/افکار /اور مقاصد پہنچانے میں تریز ترین ذریعہ ہیں۔بنانے والے نے کمال مہارت سے اس کی کوڈنگ کی ہے کہ۔ایڈمنز لوگ اسے اونلی ایڈمن کردیں یا پھر ہر کسی کو بات کرنے اور اظہار خیال کی اجازت دیں ۔
میو قوم کے لوگوں نے بھی بے شمار گروپس بنائے ہوئے ہیں۔جن میں ہزاروں لوگ ایڈ ہیں۔ان میں ہر سطح اور ہر درجہ کی ذہنیت کے لوگ ہوتے ہیں۔کچھ لوگ بظاہر ممبر ہوتے ہیں لیکن گروپس سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ۔کچھ لوگ ہر بات میں رائے دینا اور اپنی بات کرنا ضروری خیال کرتے ہیں ۔
میو گروپس میں کمزوریاں۔
مجھے (حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو)بہت سے گروپس میں لوگوں نے ایڈکیا ہوا ہے۔کچھ دنوں تک میو قوم کی خدمت کے جذبہ سے سرشار بحث و مباحثہ کا حصہ بھی رہا ۔لیکن جلد سمجھ میں آیا کہ یہ گروپس گوکہ میو قوم کے نام سے بنائے گئے ہیں۔لیکن ان کے ایڈمنز خود کو ایک اعلی مخلوقات میں شمار کرتے ہیں اختلاف رائے۔اور خلاف مزاج باتیں کسی بھی ممبر کو ریمو کرنے کا اعلی ترین جواز ہیں ۔یعنی خلاف مزاج بات کو گروپس پالیسیوں کی خلاف ورزی کہہ کر اپنی بھرانس نکال لیتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے۔
میو قوم کے جوانوں کے لئے فلاحی منصوبہ سعد ورچوئل سکلز اورالجبارمیو ایجو کیشن گروپ کا اشتراک عمل
Saad Tibbia College (Tibb4all)
گروپس کے ایڈمنز اورمیوقوم کی خدمت۔
ایک دو سالوں سے گروپس میں شرکت سے جو تجربات حاصل ہوئے۔کی بنیا دپر کہہ سکتا ہوں کہ گروپس ایڈمنز نے اپنی کچھ ناآسودہ خواہشات۔دَبی ہوئی چوہدر۔اور اپنی انا کی تسکین کو میو قوم کی خدمت کا نام دیا ہوا ہے۔ان کے سامنے کوئی خاص منزل نہیں ہے ۔نہ ان کے ذۃن میں کوئی خدمت کا خاکہ ہے۔لفظ میو ہے۔اور ہم ہیں جو ایڈمنز کی مرضی ہوگی وہی میو قوم کی خدمت قرار پائے گی ۔اور اسے میو قوم کی خدمت سمجھ کر قبول کرلیا جائے گا۔یہی کچھ میو قوم کے نام پر بننے والی تنظیموں کا حال ہے۔
گروپس میں شرکت بلا مقصد وقت کا ضیاع۔
میو قوم کی خدمات میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا مقصد میو قوم کی خدمت قرار دیا ہوا ہے۔یہ لوگ بلاحیل و حجت ۔ داد و دہش کے بغیر یکسوئی سے خدمت میں لگے ہوئے ہیں انہیں کسی کے آنے جانے یا مالدار /غریب ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا
یہ قوم کے سچے اور کھرے خدمت گزار ہیں۔ان کی قدر کرنا میو قوم پر لازم ہے۔یہ ہیرے لوگ قدرت کا عطیہ ہیں۔
کچھ لوگ کرتے دھرتے کچھ نہیں ہیں صرف ٹانگ اڑانے کو میو قم کی خدمت قرار دیتے ہیں۔ان بے چاروں کی سوچ کا
معیار ہی یہ ہے اس لئے انہیں نفسیاتی مریض سمجھنا چاہئے۔
مجھے یہ لکھنے میں باک نہیں کہ ہمارے میو قوم کے لوگوں نے سوچنے کو گناہ قرار دیا ہوا ہے۔پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑ ھ کوئی فرق نہیں پڑتا ۔کیونکہ کسی کے پاس قوم کی بہتری یا فلاح و بہبود کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔جو لوگ منصوبہ بندی اور اپنی حدبندی کرکے کام میں مصروف ہیں امید ہے کہ ان کی کاوشیں ضرور رنگ لائیں گی۔
میو قوم کی تنظیموں اور گروپس میں سوچ کا فقدان ہے۔منصوبہ بندی اور کام کی درجہ بندی نہیں ہے۔ورنہ اس وقت قوم کو منصوبہ بندی اور درجہ بندی کی سخت ضرورت ہے۔۔۔
میو قوم کو درجہ بندی۔خدمات کا میدان منتخب کرنا اشد ضروری ہے۔منصوبہ بندی نہ ہونے کہ وجہ سے ٹکرائو کی پالیسی جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔مثلا ایک جماعت یا تنظیم اپنا منشور واضح کردے ۔ایک وٹس ایپ گروپ اپنے اغراض ومقاصد متعین کرلے ۔ بے شمار شعبے ہیں۔جو جس شعبے میں مہارت رکھتا ہے اسے حق پہنچتا ہے وہ اپنی میو قوم کی اس شعبہ میں بہتر خدمت کرسکے ۔
مثلا ایک ٹیچر ہے اسے تعلیم کے حوالے سے اپنی خدمات پیش کرنے چاہیئں۔ایک زمیندار ہے اس حوالے سے قوم کو اس کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ایک انجینئر ہے۔قوم کو اس کی بھی سخت ضرورت ہے۔یہی حال کاروبار۔تجارت۔آئی ٹی سیکٹر۔ سرکاری ملازمت۔کارخانہ جات یعنی میدان عمل میں اتنی وسعت ہے کہ میو قوم کے بہترین تجربہ کار لوگوں کو آگے لایا جاسکتا ہے۔
مثلاََ ایل شاعر و مصنف کو جو احترام ملنا چاہئے۔دیا جائے۔ایک کاروباری کو جو مواقع ملنا ضروری ہیں۔ایک دینی مدارس یا تعلیم و تعلم میں خدمات سرانجام دے رہا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔
تمام شعبے اپنے اندر اتنی وسعت رکھتے ہیں کہ ہزاروں لوگ اپنی خدمات پیش کرسکتے ہیں ۔ٹکرائو کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔یہ کائنات اتنی وسیع ہے کہ ٹکائو کا سوال ہی پید نہیں ہوتا۔۔