علامہ سید سلیمان ندوی اور اردو زبان و ادب
سید الطائفہ علامہ سید سلیمان ندوی رح [1884-1953]) ہندوستان کے ان ممتاز ونابغۂ روز گار شخصیات میں سے ہیں جن پر ہندی مسلمان کو بجا طور پر فخر ہے ہے ، ان کی جیسی ہستی صدیوں میں پیدا ہوا کرتی ہے ، “دبستان شبلی ” کے اس جانشین اکبر ، ادب و انشا کے سلیمان اعظم اور علوم اسلامیہ کے فرہاد نے اپنی تحریروں سے علم وفن کے مختلف النوع شاخوں کو گرانبار کیا ، پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر علم وتحقیق کا جوۓ شیریں رواں کیا ، تفسیر ، حدیث ، فقہ ، علم کلام ، لسانیات تاریخ جیسے دقیق موضوعات پر جہاں پہنچ کر بڑے بڑے مصنفین کا زور قلم بھی شرمانے لگتا ہے ، ادب و انشا ان سے منہ موڑنے لگتے ہیں ، حسن بیان یاوری نہیں کرتا ، لیکن سید صاحب کا قلم یہاں بھی ادب و انشا کے انمول موتی رولتے پرولتے اور انشا ۓ عالی کے نمونے تیار کرتے ہوۓ اس سبک خرامی سے آگے بڑھتا ہے کہ یہ سنگلاخ وبنجر زمینیں بھی ادب و انشا کا لالہ زار اور حسن بیان کا پر بہار گلستاں بن جاتی ہیں ۔
اردو زبان کے رمز آشنا مولانا عبد الماجد دریابادی کی یہ شہادت حق پر مبنی ہے ” سیرۃ النبی کی ضخیم مجلدات سے لے کر خیام ، خطبات مدراس اور رحمت عالم تک بڑی منجھولی اور چھوٹی کتابوں تک کون ایسی ہے جہاں حضرت سلیمان خشک مولوی معلوم ہوتے ہیں اور صحت زبان وسلاست بیان نمایاں نہ ہو ؟ شستگی ،متانت شرافت یہ تو ان کے اسلوب تحریر کے جوہر اصلی ہیں اور اس پر جا بجا شوخی وظرافت کی گلکاریاں اور حسن صناعت کی سحر طرازیاں جیسے خاتم سلیمانی میں نگیں “۔١
سید صاحب کی یوں تو تمام تصنیفات انشا کے زیور سے آراستہ اور حسن بیان سے پیراستہ ہیں ، لیکن ان میں “نقوش سلیمانی ” ، “یاد رفتگاں “، “حیات شبلی ” اور “خیام ” کا ادبی مقام ومرتبہ بہت بلند ہے، یہ کتابیں ادب عالی کے شاہ کار اور عمدہ نثر نگاری کے خوبصورت نمونے ہیں ۔
نقوش سلیمانی :
یہ بھی پڑھیں
مورخین ہند
یہ کتاب سید صاحب کے ان مضامین ، مقالات ، مقدمات اور خطبات کا مجموعہ ہے ، جو انہوں نے اردو زبان وادب اور اس کی تاریخ کے متعلق لکھے اور اردو مجالس میں پڑھے ، پوری کتاب کوثر و تسنیم سے دھلی زبان میں لکھی گئی ہے ، لسانی مباحث ہوں ، یا کتابوں پر لکھے گئے مقدمات، اردو زبان اور اس کے مسائل پر دیے گیے خطبات ہوں یا شعر وادب پر تبصرے ، ہر جگہ ادب کی گل ریزی اور انشا کی عطر بیزی ہے ، بقول مولانا عبد الماجد دریابادی ” کتاب کیا ہے ، سید صاحب کمالات ادبی وتنقیدی کی مہر زدہ دستاویز ” ۔ ٢
,, مکاتیب مہدی ،، پر لکھے گئے مقدمہ کو پڑھیے اور سید صاحب کے دلنشیں اسلوب بیان پر سر دھنیے ! ,, مہدی مرحوم کے خطوط پر نقد وتبصرہ کرنا اور ان کی خوبیوں کو ایک ایک کر کے دکھانا ایساہی کام ہے جیسے کسی خوش رنگ اور خوشبو دار پھول کی ایک پنکھڑی کو توڑ کر کوئی ستمگار قدرت کی صناعی کی داد دے ، وہ پھول ہیں ، پھولوں کی قدر یہی ہے کہ آپ ان سے لطف اٹھائیں بس ، جہاں آپ نے ان کی طرف ہاتھ بڑھائے وہ مرجھانے لگے ، اور نازک پتیاں آپ کی انگلیوں کی سختی سے جھڑنے لگیں ، بہت بہتر سے بہتر صورت نزاکت ولطافت کی ان تصویروں کے لیے یہی ہے کہ دور ہی سے ان کی خوشنمائی ، خوش قامتی اور خوشبوئ کی تعریفیں کی جائیں اور ان سے خود لطف اٹھاۓ اور دوسروں کو بھی لطف اٹھانے دے ،، ٣ ۔
جگر مرادآبادی کے دیوان ,, شعلۂ طور ،، پر سید صاحب نے ایک طویل تقریظ لکھی ہے ، اس کی آخری پیراگراف میں انہوں نے انشا پردازی نہیں ، ساحری کی ہے ، نثاری نہیں ، شاعری کی ہے ، اس ادبی مقطوعہ کو بار بار پڑھیے اور اپنے کام ودہن کو شاد کام اور نشان جام کو معطر کیجیے ,, جگر کی شاعری میں نہ زلف وشانہ ہے ، نہ سرمہ وآئینہ ، نہ ہوس بالائے بام ، نہ شکایت منظر عام ، نہ اس کے کاشانۂ خیال میں چشم ہاۓ بسمل کی آئینہ بندی ہے ، نہ اس کے محبوب کے ہاتھوں میں قصاب کی چھری اور جلاد کی تلوار ہے ، نہ اس کے کوچہ میں شہداء کے دل و جگر کی گل کاری ہے ، وہ مست ہے اور اسی مستی میں کسی نادیدہ کا سراپا مشتاق ہے ………… جگر مست ازل ہے ، اس کا دل سرشار الست ہے ، وہ محبت کا متوالا ہے اور عشق حقیقی کا جویا ، وہ مجاز کی راہ سے حقیقت کی منزل تک اور میخانہ کی گلی سے کعبہ کی شاہ راہ کو اور خم خانہ کے بادہ کیف سے خود فراموش ہوکر ساقی کوثر پہنچنا چاہتاہے ،،٤۔
یاد رفتگاں :
معارف میں وفیات پر لکھے گیے ماتمی مضامین کا مجموعہ ہے ، جو سید صاحب نے اپنے کرم فرماؤں ، عزیزوں دوستوں اور ملک اور بیرون ملک کے مسلم وغیر مسلم اصحاب علم وادب کے انتقال پر سپرد قلم کیا تھا ، ,,یاد رفتگاں ،، کا ورق ورق ادب و انشا کے انمول جواہر پارے سے لبریز ہے اور سید صاحب کی سحر آفریں انشا اور کمال تحریر کا بہترین نمونہ بھی ، خاص طور پر اس مجموعے میں شامل مضامین ” شبلی ” ، محمد علی” ، “اقبال ” اور” حکیم اجمل خاں ” کا مرتبہ اردو ادب میں بہت بلند ہے ۔
محمد علی جوہر کا ماتم اتنے درد انگیز اور پرسوز انداز میں کیا ہے کہ آج بھی پڑھنے والے پر رقت طاری ہوجاتی ہے ، ایسا معلوم ہوتاہے کہ صاحب خود رو رہے ہیں اور دوسروں کو بھی رلا رہے ہیں ، اس ماتمی مضمون کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو ” تو ملت کا عزا دار تھا ، حق یہ ہے کہ ساری ملت تیری عزا دار ہو ، تو امت محمدیہ کا سوگوار تھا ، فرض ہے کہ پوری امت محمدی تیرا سوگ کرے ، تو نے دنیائے اسلام کا ماتم کیا تھا ، سزاوار ہے کہ دنیائے اسلام تیرا ماتم کرے ، ہندوستان کا ماتم کناں ، طرابلس کا سوگوار ، عراق کے لیے غمزدہ ، بلقان کے لیے وقف الم ، اے ہند کے آوارہ گرد مسافر تیرا حق سر زمین اسلام کے چپہ چپہ پر تھا ، مناسب یہی تھا کہ تیرے لیے اولین قبلہ اسلام کا سینہ پھٹ جائے اور تو اس میں سما جائے ،، ۔ ٥
ان ماتمی مضامین کی قابل ذکر خصوصیت یہ ہے کہ سید صاحب اختتامیہ عام روش کے مطابق نہیں لکھتے ، بلکہ اکثر ایسے فقرے لکھ جاتے ہیں جن کا اثر پڑھنے والوں کے ذہن ودماغ پر حزن وملال کا اثر دیر تک باقی رہتا ہے ، اس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں ,, بوڑھے اکبر ، مبارک ہوکہ تیرے دل کی مراد پوری ہوئی اور تجھے مسرت جاوید نصیب ہوئی ،، ۔
علامہ اقبال کا مرثیہ ان الفاظ پر ختم کیا ہے ,, اقبال ، ہندوستان کا فخر اقبال ، اسلامی دنیا کا پیرو اقبال ، فضل وکمال کا پیکر اقبال ، حکمت ومعرفت کا دانا اقبال ، کاروان ملت کا رہنما اقبال ،رخصت رخصت ، الوداع الوداع ، سلام اللہ علیک الی یوم التلاق ،،۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ,,یاد رفتگاں ،، اردو کے ادبی ذخیرے میں گراں قدر اضافہ ہے اور صرف یہ ایک کتاب ہی سید صاحب کو اردو کے بہترین انشا پردازوں کی صف اول میں جگہ دلانے کے لیے کافی ہے ۔
خیام :
یہ کتاب سید صاحب کی علمی زندگی کا اہم ترین کارنامہ ہے ، اور عمر خیام کی زندگی اور اس کی شاعری پر حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے ، علامہ اقبال نے اس کتاب کے متعلق بجا فرمایا ہے ,, عمر خیام پر آپ نے جو کچھ لکھ دیا ہے اس پر اب کوئی مشرقی یا مغربی عالم اضافہ نہ کرسکے گا ،، ۔
,, خیام ،، درحقیقت ایک علمی وتحقیقی کتاب ہے ، لیکن ,, خیام ،، کی شاعری اور رباعیوں پر بھی بحث کی گئی ہے ، اس لیے یہ ایک ادبی کتاب بھی ہے ، تحقیق وتنقید اور ادب و انشا ,,خیام ،، میں سب باہم مل کر چلتے ہیں ، اس کتاب کی بھی حسن انشا کی ایک مثال سے لطف اندوز ہوتے چلیے ,, خیام کے پیالہ میں ایک تیسری شراب بھی نظر آتی ہے جس کا نام بادۂ حقیقت ہے ، وہ شراب کو غیر مرئی وغیر محسوس حقیقت ، روح حق ، جذبہ روحانی اور معرفت قلب کے معنوں میں استعمال کرتاہے ، وہ لوگ جو ,,خیام ،، کی شراب کو بھی دنیا کی مکدر شراب سمجھتے ہیں وہ ذرا اس مئے صافی پر نظر ڈالیں کیا یہ شراب پی جاسکتی ہے ؟ اس کا مجاز خود حقیقت کا پردہ کھول رہا ہے ،،۔ ٦
پروفیسر عبد الشکور اس کتاب کے ادبی وتنقیدی پایہ کے بارے میں لکھتے ہیں ,, اس کی عبارت بہت سنجیدہ ودلکش ہے ، خصوصیت کے ساتھ وہ طرز انشاء ہے جو نقاد کے لیے سب سے زیادہ مناسب ہوتاہے ……… یہ کتاب اردو کے تنقیدی ادب میں بڑا یاد گار اضافہ ہے اور بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے اتنی بلند تنقیدی کتابیں اردو تنقید کے گذشتہ دور میں بہت کم ہیں ،،۔ ٧
سید صاحب نے ان کے علاوہ ادب کے دوسرے اصناف مکتوب نگاری ، صحافت اور شاعری کے تمام اصناف سخن میں بھی ادب و انشا کے لعل و گہر برساۓ اور ہر طرح سے لیلاۓ اردو کے گیسوئے برہم کی مشاطگی کی ، دوشیزۂ اردو کے حسن کی آرائش و زیبائش اور اس کو نکھارنے ، چمکانے میں نمایاں حصہ لیا اور اپنے قلم کی شستگی وشگفتگی اور برجستگی سے علم وتحقیق اور ادب و انشا کو باہم ہم آغوش کردیا ، حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان وادب میں ان کی تحریروں سے جو بیش قیمت اضافہ ہوا ہے ، وہ ناقابل فراموش ہے ، ادبی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے ۔
حوالہ جات :
١ معارف سلیمان نمبر ص ٢٣٢
٣معارف سلیمان نمبر ص ٢٣٢
٣ نقوش سلیمانی ص [[1]]
٤ نقوش سلیمانی ص [[2]]
٥ یاد رفتگاں ص ١٥٥
٦ خیام ص ٣٤٥
٧- تنقیدی سرمایہ ص ١٢٠ پروفیسر عبد الشکور ۔