عید کی چھٹی اور نواب ناظم میو سو ملاقات
سمپت اور سپوت میں سب کو ساجھو ھوئے
نتھو کال کپوت سو بوساوے ناں کوئے
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
۔۔۔۔۔۔۔
عید کی خوشی سبن نے رہوے ہے۔لیکن اگر گوشت کھاکے کائی مخلص دوست سو ملاقات ہوجائے تو سونا پے سہاگہ۔۔خوشی مٹھی کھٹی کو مزہ دیوے ہے
عید کے دوسرے دن جمعہ المبارک کی نماز سو پیچھے، واپسی پے جناب نواب ناظم میو صاحب سو ملن کے مارے اُن کے گھر پہنچو۔نواب صاحب نے زرہ نوازی کری اور اپنا قیمتی وقت میں سو ایک گھنٹہ ملاقات کے مارے مخصوص کردئیو۔بے تکلفی سو بات چیت ہوئی۔علم و ادب۔میواتی تاریخ۔میو ثقافت۔اور میواتی پے لکھی گئی کتابن پے بات چیت ہوئی۔اور غور فکر کرو گئیو کہ میو قوم /میواتی ادبی انداز میں کیسے ترقی کرسکاہاں اور میواتی اَدب کا مہیں کیسےموڑاجا سکاہاں۔\
نواب صاحب کی زندگی کو بہت بڑو حصہ لکھتے لکھاتے گزرَو ہے۔ان کی کتاب بہت گہرائی کی حامل ہاں ۔ اِن کی شاعری میں جان ہے۔اردو تو اِن کی اعلی درجہ کی ہے لیکن جب میواتی میں شعر کہوا ہاں تو ان میں بھی ندرت اور نرالہ پن دکھائی دیوے ہے۔۔مطالعہ کی وسعت اور قلم پے گرفت اور الفاظ کو چنائو ان کو خاص ہنرہے۔
دوران ملاقات کچھ بات سوشل میڈیا۔ویب سائٹس۔اور میو قوم کا ڈیٹا بیس کی تیاری۔اورمیواتی ادب اور میو قوم کا بہترین افراد کی بائیو گرافی۔اور تہذیب و تمدن پے محنت ۔اور ایسو اَدب جو لکھو تو گئیو لیکن وسائل کی کمی وجہ سو لکھن والان کی صندوق میں دھرو دھرو دیمک کی خوراک بن رو ہے۔اور کم وسائل واکی اشاعت میں رکاوٹ ہاں۔
سب سے اہم بات سعد میومیموریل ورچوئل سکلز پاکستان کا بارہ مین مشاورت ہوئی کہ ای پلیٹ فارم میو قوم اور بالعموم سارا پاکستان اور دنیا بھر کا انسانن کے مارے فائدہ مند ہوسکے ہے۔اور یا کو فیض کیسے عام ہوسکے ہے۔ایسا نظام کا بارہ میں بات چیت ہوئی کہ یاکو پھیلائو علاقائی یا ملکی سطح سو زیادہ بڑھ کے ہوئے۔ورچوئل سکلز کو مطلب ای ہے کہ جہاں کوئی ضرورت مند ہوئے یاسو فائدہ اٹھا سکے ہے۔
جناب نواب ناظم صاحب نے ایک پتہ کی بات کہی کہ سعد ورچوئل سکلز اے ادارہ بنائیو۔چاہے کوئی بھی قیمت اد ا کرنی پڑے۔زیادہ مخیر بننا کے بجائے کام اور ہنر پے توجہ دئیو۔جاکو ہنر سکھادئیو ۔اُو بہتیرو کمالئیو گو ۔مستحق لوگن کی رعایت کرئیو۔خامخواہ پلپلا مغز کو مت بنئیو۔یابات میں ان کی زندگی کو تجربہ اور ذاتی مشاہدات جھلک را ہا۔میرے مارے ان کا مشورہ بہت معنی راکھے ہا۔بہت دھیان سو ُاِن کی بات سُنی۔بلکہ پلے باندھ لی۔
نواب صاحب نے اکرام وانعام میں کمی نہ چھوڑی۔ٹھنڈا گرم مشروبات کے بعد واپسی پے اپنی کئی قیمتی کتابن سو نوازو۔ای نواب صاحب کی زرہ نوازی ہے کہ اُنن نے کتابن کے قابل سمجھو۔یہ کتاب میری زندگی کا قیمتی اثاثہ بن کے میری لائبریری میں محفوظ رہیں گی۔ان کتابن نے بطور حوالہ کام میں لائونگو۔
میں سمجھوں ہو نواب ناظم صاحب کو اعتماد میرے مارے سند کی حیثیت راکھے ہے۔مشہور ہے کہ خوشبو والا پے سو خوشبو ملے گی۔اگر خوشبو نہ بھی خریدو تو مہک ضرور محسوس ہوئے گی۔