میو قوم کا گلا کی ہڈی، بدوکی میوکالج ۔
حکیم المیوات:قاری محمد یونس شاہد میو
ہم بچپن میں سنے ہا کہ بدوکی گائوں میں میون کو ایک کالج بن رو ہے جو میوقوم کی ترقی میں ہراول دَستہ ثابت ہوئے گو۔
وا وقت میون کی تنظیمن کی نرسری نہ ہی۔نہ گھر گھر میون کی جماعت ہی ۔میون میں چوہدری تو ہا لیکن اپنی اپنی حد تک ہا۔دور تک تانگ نہ اڑاوے ہا۔
(ای مہابھارت دس بیس لوگن میں لڑی گئی۔جاکوخمیازہ پوری قوم بدنامی کی صورت میں برداشت کرری ہے۔خدا جانے کتنا لوگ یا کُشتی میں اپنی جوانی اور بوڑھاپا ائ رسوا کرن گا۔ای پھیت کس کے لگے گی)
ہم نے تو شروع سو ای دیکھو اور سنو ہو کہ میو آپس میں مل کے نہ بیٹھا ہاں ۔لیکن جب قوم کی بات آوے ہے تو سارا اکٹھا ہوجاواہاں
جب بدوکی میو کالج کا بارہ میں آواز اُٹھے ہی تو زمین کی قیمت نہ ہی ،لوگن میں دان پُن کو جذبہ موجود ہو۔بھوک تو ہی لیکن اتنی نہ ہی کہ
قوم اے بیچتا۔ممکن ہے ہم نے اِن باتن کو پتو نہ ہوئے۔
لےدے کے میون مین “انجمن ترقی میوات”نامی ایک تنظیم ہی۔جو میو قوم کی غالباََ اکلوتی نمائیندہ تنظیم ہی۔وقت اور زندگی کا دن ریت کی طرح ہاتھ سو پھسلتا رہا۔بچپن سو لیکے جوانی ۔جوانی سو پختہ عمر میں جاپہنچا۔لیکن میو قوم کو نمائیندہ کالج نہ بن سکو۔
کدی مَدی کائی میو اے جوش آوے ہے۔اورمیو کالج کا بارہ کٹی جلین نے سناوے ہے ،جب ہارجاوے ہے تو چُپ ہوجاوے ہے۔
دو تین دیہائین سوُ بدوکی کالج قوم کی رگن میں گنڈوا کی طرح سرَ سرَارَو ہے۔لیکن بات آگے نہ بڑھ ری ہے۔۔
یا میں بہت سا لوگن نے پر ُخلوص کوشش کری۔ہم کائی کی نیت پے شک نہ کرسکاہاں ۔مولانا محمد احمد قادری قوم کا محسن لوگن میں سو ہاں۔
کوئی کچھ بھی کہے لیکن اُن کی پالیسی او ردور اندیشی کی داد دینی پڑے ہے۔یانے میو قوم کے مارے بہت کچھ کرو ہے ۔گوکہ کامیابی و ناکامی کو پیمانہ ہر کائی کو اپنو اپنو رہوے ہے۔ہم کوشش کی داد دیوا ہاں۔بدوکی کالج میں اُنن نے حتی الوسع کوشش کری۔پھر جناب ارشد صاحب کی باری آئی اُنن نے بھی اپنی سی کری،اور خوب بھاگ دوڑ کری۔آج کل شہزاد جواہر صاحب انجمن ترقی میوات کی صدارت پے براجمان ہاں۔
محترم محمد یوسف بدکی ۔سبحان خاں بدوکی وغیرہ نے اپنو مثبت کردار ادا کرو۔۔کئی دن پہلے محترم پرویز صاحب میو ایکسپریس والا نے ایک پوسٹ لگائی۔پھر کرنل محمد علی صاحب نے۔ایک بیس منٹ تک کو وائس میسج میڈیا کے حوالے کرو۔سارا اپنو اپنو اخلاص پیش کراہاں۔اصل بات تو ای ہے واکمی اے دور کراں جا کی وجہ سو اتنو بڑو کام کھٹائی میں پڑگئیو)
۔کیونکہ میون نے اب لٹھ تلوار ۔بھالان کی جگہ موبائل پکڑ لیا ہاں ۔اور جن کو دِن ،رات گالین نے دیواہاں ۔اُن یہودین کی بنائی ہوئی اپلیکیشن وٹس ایپ۔فیس بک اور ٹیوٹر وغیرہ پے جہاد میں مصروف ہاں۔دن کو یا رات کو ۔یا سوتا میں کائی وقت آنکھ کھلے تو ایک جلو کٹو میسج بھیج کے پھر سوجاواہاں۔سمجھاہاں کہ ہم نے اپنا حصہ کو جہاد کردئیو۔جنت پکی ہے میو قوم کی بڑی خدمت کردی ہے۔
کرنل صاحب نے رائو غلام محمد۔جمیل صاحب وغیرہ کئی شخصیات کا نام بھی لیا۔لیکن بہت سا نام چھوڑ دیا ۔بھول گیا۔رہ گیا۔خدا معلوم کہا بنو۔ممکن ہے، وے
روس جاواں۔کیونکہ رُوسنو ہمارو قوم امتیاز ہے۔
بدکی کالج بنے یا نہ بنے ۔میں میو قوم سو ایک بات پوچھنو چاہوں ۔ممکن ہے کوئی جہادکا جوش میں آکے میری الجھن دور کردئے۔
ای مو اَکیلا کی الجھن نہ ہے بلکہ پوری نئی نسل کی الجھن ہے۔اگر بڑا بوڑھا ۔ٹھونڈا قسم کا لوگ یا الجھن اے دور کردیواں تو ۔ہم پے اور آن والی نسلن پے احسان ہوئے گو۔
بدوکی کالج چالیس سال سو کھینچا تانی کو شکا ر ہے ۔یا دَوران میو قوم کہاں کہاں پہنچ گئی۔
جو لوگ چٹنی روٹی اے غنیمت سمجھے ہا ۔وے روسٹ اور پیزان تک پہنچ گیا۔
پیدل سو سائکل۔سائکلن سو پرادون تک کو سفر کرلئیو۔۔یعنی مادی ترقی کرلی۔
لیکن ایک بات کوئی نہ بتا سکو کہ میون کی ٹھیک تعداد کہا ہے؟
پاکستان میں کتنا میو بس را ہاں ؟یا صوبہ پنجاب مین ان کی تعداد کہا ہے؟
ہر کوئی اپنو اپنو تجزیہ کرے ہے کہ پاکستان میں میون کی تعداد۔ڈیڑھ کروڑ ہے۔۔۔
یا تعداد اے بہت سا پڑھ لکھا میو بتاواہاں۔ما شاء اللہ میون کی نسلی بڑھوتری دوسری قومن سو کہیں گھنی ہے۔
ڈیڑھ کڑور آدھی کرلئیو۔پچھتر لاکھ ہویا۔دو چار لاکھ اور کم کردئیو۔محتاط اندازہ کے مطابق۔پچاس لاکھ لگا لئیو۔
اگر پچھتر لاکھ لوگ صرف ماہانہ سو روپیہ چندہ دیواں۔تو ۔۔۔۔۔۔کروڑوں روپیہ جمع ہووے ہے۔
مان لئیو کہ صرف ایک لاکھ لوگ ہی سو روپیہ ماہانہ دیواں۔یعنی ایک فیصد لوگ ہی سو روپیہ جمع کرائے تو۔
ایک سال میںکئی بدکی کی کالج بنایا جاسکاہاں۔۔
رہی بات اعتماد کی تو ایک سوفٹ وئیر بنایا جاسکاہاں ۔
جامیں سن کچھ آن لائن ہوئے آنہ آنہ کو حساب ہوئے خرچہ ہون والی ایک ایک پائی لکھی جائے۔
جو چاہے اپنا موبائل پے آن لائن حساب دیکھ لئے۔بے ایمانی کو تاثر ہی ختم ہوجائے۔۔۔۔
چلو مانو کہ سو روپیہ بہت بڑی رقم ہے۔ڈیڑھ کروڑ لوگ صرف ایک روپیہ ماہانہ چندہ دیواں
تو سالہ اٹھارہ کروڑ جمع ہووے ہے۔۔۔جب تک آن لائن سسٹم نہ ہوئے گو ۔لوگ اعتبار نہ کرسکنگا۔
کیونکہ قوم کا نام پے بہت سا دھوکہ فراڈ ہوچکاہاں۔پھر میو قوم کی نفسیات ہے اپنان پے اعتبار نہ کراہاں۔
دوسرا ن ۔کا ۔۔۔۔۔ٹینٹ پے دَھری ڈولاں ہاں۔۔۔کرن والابنو راستہ بہت ہاں ۔۔
جب انسان چلے ہے تو ایسو لگے ہے کچھ دور جاکے آسمان زمین پے جالگے گو راستہ بند ہوجائے گو۔
لیکن جب چل پڑے ہے تو راستہ کھلتا جاواہاں۔۔۔
بہتر ہے کہ بدوکی کالج کا ماتم اے چھوڑو زندہ قومن کی طرح اپنو راستہ بدلو۔۔
اللہ کی زمین بہت کھلی ہے۔۔۔
جے صرف رول ای مچانی ہے تو مچاتو رہو۔۔۔یاکے علاوہ کر بھی کہا سکو ہو؟
ہر میو کو درجہ بدرجہ سلام پہنچے۔۔۔۔۔خیر اندیش۔۔۔۔۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو