سیاست کے فرعون
پیش لفظ
پاکستان کا ہر چھوٹا بڑا لیڈر، سیاسی کارکن اور باشعور شہری جمہوریت کا کلمہ پڑھتا ہے لیکن جمہوریت ہے کہ اس ملک میں جڑی نہیں پکڑ چکتی۔ ستم ظریفی یہ کہ وہ ملک جو ایک جمہوری عمل کے نتیجے میں بنا وہاں عملا کسی چیز کا فقدان ہے تو وہ جمہوریت ہے۔ یہاں تک کہ جب یہاں ایک جمہوری حکومت بر سراقتدار ہوتی ہے تو اس وقت بھی جمہوری رویئے نہیں اپنائے جاتے اور جمہوری قدروں اور اصولوں کی خوب خوب مٹی پلید کی جاتی ہے۔ اور پھر مارشل لاء لگ جاتا ہے۔ ہم جہاں سے ہیں، وہیں واپس آکھڑے ہوتےہیں۔ ہمارا سارا سفر کھوٹا ہو جاتا ہے۔چلتے
ایسا کیوں ہے؟
کیا ہم ایک قوم کے طور پر جمہوریت کے اہل ہی نہیں؟
کیا سارا قصور فوج کا ہے جو ملک میں بار بار مارشل لاء لگا دیتی ہے؟ پاکستان کی سلامتی، بجتی اور ترقی کے لئے ان چیھتے ہوئے سوالوں کا صحیح صحیح جواب اس قدر ضروری ہے کہ اس پر سنجیدگی کے ساتھ اور پوری گہرائی میں اتر کر غور کرناچاہیے۔
یہ بھی پڑھیں
پاکستان میں 1958ء – آزاد دائرۃ المعارف
ایک مدت کے غور و فکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب تک ہمارے ملک سے جاگیر داری اور ہماری سیاست سے جاگیر داروں کو نکال باہر نہیں کیا جاتا، پاکستان میں جمہوریت جڑ پکڑی نہیں سکتی۔ یہ نتیجہ فکر اس اہم ترین اور انتہائی حقیقت پسندانہ نظریے پر مینی ہے کہ ہر معاشرتی اور معاشی ( سوشوا اکنامک) نظام اپنے لئے ایک مخصوص سیاسی نظام کو جنم دیتا ہے۔ اگر معاشرتی اور معاشی نظام کچھ اور ہو اور سیاسی نظام اس سے لگا نہ کھاتا ہو تو ان میں سے ایک نظام دوسرے نظام کو کھا جائے گا۔
چنانچہ ہمارے یہاں جاگیرداری نظام جمہوری نظام کو بار بار کھاتا چلا جا رہا ہے۔ یہ دونوں نظام ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اگر جمہوری نظام مستحکم بنیادوں پر قائم ہوتا تو وہ جاگیرداری نظام کو کھا جاتا۔ لیکن ہمارے ہاں جاگیرداری نظام اتنا مضبوط ہے کہ وہ جمہوری نظام کی جڑ لگنے ہی نہیں دیتا۔ کچی بات تو یہ ہے کہ جاگیرداری نظام اس معدے کی طرح ہے جو جمہوریت کو ہضم کر ہی نہیں سکتا۔
یہ بھی پڑھئے
پاکستان میں پہلا مارشل لا: ‘عجلت میں کیا گیا اسکندر مرزا ..
چنانچہ ہم جب بھی اس پر اوپر سے جمہوریت ٹھونستے ہیں تو وہ اسے ہر بار اگل دیتا ہے۔
اس بظاہر سادہ کی حقیقت کے اندر معنی کا ایک جہان پوشیدہ ہے۔ ہماری معاشرت اور معیشت پر صدیوں سے جاگیرداری نظام مسلط ہے۔ یہ نظام جہاں جہاں موجود ہوا، وہاں سیاسی سطح پر بادشاہت یا آمریت ہی قائم ہوئی۔ جمہوریت تو پیدا ہی اس وقت ہوئی جب جاگیرداری نظام ٹوٹا۔ یاد رہے کہ یونان کی قدیم شہری جمہوریت ” میں ہر شخص یا شہری کو ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا کہنے کو تو قبائلی نظام میں بھی ایک طرح کی جمہوریت پائی جاتی ہے لیکن آج ہم جس نظام کو جمہوریت کا نام دیتے ہیں یا جس جمہوری نظام کے خواہش مند ہیں، وہ ہر بالغ شخص کو رائے دہی کا آزادانہ اور منصفانہ حق دے کر ہی قائم ہو سکتا ہے۔
Pakistan Marshall Law | Dr Mubarak Ali
ان معنوں میں جمہوریت اس وقت آئی اور انہی ملکوں میں آئی جہاں صنعتوں نے فروغ پایا، زرعی معاشرہ صنعتی معاشرہ میں بدلا اور یوں جمہور کا زمین سے بندھا ہوا ووٹ آزاد ہو گیا۔ اس آزادی نے جاگیر دارانہ معاشرت اور معیشت کا خاتمہ کر کے جمہوریت کو استحکام بخشا۔
بے شک آج پاکستان میں مارشل لاء منذ نہیں اور جمہوریت کے عنوان سے یہاں سیاستدانوں کی حکومت قائم ہے لیکن کیفیت یہ ہے کہ پانچ فیصد جاگیر دار اسمبلیوں کی پچانوے فیصد نشستوں پر قابض ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کا معاشرتی اور معاشی نظام آج بھی جاگیرداری کے حوالے سے چل رہا ہے۔
ملک کا ہر قانون جمہور کے بجائے جاگیرداروں کے فائدے کے لئے بنتا ہے۔ مہنگائی، بے روز گاری اور بیماری کی مار جمہور
کھاتے ہیں۔ ٹیکس دیتا ہے تو درمیانے طبقے کا نوکری پیشہ شخص یا دکاندار اور صنعتکار لیکن فائدے اٹھاتا ہے اور ہر طرح کے ٹیکس سے بری ہے تو بڑا زمیندار یا جاگیر دار ۔ یہی بڑے زمیندار اور جاگیر دار فوج کے معاون رہے ہیں۔ انہی کے کندھوں پر سوار ہو کر فوج مارشل لاء
باقی کتاب میں پڑھئے۔