حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
کوٹ سادھو رام جلع ننکانہ کو ایک گائوں ہے جا میں امرالیا میو بیٹھا ہاں ان میں سو ایک مشتاق احمد امبرالیا بھی ہے
میری مشتاق احمد میو امبرالیا سو کئی سال سو ملاقات ہے۔ایک نفیس اور حساس انسان ہے۔دوسران کا دکھ درد اے سمجھے ہے
اوڑی بجوڑی میں بہنچو رہوےہے۔۔یا مصروفیت کا دور میں کائی کا دکھ سکھ میں شرکت اور جہاں کہیں بلائیو جائے پہنچنو ہر کائی کا بس کی بات نہ ہے
لیکن مشتاق یابارہ میں پورو اُترےہے۔شاعر میوات کو لقب ملو ہے اور آواز بھی اللہ نے بہترین دی ہے۔میواتی میں کئی کلام مشہور ہوچکا ہاں
کئی مہینان سو بچان کا رشتہ کرن کے ماارے بھگو پھرے ہو۔اللہ تعالیٰ نے بچی کو مناسب رشتہ دئیو۔اور بہترین طریقہ سو بچی وداع کردی
ہم بھی بلایا۔اور بھی بہت سا لوگ شریک ہویا۔
ننکانہ صاحب شہر میں ایک کشادہ شادی حال کا ایک کھلا میدان میں برات کے مارے انتظام کرو گئیو ہو۔
گوکہ انتظام مختصر لیکن سلیقہ مندی سو کرو گئیو ہو۔محدود لوگ شریک محفل ہا۔لیکن چیدہ چیدہ لوگ پہنچا۔موئے تو ایسو لگے ہو کہ
مشتاق نے اپنا ذوق شاعرانہ کے مطابق انتظام کرو اور منتخب لوگن کو دعوت دی۔۔مختصر لیکن سلیقہ مندی سو کرو گئیو انتطام
مثالی ہو۔
لاہور سو کئی احباب مدعو ہا۔ان میں ماستر نصر اللہ میو۔فاروق جان میو۔شکر اللہ میو۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
جاوید نور میو۔چوہدری سکندر سہراب میو۔رائو شریف شریف اور شہزاد جواہر۔یوسف شاکر میو۔سردار افضل میو۔
ماسٹر جاوید میو۔۔اور بھی کئی لوگ ہا۔
لیکن عین وقت کے جاوید نور صاحب نے نہایا دھویا چھوڑ دیا اور اپنا گائوں چلو گئو۔پتو نہ ہے کیسو ضروری کام ہو۔لیکن
دل میں ای چیز محسوس ہوئی کہ اگر مجبوری ہی تو پہلے بتادیتو۔عین وقت پے جواب دینو مناسب نہ ہو۔خیر ماسٹر نصر اللہ میو
نے کمی پوری کردی ۔گاڑی کو بندوبست کرو۔خود ڈرائیو کری ۔سفر بہترین گزرو۔لیکن سکندر سہراب میو کی شکرت نہو نا کی کسک رہے گی
کیونکہ پہلی گاڑی کی وجہ سو..قت سو بچھڑ گیا۔نہیں تو دلی خواہش ہی کہ ایک سفر باباجی کے ساتھ ہوجاتو۔
خیربہترین قسم کو سفر رہو۔اور بارات کی سادگی اور تواضع کو شاندار انتظام ہو۔
اگر ہر کوئی اپنی چادر دیکھ کے پائوں پھیلائے تو بہت سارا دکھن سو اور قرضہ سو بچ سکے ہے۔
دعا ہے اللہ تعالیٰ بچی کا نصیب اچھا کرے۔اور مشتاق بھائی کے مارے آسانی پیدا کرے۔
کہواہاں ۔جاکی بیٹی خوش واکا ماں باپ خوش۔۔۔