انسانی کمزوریاں ا ور نفسیات قران کریم کی روشنی میں
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
تخلیق انسانی انسانی سوچ کے لئے ہمیشہ سے معمہ و دلچسپی کا سبب رہی ہے۔تخلیق انسانی کے بارہ میں تجسس رہا ہے اور مذاہب و ادیان میں مختصر ومفصل روایات موجود ہیں۔قران کریم عطیہ خدا وندی ہے۔جو فطرت کا دوسرا نام ہے جو قوانین کائنات میں جاری و ساری ہیں۔ان کا لفظی مجموعہ قران کریم ہے۔جو بھی اس پر غؤر کرے گا گویا کہ انسان اپنے آپ کا مطالعہ کرتا ہے۔
اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ (الرحمن: 1تا3)
’’سب سے بڑے مہربان نے انسان کو قرآن کی تعلیم دی، اسی نے انسان کو پیدا کیا۔‘‘
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْـًٔا مَّذْكُوْرًا اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا (الدھر: 1تا 3)
’’انسان پر ایسا دور بھی گزرا ہے جب اس کا ذکر تک نہ تھا؟یقیناً ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ ہم اس کی آزمائش کریں ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ بلاشبہ ہم نے اسے سیدھے راستے کی راہنمائی کی ، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔‘‘
تخلیق انسانی کے مختلف مراحل ہیں ایک مرحلہ ایسا بھی ہے جسے اس وقت تک بیان کرنا شاید انسانی علوم و فنو اور ان کی تحقیقات سے بہت آگے کی بات ہے۔قران کریم کے بیان کردہ انسانی تخلیق کے نکات کو ابھی تک سمجھنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔کسی چیز کی حقیقت کا ہونا اور اس سے لاعلمی دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔
جس چیز کی حقیقت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے ۔انسان پر ایک ایسا وقت بھی گزرا ہےجو اس وقت تک قابل ذکر نہیں ہے۔ممکن ہے کل کلاں اللہ علوم تحقیقات میں اتنی وسعت پیدا فرمادیں کہ یہ مزکور نہ ہونے والےحالات قابل ذکر ہوجائیں۔
تخلیق انسانی کے آٹھ طبعی کمزوریاں
قرآن مجید نے تخلیق انسان کے مختلف تذکرہ کرتے ہوئے اس کی آٹھ طبعی کمزوریوں کا ذکر کیا ہے۔ ہر کمزوری کے ذکر سے پہلے یا بعد توحیدِ باری تعالیٰ کا کوئی نہ کوئی پہلو بیان فرمایا ہے تاکہ انسان عقیدۂ توحید اور فکرِ آخرت کے ذریعے اپنی کمزوریوں پر قابو پا سکے کیونکہ انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی توحید کو ماننا، اسے سمجھنا اور اس کے تقاضے پورے کرنا اور آخرت میں اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اس لیے اس کے بغیر انسان اپنی کمزوریوں پر قابو نہیں پا سکتا۔ یہ کمزوریاں درج ذیل الفاظ میں بیان کی گئی ہیں۔
وَ يَتُوْبَ عَلَيْكُمْ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا (النساء:26۔28)
’’اور تمہاری توبہ قبول کرے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ،حکمت والا ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ تم پر آسانی کرے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ ‘‘
طبعی کمزوریوں میں ایک انسان کا کمزور ہونا ہے اسلام انسان کی فطرت کے موافق اور آسان بنایا گیا ہے، انسانی طبائع ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتیں۔ دنیاوی ترغیبات، معاشرتی پریشانیاں اور کاروباری مشکلات انسان پرگہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔جن کی وجہ سے آدمی سستی،کم ہمتی اور بے توجہی کاشکار ہو جاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے دین میں کوئی ایسی بات نہیں رکھی جو انسان کی قوتِ عمل سے باہر ہو۔ یہاں انسان کے کمزور ہونے کا ذکر کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا علیم، حکیم ہونا ذکر کیا ہے تاکہ انسان ذاتِ کبریا کو علیم وحکیم جانتے ہوئے اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی کوشش کرے۔
اَنْ اَنْذِرُوْا اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنَا فَاتَّقُوْنِ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ (النحل: 2تا 4، الکھف: 54)
’’یہ کہ لوگوں کو متنبہ کرو کہ بے شک اس کے سوا کوئی معبود نہیں لہٰذا مجھ ہی سے ڈرتے رہو ۔اس نے آسمانوں اور زمین کوپیدا کیا۔ وہ اس سے بہت بلند ہے جنہیں وہ شریک بناتے ہیں ۔اس نے انسان کو ایک قطرے (نطفہ) سے پیدا کیا پھر وہ ناگہاں جھگڑنے والاہوگیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو چیزپیدا کی ہے اسے انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا ہے
اس لیے انسان کی تخلیق کے بیان سے پہلے زمین وآسمان کی تخلیق کا ذکر فرمایا ہے۔ گویا کہ مکیں سے پہلے مکاں کا بیان ہوا۔ اب انسان کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ اے انسان تجھے اللہ تعالیٰ نے ایک حقیر پانی سے پیدا کیا ہے اور زمین و آسمانوں کی تخلیق کی طرح تیری تخلیق میں بھی کوئی شریک نہیں۔ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے تومرد اور عورت کے ملاپ کے نطفہ سے بچہ پیدا کرتا ہے ،اگر نہ چاہے تو ان کے زندگی بھر کے ملاپ سے کچھ بھی نہیں پیدا ہوتا، نہ انہیں کوئی دوسرا اولاد عطا کر سکتا ہے۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود انسان نہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو اس کا شریک بناتا ہے بلکہ شرک جیسے عظیم گناہ کے من گھڑت دلائل بھی دیتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کھلے الفاظ میں جھگڑا کرنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا ہر انسان کو اپنی تخلیق کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی اوقات سامنے رکھنی چاہیے کہ وہ کیا تھا، کہاں پہنچا اور اب کس ذاتِ کبریا کے ساتھ اوروں کو شریک بنا کر اس کے ساتھ جھگڑا کرتا ہے۔ ( یٰس : ۷۷)
3 انسان جلد باز ہے
وَ اِذَا رَاٰكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا اِنْ يَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُزُوًا اَهٰذَا الَّذِيْ يَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْ وَهُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ هُمْ كٰفِرُوْنَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ سَاُورِيْكُمْ اٰيٰتِيْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ (الانبیاء: 36۔37۔بنی اسرائیل: 11)
’’منکرین حق جب آپ کو دیکھتے ہیں توآپ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کہتے ہیں کیا یہی وہ شخص ہے جو تمہارے خدائوں کاتذکرہ کرتا ہے؟ ان کا اپنا حال یہ ہے کہ الرّحمان کے ذکر کے منکرہیں۔انسان جلد باز پیدا کیاگیا ہے عنقریب ’’اللہ ‘‘تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا لہٰذا مجھ سے جلدی کامطالبہ نہ کرو۔ ‘‘
انسان کی کمزوریوں میں عُجلت پسندی بھی ہے جو ہر انسان میں کسی نہ کسی حد تک پائی جاتی ہے۔ خوشی ، غمی ، کامیابی ، ناکامی ، تنگدستی اور کشادگی ، اقتدار اور اختیار ملنے پر انسان کسی نہ کسی موقع پر ضرور جلد باز ہوجاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ ایماندار خوشی کے موقع پر شکر اور غم کے موقع پر صبر کرکے اس کمزوری پر قابو پالیتا ہے لیکن جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتا وہ ان مواقعوں پر جلد بازی کا مظاہرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ رسول اکرمﷺ جب کفار اور مشرکین کو ان کے کفر و شرک کے انجام سے ڈراتے تو وہ لوگ اپنے خوفناک انجام سے ڈرنے کی بجائے آپ سے عذاب کا مطالبہ کرتے کہ جس عذاب سے ہمیں صبح و شام ڈرایا جاتا ہے۔
آخر اُس کے آنے میں کیا رکاوٹ ہے ؟ اے محمد! تم سچے ہو تو یہ وعدہ ا ب تک پورا کیوں نہیں ہوا؟بسا اوقات اُن کے مظالم اور پراپیگنڈہ سے متاثر ہو کر مسلمان بھی یہ سوچتے کہ ان لوگوں پر اب تک عذاب کیوں نہیں آیا ؟ یہاں مسلمانوں کو تسلّی دینے کے ساتھ کفار کو انتباہ کیا گیا ہے کہ جلد بازی کا مظاہرہ مت کرو عنقریب اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائے گا یعنی جس عذاب کا تم مطالبہ کرتے ہو اُسے بہت جلد اپنے سامنے پائو گے۔
عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِﷺالأَنَاۃُ مِنَ اللہِ وَالْعَجَلَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ (رواہ الترمذی :باب مَا جَاءَ فِی التَّأَنِّی وَالْعَجَلَۃِ)
’’ سیدنا سہل بن سعد اپنے باپ سے وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا: تحمل مزاجی اللہ کی طرف سے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے ۔ ‘‘
4انسان ظالم اور نا شکرا ہے
وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ (ابراھیم: 34، بنی اسرائیل: 67، الحج: 65، 66، الزخرف: 15)
’’اور تمہیں ہر چیز عطا کی جو تم نے اس سے مانگی اور اگر تم اللہ کی نعمت شمار کرو تو اسے شمار نہیں کر سکو گے ۔یقیناً انسان ظالم اور نا شکرا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ چاہتا تو انسانوں کو صرف حکم دیتا کہ مجھ پر ایمان لائو اور میری عبادت کرو ۔ اس نے صرف حکم دینے کی بجائے اپنی ذات پر ایمان لانے اور اپنی عبادت کے استحقاق کے بے شمار دلائل دیے ہیں۔ جس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اے لوگو! اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا۔ مگر اس نعمت توحید کو ماننے کی بجائے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہوئے ناشکری کرتا ہے۔
5 انسان جلد مایوس ہونے والا ہے
وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ وَّكَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا وَلَىِٕنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ١ اِنَّهٗ لَيَـُٔوْسٌ كَفُوْرٌ (ھود: 7، 9)
’’اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا تا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرنے والا ہےبلاشبہ اگرہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازیں پھر اسے اس سے واپس لے لیں تو یقیناً وہ انتہائی نا امید اوربے حد ناشکرا ثابت ہو تا ہے۔ ‘‘
ایسے لوگوں کی حالت کاذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ایسے آدمی کو ہم اپنی رحمت سے بہرہ ور کریں اور اس کے بعد اپنے کرم کا ہاتھ پیچھے ہٹائیں تو وہ حوصلہ کرنے کی بجائے ناشکری اور مایوسی کااظہار کرتا ہے ۔ فخر وغرور کرتا ہے۔
((عَنْ صُہَیْبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہﷺعَجَبًا لأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہُ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہُ (رواہ مسلم :باب الْمُؤْمِنُ أَمْرُہُ کُلُّہُ خَیْرٌ)
’’سیدناصہیبt کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول e نے فرمایا: مومن کا عجب معاملہ ہے بے شک اس کے تمام کاموں میں بہتری ہے۔ مومن کے سوا یہ کسی کے لیے نہیں ۔مومن کو خوشی ملتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے یہ اس کے لیے بہتر ہے ، اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے، یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔‘‘
6 انسان بڑا بخیل واقع ہو ا ہے
اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰى اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَجَعَلَ لَهُمْ اَجَلًا لَّا رَيْبَ فِيْهِ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا (بنی اسرائیل: 99،100)
’’اور کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا وہ اس پر قادر ہے کہ ان جیسے اورپیدا کردے ،اس نے ان کے لیے ایک وقت مقرر کر دیا ہے جس میں کوئی شک نہیں کیونکہ انسان بہت بخیل ہے۔ ‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر انسان کا کچھ نہ کچھ طبعی رجحان بخل کی طرف ہوتاہے لیکن کافر اس لیے زیادہ بخیل ہوتاہے کہ اسے آخرت میں کسی اجروثواب کی امید نہیں ہوتی مال کے حوالے سے کافر کے بخیل ہونے کا ذکر فرماکر یہ واضح کیا گیا ہے۔یہ اس کی کم ظرفی کا نتیجہ ہے کہ جس طرح وہ اپنے ہاتھ سے کوئی چیز دینا پسند نہیں کرتااسی طرح ہی اپنا باطل نظریہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔کیونکہ اسلام قبول کرنے میں اُسے اپنے مال اور دنیوی عزت کے بارے میں نقصان کا اندیشہ ہوتاہے۔
7انسان ظالم اور جاہل ہے
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا لِّيُعَذِّبَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِكِيْنَ وَالْمُشْرِكٰتِ وَيَتُوْبَ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا (الاحزاب: 72۔73)
’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا وہ اس سے ڈر گئے اور اِسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے مگر انسان نے اُسے اٹھا لیا، بیشک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔اللہ منافق مردوں اورمنافق عورتوں اور مشرک مردوں اورمشرک عورتوں کو سزا دے گااور مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول فرمائے گا۔ اللہ درگزر کرنے والا اور مہربانی فرمانے والا ہے۔‘‘
اہلِ علم کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ’’اَلْاَمَانَۃَ‘‘ سے مراد خلافت کی ذمہ داریاںہیںیہ ایسا اختیار اور ذمہ داری ہے کہ آسمانوں نے اپنی وسعت وبلندی ،زمین نے اپنی جسامت اورکشادگی،پہاڑوںنےاپنی بلندیوں اور مضبوطی کے باوجودعرض کی۔اے بارِالٰہا ہم یہ امانت اٹھانے سے آپ کے حضور معذرت کرتے ہیں ہم آپ کی سمع و اطاعت کرتے رہیں گے جب یہ امانت انسان کے سامنے پیش کی گئی تو اس نے کمزور ہونے کے باوجود اسے اٹھا لیا جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں اپنی حد سے آگے بڑھنا ، بلا سوچے سمجھے کئی کام کرگزرنا اورمنصب کے شوق میںذمہ داری پر ذمہ داری اـٹھائے جانا ہے۔
یہ بھی جہالت اور ظلم کی ایک قسم ہے اسی سبب انسان اپنے آپ اور دوسروں پر ظلم اور جہالت کا ارتکاب کرتا ہے جب کسی کو کچھ اختیار ملتے ہیں تو وہ یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتاکہ میں اس منصب کاحق ادا کر سکوں گا یا نہیں۔بے شمارانسان منصب ، شہرت، مفادات اور اختیارات کے شوق میں ذمہ داری پر ذمہ داری اٹھائے جاتے ہیں۔ اس طرح ذمہ داری اٹھانے والا ایک طرف اپنے آپ پر ظلم کر تا ہے اور دوسری طرف اپنے اقتدار اور اختیار سے تجاوز کر کے دوسروں پر ظلم ڈھاتا اور اپنے رب کا باغی بن جاتا ہے یہ انسان کی جہالت اوربڑا ظلم ہے ۔
8انسان کم حوصلہ ہے
وَلَا يَسْـَٔلُ حَمِيْمٌ حَمِيْمًا يُّبَصَّرُوْنَهُمْ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِيْ مِنْ عَذَابِ يَوْمِىِٕذٍ بِبَنِيْهِ وَصَاحِبَتِهٖ وَاَخِيْهِ وَفَصِيْلَتِهِ الَّتِيْ تُئْوِيْهِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا ثُمَّ يُنْجِيْهِ كَلَّا اِنَّهَا لَظٰى نَزَّاعَةً لِّلشَّوٰى تَدْعُوْا مَنْ اَدْبَرَ وَتَوَلّٰى وَجَمَعَ فَاَوْعٰى (المعارج: 10تا 18)
’’اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کی خبر نہیں لے گا۔ حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے، مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو۔ اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو۔ اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے دنیا میں پناہ دینے والا تھا۔ اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب فدیہ میں دے اور یہ اسے نجات دلا دے۔ ہرگز نہیں وہ بھڑکتی ہوئی آگ کی لپٹ ہو گی۔ جو چمڑیوں کو اُدھیڑ دے گی۔ وہ آگ پکار پکار کر اپنی طرف بلائے گی، ہر اس شخص کو جس نے حق سے منہ موڑا۔اور پیٹھ پھیری۔ اور مال کمایا اور اسے جمع کرکر کے رکھا۔‘‘
اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا (المعارج: 19)
یقیناً انسان کم حوصلہ پیدا کیا گیا ہے۔‘‘
انسان کی طبعی کمزوریوں میں ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ تھوڑے حوصلے والا ہے۔ اس کمزوری کی وجہ سے نہ صرف دوسرے کے احسان فراموش کر دیتا ہے بلکہ ایسی حرکات کرتا ہے کہ اسے اپنی کہی ہوئی باتوں اور کیے ہوئے کاموں پر پچھتاوا نہیں ہوتا ہے۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ كَبَدٍ (البلد: 4)
’’درحقیقت ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔‘‘
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (العلق:1– 2)
’’ اس رب کے نام کے ساتھ پڑھیں جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ ‘‘
وَفِيْ اَنْفُسِكُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (الذاریات: 21)
’’اور تمہارے وجود میں بھی نشانیاں ہیں کیا تم نہیں دیکھتے؟‘‘
فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِنْ مَّآءٍ دَافِقٍ يَّخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَ التَّرَآىِٕبِ (طارق: 5تا 7)
’’چنانچہ انسان غور کرے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے؟وہ ایک اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔ جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔‘‘
علم الاجنین
علم الجنین (Embryology) کی رو سے یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جنین (Foetus) کے اندر اُنثیین (Testes) یعنی وہ غدود ہیں جن سے مادّۂ منویہ پیدا ہوتا ہے ، یہ ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان گردوں کے قریب ہوتے ہیں۔ جہاں سے بعد میں آہستہ آہستہ فوطوں میں اُتر جاتے ہیں یہ عمل ولادت سے پہلے اور بعض اوقات اس کے کچھ بعد ہوتا ہے لیکن پھر بھی ان کے اعصاب اور رگوں کا منبع ہمیشہ وہی مقام ( بَیْنَ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ) ہی رہتا ہے۔ بلکہ ان کی شریان (Artery ) پیٹھ کے قریب شہ رگ (Aorta) سے نکلتی ہے اور پورے پیٹ کا سفر طے کرتی ہوئی ان کو خون مہیا کرتی ہے۔ اس طرح حقیقت میں ’’ اُنثیین‘‘ پیٹھ ہی کا جُز ہیں جو جسم کا زیادہ درجۂ حرارت برداشت نہ کرنے کی وجہ سے فوطوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔
علاوہ بریں مادۂ منویہ اگر چہ ’’انثیین ‘‘پیدا کرتے ہیں اور وہ کیسۂ منویہ (Seminal Vesicles) میں جمع ہو جاتا ہے مگر اس کے اِخراج کا مرکز ِ تحریک( بَیْنَ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ) ہوتا ہے اوردماغ سے اعصابی رو جب اس مرکز کو پہنچتی ہے تب اس مرکز کی تحریک (Triger action) سے کیسۂ منویہ سکڑتا ہے اور اس سے ماءِ دافق پچکاری کی طرح نکلتا ہے۔ اس لیے قرآن کا بیان عین علمِ طب کی جدید تحقیقات کے مطابق ہے۔ (الطارق: ۵تا۱۰)
اس پراسس(Process) کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کو آسان بنایا جس کا یوں تذکرہ فرمایا ہے۔
قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَا اَكْفَرَهٗ مِنْ اَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ مِنْ نُّطْفَةٍ خَلَقَهٗ فَقَدَّرَهٗ ثُمَّ السَّبِيْلَ يَسَّرَهٗ (عبس: 17تا20)
’’ہلاک ہو گیا انسان کہ وہ کس قدر ناشکرا ہے۔ کس چیز سے اسے پیدا کیا ہے؟ اس نے اسے ایک نطفہ سے پیدا کیا پھر اس کا وقت مقرر کیا۔ پھر اس کے لیے راستہ آسان کیا ۔‘‘
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ (المومنون:12تا14)
’’ اور یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا پھرہم نے اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا۔ پھربوٹی سے ہڈیاں بنائیں پھرہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اسے ایک دوسری شکل میں بناکھڑا کیا۔ بڑا ہی بابرکت ہے اللہ سب کاریگروں سے بہترین کاریگر۔‘‘
هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْا اَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُوْنُوْا شُيُوْخًا وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوْا اَجَلًا مُّسَمًّى وَّلَعَلَّكُمَْعْقِلُوْنَ (المؤمن: 67)
’’وہی تو ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے ،پھر وہ تمہیں بچے کی شکل میں پیدا کرتا اور تمہیں بڑا کرتاہے تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ،پھر بڑھاپے کو پہنچو۔تم میں سے کسی کو پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ تم اپنے وقت مقررہ تک پہنچو اور اس لیے کہ تم حقیقت کو سمجھو۔‘‘
ارشاد ہوا کہ اسی نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا یعنی سیدنا آدمu اور آدمuسے اس کی بیوی کو پیدا کیاپھر ان سے انسان کی آفزائش کا سلسلہ شروع فرمایا ۔ اور تمام انسانوں کی تخلیق کا آغاز نطفہ سے کیا جس سے لوتھڑا بنایا پھر بچہ بنا کرتمہیں تمہاری مائوں کے بطن سے پیدا کیا اورتمہیں بھرپور جوانی تک پہنچایا پھر تمہیں بوڑھا کرتا ہے اوراس کے بعد تم اپنی موت کے وقت کو پہنچ جاتے ہو یہ تخلیقی مراحل اس لیے بتائے اورسمجھائے جارہے ہیںتاکہ تم سمجھنے کی کوشش کروکہ وہی ایک ذات ہے جو تمہیں زندگی عطاکرتی ہے اوروہی تمہیں موت سے ہمکنا ر کرتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق ہونے کے ثبوت میںانسان کی تخلیق کا کئی بار تذکرہ کیا ہے اوربار بار انسان کو توجہ دلائی ہے تاکہ انسان اپنے بارے میںغور کرے کہ اسے کیسے اورکس نے اورکس لیے پیدا کیاہے۔ ظاہربات ہے کہ اسے صرف ایک ’’اللہ‘‘ ہی نے پیدا کیاہے۔ لہٰذا عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ اسی سے مانگنا اوراسی کی عبادت کرنی چاہیے ۔
مِنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمٰنِيَةَ اَزْوَاجٍ يَخْلُقُكُمْ فِيْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِيْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ
’’اس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا پھر اُس جان سے اُس کی بیوی کو پیدا کیا ، اور اس نے تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نر ومادہ پیدا کیے، وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد دوسری شکل دیتا ہے، یہی اللہ تمہارا رب ہے اسی کی بادشاہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے پھر تم کدھر سے بہکائے جا رہے ہو۔‘‘ (الزمر: 6)
اسی نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا اورپھر اس سے اس کی بیوی کو پیدا کیااسی نے تمہارے لیے آٹھ قسم کے چوپائے پیدا فرمائے کچھ کو تم بار برداری اورسواری کے لیے استعمال کرتے ہو ،کچھ کا دودھ پیتے اور گوشت کھاتے ہو ،ان سے اور بھی فوائد حاصل کرتے ہو ۔ وہی تمہیں تمہاری مائوں کے بطنوں میں تین اندھیروں میں پیدا کرتا ہے یہ ہے تمہارا ’’اللہ‘‘ جس نے تمہیں پیدا کیا اوروہی تمہاری ہر قسم کی ضرورتوں کو پورا کرتاہے اسی کی بادشاہی ہے اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اسے چھوڑ کر تم کہاںبہکئے جا رہے ہو ۔
يٰاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَآءً وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا(النساء: 1)
’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈر جائوجس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو، اور رشتے ناطے توڑنے سے بچو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔‘‘
اس فرمان کا آغاز ’’اِتَّقُوْا رَبَّکُمْ‘‘ سے ہوا ہے۔ اسمِ رب میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اظہار ہوتا ہے جس میں شفقت، الفت اور قربت کا تصور پایا جاتا ہے ۔
ڈریا اس بات سے جاتا ہے جس میں کسی دوسرے کا اختیار ہو اور تمہیں اس میں وقتی تصرف کا حق دیا گیا ہو۔انسانی زندگی اور انسانی نسلی تسلسل کسی ایک انسان کا حق نہیں یہ سلسلہ مکمل طورپر کسی ذات بابرکتکے دست قدرت میں ہے۔تسرف انسای کو اس خؤف سے جوڑ دیا گیا ہے جو مالک و محتاج کے درمیان ہے۔اگر پیدا ئش میں قدرے مشترک رکھتے ہیں تو اسباب و وسائل میں اگر لحاظ کرلیا جائے بہتر انداز میں زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔
اس فرمان میں انسانی معاشرے کے ابتدائی یونٹ کو مضبوط بنانے کے لیے اس کے بنیادی حقوق و فرائض کا بیان ہوا ہے اور اس کے ابتدائی الفاظ اور کلمات میں توحید اوروحدت انسانی کا سبق دیا گیا ہے ۔ اس فرمان کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح تم سب ایک ہی خالق کی مخلوق اور اسی کی ربوبیت کے مرہون منت ہو۔ اسی طرح تم ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو جس کی ابتدا دو کی بجائے ایک سے ہوئی ۔پھر اس ایک سے دوسرے کو یعنی آدم u سے اس کی بیوی حواکو پیدا کیا اس کے بعد بے شمار مرد اور عورتیں پیدا کرنے کا سلسلہ جاری فرمایا جو قیامت تک جاری رہے گا۔ اس سے ڈرو جو تمہارا رب ہے جس کی عظمت و تقدیس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے سوال اور ہمدردی کے طلبگار ہوتے ہو۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے ساتھ رشتے داریوں کو توڑنے سے اجتناب کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔
هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا (الاعراف: 189)
’’اللہ‘‘ ہی وہ ذات ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کاجوڑا بنایا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے ۔‘‘
انسانی زندگی میں اتنا چل چلائو ہوتا اگر اسے سکون ہ ملے تو اس کے اعضآء و جوارح اور نظام حیات ناکارہ ہوکر رہ جائے۔نیند سکون ہے ہم جنس سے مقاربت سکو ن۔ہے۔آرزوئوں کی تکمیل میں خوشی ہے۔جہاں انسان کو سکون و لذت ملے وہاں پر کچھ عوض ادا کرنے پر آمادگی ظآہر کردیتا ہے کچھ ذمہ داریاں اور فرائض قبول کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔
’’اللہ‘‘ نے انسان کے نقش و نگار اور شکل و صورت بنائے
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَخْفٰى عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَآءِ هُوَ الَّذِيْ يُصَوِّرُكُمْ فِي الْاَرْحَامِ كَيْفَ يَشَآءُ لَااِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (آل عمران:5، 6)
’’بے شک اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز چھپی نہیں ہے۔ وہی ماں کے پیٹ میں جس طرح چاہتا ہے تمہاری صورتیں بناتا ہے اس کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں وہ نہایت غالب اور خوب حکمت والا ہے۔‘‘
یعنی انسانی تخلیق کی خوبصورتی میں انسان کے اختیار سے زیادہ تخلیق کار کا عمل دخل ہے۔یعنی تم ایک ایسی مخلوق ہو جو پنی شکل و صورت تک بنانی کی احتیاج رکھتے ہو۔خالق کی مرضی ہے۔جس انداز میں چاہے جیسی چاہے صورت بنائے۔
وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ وَطُوْرِ سِيْنِيْنَ وَهٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِيْنِ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ (التین:1تا4)
’’قسم ہے انجیر اور زیتون کی۔اور طورِ سیناء کی۔ اور اس پُر امن شہر کی۔ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیاہے۔‘‘
اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً وَّصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ هُوَ الْحَيُّ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَادْعُوْهُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (المؤمن: 64، 65)
’’اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا اور آسمان کو چھت ٹھہرایا، اسی نے تمہاری صورتیں بنائیںاور بڑی ہی اچھی بنائیں اسی نے تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا،یہ’’اللہ‘‘ ہی تمہارا رب ہے اور بہت زیادہ برکتوں والا ہے۔’’ اللہ ‘‘ ہی ہمیشہ زندہ رہنے والاہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اُسی کو پکارو اپنی تابعداری کو اُسی کے لیے خالص کرو ، تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔
قران کریم جیسی مختصر و جامع کتاب میں تخلیق انسانی کی تشریح کے لئے جتنا بلیغ انداز اختیار کیا گیا ہے اس قدر کوئی بھی موضوع نہیں چھیڑا گیا۔گویا کہ قران کریم کا موضؤع فلاح انسانیت اور عروج انسانیت ہے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ t وَرَفَعَ الْحَدِیثَ أَنَّہُ قَالَ إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ وَکَّلَ بِالرَّحِمِ مَلَکًا فَیَقُولُ أَیْ رَبِّ نُطْفَۃٌ أَیْ رَبِّ عَلَقَۃٌ أَیْ رَبِّ مُضْغَۃٌ فَإِذَا أَرَادَ اللہُ أَنْ یَقْضِیَ خَلْقًا قَالَ قَالَ الْمَلَکُ أَیْ رَبِّ ذَکَرٌ أَوْ أُنْثَی شَقِیٌّ أَوْ سَعِیدٌ فَمَا الرِّزْقُ فَمَا الأَجَلُ فَیُکْتَبُ کَذَلِکَ فِی بَطْنِ أُمِّہِ(رواہ مسلم :باب کَیْفِیَّۃِ الْخَلْقِ الآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّہِ وَکِتَابَۃِ رِزْقِہِ وَأَجَلِہِ وَعَمَلِہِ وَشَقَاوَتِہِ وَسَعَادَتِہِ)
’’سیدنا انس بن مالک tسے روایت ہے وہ نبی کریم سے بیان کرتے ہیں۔ آپeنے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کر رکھا ہے وہ کہتا ہے اے میرے رب !یہ نطفہ ہے اے میرے رب! گوشت کا لوتھڑا ہے جب اللہ تعالیٰ کسی کی تخلیق کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے اے میرے رب مذکر یا مؤنث بدبخت یا نیک اِس کا رزق اور اِس کی عمر
کتنی ہے یہ انسان کی ماں کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔ ‘‘
اس حدیث مبارکہ میں بیان کردہ جزائیات کم از کم اس وقت تک کی معلومات کے مطابق انسانی تحقیق و دسترس سے ماوراء ہیں۔یہ وہ راز ہیں جن تک رسائی تو نہیں لیکن ماننے کے عالوہ کوئی چارہ کار بھی نہیں۔جب تک اسنای شکل و صورت اس مقام تک نہ پہنچ جائے جسے مادی جسم کہا جاسکے اس بارہ میں کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکتا ۔کیونکہ سائنس کی کی بحچ ہی اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ کسی چیز کو دیکھنے یا چھونے لگ جائے۔اس سے پہلے یا بعد کے معامالت سے وہ بالکل بحث نہیں کرتی۔
اللہ تعالیٰ کی ذات اوراس کی صفات کے بارے میں مشرک اورکافر جھگڑتے ہیںحالانکہ اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے لوگوں کے لیے زمین کو جائے قرار بنایا اور آسمان کو چھت ٹھہرایا ہے اورپھر وہی ہے جو لوگوں کی خوبصورت سے خوبصورت شکل و صورت بناتا ہے اوراسی نے انسانوں کے لیے پاکیزہ رزق کا بندوبست کیا ہے ۔ اس کے سوا کوئی زندہ یا فوت شدہ اور زمینوں، آسمانوں کوئی ہستی نہیں جس نے ان میںسے کوئی ایک کام کیا ہو یاان کاموں میں ’’اللہ‘‘ کے سِوا کسی کا عمل دخل ہرگز نہیں ہو۔ صرف ایک ’’ اللہ ‘‘ ہی سب کچھ پیداکرنے والا ہے اورسارے نظام کو چلا نے والا ہے۔ اقرار اور اظہار کرو کہ تمام تعریفات اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسان کی پیدائش کاتذکرہ کرتے ہوئے اس کی تخلیق کے مختلف مراحل کا بار ہا دفعہ ذکر فرمایا ہے۔یہاں انسان کی تخلیق کے آخر ی مرحلہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاہے کہ ’’اللہ‘‘ ہی وہ ذاتِ بابرکات ہے کہ جس نے تمہیں بہتر سے بہترین شکل میںپیدا فرمایا اسے خاندان اور قبائل میں تقسیم فرمایا تاکہ ایک دوسرے کو سمجھنے اور معاملات کرنے میں آسانی ہو۔
يٰاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ (الحجرات:13)
’’لوگو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہارے خاندان اور قبیلے بنا دئیے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، یقینا تم میںاللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے، جو تم میں سے سب سے زیادہ پرہیز گار ہے، بلاشبہ اللہ سب کچھ جاننے والا اور پوری طرح خبردار ہے۔‘‘
کائنات محسوسہ میں کسی جاندار کو جب تک اس کی طبعی ضرورت کے مطابق ماںحؤل مہیا نہ کیا جائے اس وقت تک اس کی زندگی کا تحفظ اوراس کی بڑھوتری مشکل ہوتی ہے۔انسانی معاشرہ انسانی زندگی کے لئے اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔معاشرتی تقسیم میں سکون و راحت محسوس کرتا ہے۔نفسیاتی طورپر کچھ طبقہ ایسا ہونا چاہئے جہاں اسے شناخت ملے اس کی انا محفوظ رہ سکے بوقت ضرورت تفوق کی خؤاہش پوری ہوسکے۔لیکن اس سب کے باوجود کچھ حدود قیود بھی متعین کردئے۔تاکہ زندگی میں ےوازن برقرار رہ سکے۔
قُلْ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِيْ فَلَا اَعْبُدُ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلٰكِنْ اَعْبُدُ اللّٰهَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَاَنْ اَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (یونس: 104، 105)
’’فرما دیں اے لوگو! اگر تم میرے دین کے بارے میںکسی شک میں ہو تو میں انکی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو لیکن میں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہیںموت دیتا ہے اور مجھے حکم دیا گیاہے کہ میں ایما ن والوں میں سے ہو جائوں۔ یہ کہ آپ اپنا چہرہ یکسو ہو کر اسی دین کی طرف سیدھا رکھیں اور مشرکوں سے ہر گز نہ ہونا۔‘‘
يٰاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (البقرۃ: 21، 22)
’’اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔ اس نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی نازل فرما کر اس سے تمہارے لیے پھل پیدا کیے جو تمہارا رزق ہیں جاننے کے باوجود اللہ کے ساتھ شریک نہ بنائو۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان دلائل کی بنیاد پر بلا امتیاز تمام طبقاتِ انسانی کو عبادت کا حکم دیتے ہوئے اپنی عبادت کے استحقاق کی یہ دلیل دی ہے کہ اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں، تمہارے آبائو اجداد اور سب لوگوں کو پیدا فرمایا ۔ اسی نے تمہارے زمین کو فرش بنایا اور آسمان کو سائبان ، پھر آسمان سے پانی نازل کیا جس سے تمہارے رزق کا بندوبست فرمایا۔یہ سب کچھ ایک رب نے پیدا کیا ہے اور وہی تمہارا خالق و مالک ہے۔ یہ حقائق تم بھی جانتے ہو کہ تمہاری اور کائنات کی تخلیق اور تمہارے رزق کے بندوبست میں اللہ کا کوئی شریک اور سہیم نہیں ہے پھر ایسے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک بنانے کی کس طرح جرأت کرتے ہو ؟جس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں لہٰذا تمہیں صرف ایک اللہ کی ہی عبادت کرنی چاہیے۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 56)
’’میں نے جِنَّوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘
کچھ سطحی الذہن لوگ سوچتے ہیں عبادت صرف مخصوص حرکات کا نام یا الفاظ مخصوصہ کو دوہرانے کا نام ہے۔یہ ان اعمال کی ادائیگی کے بعد ہر قسم کی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ موجودہ عبادت کی صورت رائج ہیں لیکن مقصود بالذات ایک نظام کا قیام ہے. جب عبادات کا ذکر آتا ہے تواس سے مراد معاشرتی طورپر خاص ماحو ل قیام ہوتا ہے۔ورنہ حرکات تو ایک ہوا کا جھونکا ہیں جو ہوا کے زور سے پیڑ کو جھکا دیتے ہیں بعد میں وہ اپنی جگہ واپس آجاتا ہے۔ایک نماز ہی کو لے لیں اس کا قیام کسی خاص مقصد کے تحت ہوتا ہے اس سے معاشرتی طورپر کچھ ننتائج کا حصول ہوتا ہے۔اگرنتائج پیدا نہ ہوسکے تو عبادت نہیں ایک مشق لاحاصل ہے
مثلانماز کی خاصیت بتائی گئی ہے۔یہ برائی بےحیائی۔اور معاشرتی بگاڑ کو روکنے میں معاونت کرتی ہے۔اگر نماز کی ادائیگی سے یہ نتائج حاصل نہ ہوسکیں تو اسی جیسی نماز ادا کرنے والوں کے لئے تباہی ۔منافقت۔سستی کی علامت قرا دیدا گیا ہے۔یہی مثالیں تمام عبادات میں دی جاسکتی ہیں
۔۔۔