اُونٹ، جدید سائنسی تحقیقات اور قرآن حکیم
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
اس میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ نہیں پایا جاتا کہ تمام جانور، اپنےاپنے خدوخال کے ساتھ ،اپنے خالق کی لامحدود طاقت اورعلم کی عکاسی کر تے ہیں ۔ اللہ نے اس کا ذکر قرآن کی کئی سورتوں میں کیا ہے ،جہا ں وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہر وہ شے جو وہ تخلیق کرتا ہے دراصل ایک نشانی ہے ، یعنی ایک علامت ہے اور ایک انتباہ ہے ۔
سورۃ الغاشیہ کی آیت نمبر 17 میں اللہ نےایک جانور کا حوالہ دیا ہے اور ہمیں “اونٹ” کے متعلق سوچنے اور اسے بغور دیکھنے کی تلقین کی گئی ہے اور یوں ارشاد فرمایا ہے :
أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ ﴿١٧﴾ وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ ﴿١٨﴾ وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ ﴿١٩﴾ وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ ﴿٢٠﴾ فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ ﴿٢١﴾
(یہ لوگ نہیں مانتے) تو کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے؟ آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیسے اٹھایا گیا؟ پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے جمائے گئے؟ اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی؟ اچھا تو (اے نبیؐ) نصیحت کیے جاؤ، تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو۔جو شئے اونٹ کو ایک خاص جانور بناتی ہے وہ ا س کے جسم کی بناوٹ ہے جس پر سخت سے سخت حالات اور موسموں میں بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔
اس کے جسم کی ساخت اللہ نے اس قسم کی بنائی ہے کہ اونٹ کئی کئی دنوں تک خوراک اور پانی کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے ۔ یہ کئی کئی روز کا سفر اپنی پیٹھ پر
سینکڑوں کلو گرام بوجھ لاد کر طے کر سکتا ہے ۔۔۔۔۔
ایک حکیم کے بارے میں حکایت بیان کی گئی ہے۔ اس کے سامنے اونٹ اور اس کی عجیب و غریب تخلیق کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے جبکہ وہ ایسے علاقے میں پیدا ہوا تھا جہاں اونٹ نہیں ہوتے تھے اس نے غور کیا اور کہا ممکن ہے اس کی گردن لمبی ہو(تفسیر قرطبی)
خصوصیات اونٹ :۔
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے حوالہ سے مولوی عبدالقیوم قاسمی نے معارف القران میں لکھا ہے
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (رح) تفسیر عزیزی میں لکھتے ہیں کہ اس جانور میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی خصوصیات رکھی ہیں ان میں چند ایک یہ ہیں کہ یہ جانور بہت بڑا صابر ہوتا ہے بھوک پیاس کافی عرصہ تک برداشت کرسکتا ہے پانی نہ ملے تو دس دن تک پرواہ نہیں کرتا اور وفادار اور اس قدر ہے کہ چھوٹا سا بچہ بھی نکیل پکڑ کر جہاں چاہے لے جاسکتا ہے اور چلتے وقت اکثر اپنا رخ قبلہ کی طرف رکھتا ہے خوراک کے معاملہ میں بالکل سادہ ہے ہر قسم کی کانٹے دارجھاڑیاں کھا لیتا ہے اور اگر اس کا مثانہ نکال کر کسی عاشق کے ہاتھ پر باندھ دیا جائے تو اس کا عشق زائل ہوجاتا ہے۔ صاحب تفسیر حسینی لکھتے ہیں اگر کسی کو محنت جفا کش اور سادگی سیکھنی ہو تو اونٹ سے سیکھے۔ ( تفسیر حسینی فارسی : ٩٤٨) اور یہی صفت دین کے مبلغ اور داعی کی ہونی چاہیے وہ اونٹ سے صبر کرنا سیکھے۔
اونٹ ایک دلچسپ اور شائستہ جانور ہے، بہت پرامن اور شاذ و نادر ہی دشمنی کا مظاہرہ کرتا ہے،
لیکن یہ اپنی مادوں سے حسد کرتا ہے، اور اسے ملاوٹ کے دوران کسی کو دیکھنے کی اجازت نہیں۔ :موسم تولید میں نر اور مادہ بے چین ہو جاتے ہیں اور ان سے نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے، نر زیادہ جارحانہ اور خطرناک ہو جاتے ہیں، اور ملاوٹ کے رویے سے خصیے بن جاتے ہیں۔ نر میں بڑا ہوتا ہے، اور مادہ میں ولوا گیلا اور سوجن ہو جاتا ہے،
یہ بھی پڑھیں
عید کی کتابیں سنگ محبت (مہوش علی)
حیوانات کی چارقسمیں ہیں۔ (١) دودھ دینے والے (٢) سواری والے (٣) کھائے جانے والے (٤) باربرداری کے کام آنے والے۔ اونٹ ان چاروں کو جامع ہے اس میں نعمت عام ہے اور اس میں قدرت زیادہ مکمل ہے(تفسیر قرطبی)
ماہرین حیوانات نے لکھا ہے جس وقت اونٹ کو غصہ آتا ہے یہ بلبلانے لگتا ہے تو یہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اس وقت اونٹ بد خلق ہوجاتا ہے اونٹ کے منہ سے سرخ(شقشقہ) کھال نکلتی ہے۔(الحیواۃ الحیوان کمال الدین الدمیری) یہ اس سے اپنے پیٹ سے نکال کر پھونک مارنے لگتا ہے اور بلبلانے لگتا ہے اور اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگتی ہے
اس طرح غصے کی حالت میں کھانا پینا ترک کر دیتا ہے اونٹ سب سے زیادہ بغض اور کینہ رکھنے والا جانور ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اس میں صبرو تحملاور دوسروں پر حملہ کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے اونٹ کی خصوصیت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ یہ اپنی ماں پر جفتی کرنے کے لئے نہیں چڑھتا
۔الدمیری لکھتے ہیں:صاحب المنطق نے کہا ہے کہ اونٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنی ماں پر(جفتی کرنے لئے)نہیں چڑھتا۔مزید انہوں نے ایک واقعہ نقل کیا ہے،پہلے زمانے مین مین ایک آدمی نے یہ کیا کہ اونتنی کو کپڑے سے ڈھانپ دیا۔پھر اس نے اس کے نواجوان بچے کو اس پر چھوڑ دیا،تو وہ چڑھ گیا۔جب بچے نے ماں کو پہچان لیا کہ یہی اس کی ماں ہے تو اس نے اپنےذکر کو کاٹ لیا۔
پھر وہ جوان اونٹ اس آدمی سے بغض رکھنے لگا،یہاں تک کہ اس نے موقع پاکراس آدمی کو موت کے گھاٹ اتار دیا،اس کے بعد اس نے اپنے آپ کو بھی ہلاک کردیا۔
اگر اس کا مثانہ نکال کر کسی عاشق کے ہاتھ پر باندھ دیا جائے تو اس کا عشق زائل ہوجاتا ہے۔ صاحب تفسیر حسینی لکھتے ہیں اگر کسی کو محنت جفا کش اور سادگی سیکھنی ہو تو اونٹ سے سیکھے۔ ( تفسیر حسینی فارسی : ٩٤٨) اور یہی صفت دین کے مبلغ اور داعی کی ہونی چاہیے وہ اونٹ سے صبر کرنا سیکھے۔ اس کے علاوہ ان دونوں پر دم کا استعمال کرتے ہوئے پچھلی ٹانگوں پر پیشاب چھڑکتا ہے
۔ 20 منٹ، جب وہ اونٹ کو اپنے قریب آنے والے کسی بھی نر سے بھاگتی ہوئی لے جاتی ہے، تو ایک کوہان والی اونٹنی میں حمل 390 دن اور دو کوہان والی اونٹنی میں 406 دن رہتا ہے،سال، اور حمل 12-13 ماہ تک رہتا ہے۔۔ جہاں اونٹ ہر دو سال بعد ایک بچھڑے کو جنم دیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مادہ عام طور پر اپنی زندگی میں 8 بچوں کو جنم دے گی، بچھڑے کا اوسط وزن تقریباً 35 کلو
ہے اور نر مادہ سے بڑا ہوتا ہے۔ اونٹ بہت اچھی ماں ہے اور اسے پسند نہیں ہے کہ کوئی اپنے بچے کے پاس جائے، اور اگر مادہ اپنا بچہ کھو دے تو اسے بہت تکلیف ہوتی ہے، بچھڑے 2 سے 3 ماہ کی عمر میں گھاس کھانا شروع کر دیتے ہیں اور اس کا دودھ چھڑایا جا سکتا ہے۔ 4 ماہ کی عمر میں، بہت سے پالنے والے نوجوان اونٹ کو چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
اِبراھیم عَلَیْہِ السَّلام کا قربانی کرنے کا واقعہ
اونٹنی جانور کی تولید نر اونٹ 6 سال کی عمر کو پہنچنے پر پختہ اور دوبارہ پیدا ہوتا ہے، جب کہ مادہ 3 سے 4 سال کی عمر میں دوبارہ پیدا کر سکتی ہے، اور افزائش کا موسم اس پر منحصر ہوتا ہے۔ چراگاہوں کی دستیابی، بارش اور سردی، اور اس طرح یہ ایک خطہ سے دوسرے علاقے میں مختلف ہوتی ہے،
3 Comments
[…] اُونٹ، جدید سائنسی تحقیقات اور قرآن حکیم […]
[…] اُونٹ، جدید سائنسی تحقیقات اور قرآن حکیم […]
[…] اُونٹ، جدید سائنسی تحقیقات اور قرآن حکیم […]