طبی قوانین قران کریم کی نظر میں
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
اس وقت پاک و ہند میں نظریہ مفرد اعضاء چھایا ہواہے،اس کی تحقیقات اور فطری نظریات نے طبی دنیا میں ایک انقلاب برپاء کردیا ہے۔اسے سمجھنا بہت آسان اور اس میں مہارت پیدا کرنا بہت سہل ہے۔اس طریقہ تشخیص اور نسخہ نویسی اور غذاو پرہیز کانظام اس سے بھی اعلی ہے۔
اس کے بانی کا ارادہ تھا کہ قران و احادیث سے ان نکات کو جمع کروں جن میں طب بیان ہوئی ہے۔انکے تلامذۃ اور سوانح نگار وں کا کہنا ہے کہ آخری عمر میں ان کا قران کریم کی طرف بہت جھکائو ہوگیا تھا کیونکہ اس بارہ میں انہماک سے کام لے رہے تھے،اپنی تحقیقات کا رخ قران و حدیث کے شفاف چشمے کی طرف پھیر دیا تھا۔انکے شاگرد عزیز اور ان کے نظریہ کو بام عروج تک پہنچانے والے دوست حکیم محمد یسین دنیا پوری مرحوم کی کسی تحریر میں پڑھا تھا کہ حکیم انقلاب آخری عمر میں مطالعہ وتحقیق کے لئے تفاسیر قران کریم کی طرف متوجہ ہوگئے تھے اس انہماک نے ان کی نظر پر گہرا اثر ڈالاتھا،آج بھی ان کے لکھتی تحریرات میں قران کریم سے لگائو کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
حکیم یاسین دنیا پوری مرحوم لکھتے ہیں:آپ کا خیال تھا کہ جو تحقیقات قران کریم کی تشریح ملیں ان کی تصدیق کردی جائے اور جو قران کریم سے تطبیق نہ کھائیں،انہین نظر انداز کردیا جائے،اس مضمون کا کا پیش لفظ اور مقدمہ آپ کے قران حکیم کی رو سے پیش کیا تھا جو پڑھنے کے قابل ہے۔
قران حکیم اور انسان ایک مضمون تھا،جس پر سب سے زیادہ محنت کی ضرورت تھی۔مختلف تفسیروں کا بڑے غور سے مطالعہ کرنا تھا،یہی کام آپ نے شروع کیا چونکہ آپ نے قران حکیم کی ورق گردانی کی بجائے قران کریم کی روشنی میں تحقیقات شروع کیں اور قران پاک کا گہری نظر سے مطالعہ شرووع کردیا۔متعدد تفسیروں سے استفادہ کرنے کے لئے ان کےگہرےمطالعہ میں مصروف ہوگئے۔
اس محنت شاقہ کا زبردست دبائو آپ کے اعصاب پر پڑا،اور آپ ضعف اعصاب کے عارضہ میں مبتلاء ہوگئے،اس کے ساتھ ہی ساتھ آپ کی آنکھوں پر ضعف کا اثر ہوا جس کی وجہ سے آپ کی نظر بالکل بند ہوئی،کافی کوشش اور علاج معالجہ کے باوجود آپ کی نظر درست نہ ہوسکی اس بیماری کا آپ کی صھت پر برا اثر پڑا،افسردگی کی حالت میں اکثر کہا کرتے تھے
میں نے ہمیشہ اندھیرے اور سیاہی کے خلاف جنگ کی ہے اور برسوں تک دنیا کو علم کی روشنی سےمنور کیا ہے لیکن آج مجھے اندھیرے اور سیاہی نے گھیر لیا ہےیہی صدمہ آپ کی موت کا سبب بنا اور آخر30،مئی1972ء کی صبح دنیائے طب کا یہ بے تاج بادشاہ موجد نظریہ مفرد اعجاء دنیائے طب کی برسوں تک بے لوث خدمت کرتے ہوئے اس جہان فانی سے رخصت فرماکر لاکھوں مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے کالق حقیقی سے جاملے(غذا سے علاج33)
انکے بعد ان کے شاگردوں نے بساط بھر اس روش کو قائم رکھنے کی کوشش کی لیکن اس پہلو سے ابھی تک کوئی تسلی بخش کاوش سامنے نہ آسکی ۔حکیم انقلاب کی دلی خواہش تھی کہ اس انداز میں اپنے نظریہ کو پیش کریں لیکن ہونا تو وہی ہے جو اللہ جو منظور ہے۔ ایک طبی کتاب کے ابتدایہ سے کچھ اقتباس حاضر خدمت ہے۔
ابتدایہ میں ہمارے استاد محترم حکیم الہی عباسی ملتانی کا طریقہ کار ہے،کہ وہ تبرک کے طورپر اور قرانی آیات کی ترجمانی کے ثواب کے طورپر ہمیشہ اپنی ابتداء قران کریم کی آیات سے شروع کرتے ہیں،ہم دونوں شاگردوں کے ذمے ہمیشہ اس خدمت کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے جیساکہ اعصابی حصہ میں کائینات کے وجود میں آنے کی آیات اور اسی طرح عضلاتی حصہ میں کائینات کی پرورش کی آیات اور اسی طرح غدی حصہ میں قیامت کے آثار یعنی دنیا کی تحلیل و فنا ہونے کا ذکر،یہ ساری آیات اکھٹی کرنے کی خدمت ہم سے لیتے ہیں،ان آیات کی ترجمانی وہ خود اپنے انداز میں کرتے ہیں،یہ بھی ایک جذبہ ہے،جو ہمارے استاد محترم کے اندر پایا جاتا ہے،کاش ہمارے استاد محترم عربی زبان سے واقف ہوتے تو یقینا اس سلسلہ میں بے پناہ کام کرتے،ہمارے ذمہ صرف آیات کا ڈھونڈنا،اس لئے ہماری ذمہ دری ہے،ہم دونوں شاگر حفظ و ناظرہ ہونے کے ناطے ا س خدمت میں بے حد معاون ثابت ہوتے ہیں۔ قانون صابر حصہ غدی ..12.
مجھےحکیم صاحب کی ادبی محاسن کی کمزوری سے سروکار نہیں ہے میرا جو مدعا ہے اس کی دلیل پیش کرنا ہے۔مجھے حسرت ہے کہ حکیم صاحب یہ خدمت اگر مجھ سے لیتے تو ان کی خدمت اور تشریح کا انداز ہی کچھ اور ہوتا۔راقم الحروف نے بساط بھر اس موضوع سے انصاف کرنے کی کوشش کی ہے اور کئی سال قبل رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں ایک کتاب”قران کریم سے اخذ کردہ طبی نکات”نام سے لکھی تھی۔موقع ملا تو ضرور شائع کی جائے گی راقسم الحروف نے اسلاف کے اتباع میں اپنی کتب میں قران کریم سے استشہاد کرنے کا خصوصی اہتمام کیاہے۔