میو قوم بہادر(1857) اورمیوات کا شہداء
میو قوم بہادر(1857) اورمیوات کا شہداء
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔
میوات کا بسن والا میو قوم کا فرزندن نے تاریخ میں ایس ان مٹ نشانات چھوڑا ہاں۔متعصب لوگ مٹانو بھی چاہواہاں تو نہ مٹا سکا ہاں۔میوات کا علاقہ میں خاک و خون سو لکھی گئی داستانن سو آج بھی۔تاریخ کی کتابن کی سرخی قائم ہے۔کوئی کتنی بھی ڈنڈی مار لئے میو قوم کا نام سو بغیر تحریک آزادی ہند مکمل ہو ای نہ سکے ہے۔میو قوم کا شہدا کی کلازوال داستان۔۔۔
میوات مسلم اکثریتی علاقہ ہے جہاں میو مسلمان سب سو زیادہ تعداد میں ہاں۔ میو قوم لا نام پے ہی یا علاقہ سو میوات کہو جاوےہے۔ مسلم اکثریتی ہوناکی وجہ سو ہی ای علاقہ ہندو انتہا پسندن کو کھٹکتو رہوے ہے۔ کچھ ہندو تنظیم تو یا علاقہ سو ’چھوٹو پاکستان‘ بھی کہواہاں۔ جب کہ میو قوم کا خمیر حب الوطنی رچی بچی ہوئی ہے۔میوقوم کو دامن آج تک غداری وطن فروشی کا داغ سو پاک رہو ہے
اگر تاریخ میں ذرا پیچھے جاواںتوپتو چلو ہے کہ میوات کا دس ہزار بہادرن نے انگریزن کے خلاف 1857 کی جنگ آزادی میں ہنستے ہنستے جان قربان کر دی ہی۔ شہید ہون والا زیادہ تر میو مسلمان ہا ۔جو لوگ میوقوم کی حب الوطنی پے شک کراہاں شاید وے تاریخ سو بے خبر ہاں۔
گڑگاؤں گزٹمیر کے مطابق میون نے 1800 سو پہلے سو ہی انگریزن کی ناک میں دم کرراکھوہو۔ سنہ 1803 میں انگریز مراٹھا جنگ کے دوران میو جنگجون نے دونوں افواج کو نقصان پہنچایوہو اور لوٹ پاٹ کری ہی۔ انگریز یابات سو کافی ناراض ہا اور دانت پیسے کہ موقع ملے تو میون کو سبق سکھاواں۔
سال 1806 میں نگینہ کا نوٹکی گاؤں کا میون نے مولوی عوض خاں کی قیادت میں انگریزن سو ٹکر لی۔یا ہار سو انگریز گھبرا گیا اور دہلی کا ریزیڈنٹ سیکٹن نے سنہ 1807 میں ایک خط کے ذریعہ اپنا افسران کو ہدایت دی کہ میون سو مفاہمت کر لینی چاہئے۔ حالانکہ ای انگریزن کی ایک چال ہی اور وے صحیح وقت کا انتظار میں ہا اورای موقع ان کو نومبر 1857 میں ملو۔
میوات کا لوگن سو حب الوطنی کو ثبوت کون مانگ سکے ہے؟
مورخ اور اکھل بھارتیہ شہید سبھا کے چیئرمین شرف الدین میواتی کہوے ہے کہ 1842 میں میوات کو محصول 11 لاکھ 14 ہزار طے کرو گیو ہو جو کہ فصل کی پیداوار سو بھی کہیں زیادہ ہو اور یاکو اعتراف خود لارڈ کننگھم نے کرو ہو۔ بتایو جاوے ہے کہ 10 مئی 1857 کو میواتی سپاہی چاند خان نے انگریزن پے گولین کی بوجھاڑ کردی ہی جا کے بعد بغاوت کی آگ ملک بھر میں پھیل گئی ہی۔
مہارشی دیانند یونیورسٹی روہتک سو میوات کی بغاوت پے ریسرچ کر چکی شرمیلا یادو کو ماننو ہے کہ 20 ستمبر 1857 کو انگریزن نے دہلی پے قبضہ کر لیو ہو اور ان کی نظر اب میوات میں موجود میو باغین پےہی۔ شرمیلا کی ریسرچ کے مطابق دہلی پے قبضہ کے بعدایک سال تک انگریزی فوج نے میوات میں تشدد برپا راکھو۔ 8 نومبر 1857 کو انگریزن نے میوات کے سوہنا، تاؤڑو، گھاسیڑا، رائسینا اور نوح سمیت سینکڑوں گاؤں میں قتل و غارت کری۔ انگریزن کی کماؤں بٹالین کی قیادت لیفٹیننٹ ایچ گرانٹ کر رو ہو۔ای دستہ کئی گاؤن نے تباہ کرتو ہویو گاؤں گھاسیڑا تک جا پہنچو۔ 8 نومبر کو گھاسیڑا کے کھیت میں انگریز اور میواتین کا بیچ زبردست جنگ ہوئی۔
گاؤں گھاسیڑا کے 157 میواتی یا جنگ میں شہید ہویا لیکن جوابی حملہ میں انن نے انگریز افسر میک فرسن قتل کر دیو۔ 19 نومبر 1857 کو میوات کا بہادرن نے دبانے کے مارے بریگیڈیر جنرل سوراج، گڑگاؤں رینج کو ڈپٹی کمشنر کلی فورڈ اور کیپٹن ڈومنڈ کی قیادت میں ٹوہانا، جیند پلاٹونن کے علاوہ بھاری توپ خانہ سپاہین کے ساتھ میوات کا روپڑاکا، کوٹ، چلی مالپوری پے زبردست حملہ بول دیو۔ وا دِن اکیلا گھاسیڑا کا 425 میواتی بہادر بے رحمی سو قتل کردیا گیا۔ یا دوران انگریزن نے میوات کا سینکڑوں گاؤن میں آگ لگا دی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یا دوران انگریزن نے تین ہزار افراد کو یا تو پھانسی دی یا گولی مار کرکےہلاک کر دیا۔ حالانکہ مورخین کو خیال ہے کہ یا دوران دس ہزار سو زائد افراد شہید ہویا۔
1857 کا غدر کا ان شہدا کی یاد میں میوات ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے 2007 میں 12 گاؤں میں شہید مینار تعمیر کرانا کو کام شروع کروہو جاسوکہ لوگ اپنا پرُ وقار ماضی اے یاد راکھ سکاں۔ حالانکہ 13 یادگارن میں سو محض 9 کو کام ہی ابھی تک مکمل ہو سکو ہے۔ مورخ محمد ارشد نے بتایو کہ کہ روپڑاکا گاؤں کا 425 شہدا کی یاد میں سال 1983 میں وا وقت کا وزیر اعلیٰ بھجن لال اورو ا وقت کا ممبر پارلیمنٹ چودھری رحیم خان اور رکن اسمبلی اظمت خان نے ش’ہید اسمارک‘ تعمیر کرایاہا۔