ہماری کتاب:دروس العملیات۔۔۔۔سے اقتباس
قرب قیامت علوم و فنون کی فراوانی ہوگی۔
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
انسانی زندگی بڑی سرعت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے پچھلی چند دیہائیوں میں تو گویا علوم و فنون اور ترقی نے دنیا کی شکل بدل کر رکھ دی ہے۔ آج کی اہم سمجھی جانے والی بات کل اپنی اہمیت ختم کردیتی ہے۔نت نئے فنون اس تیزی سے سر ابھا رہے ہیں کہ عقل حیران ہے کہ کس چیز کو لیں اور کس چیز کو ترک کریں ۔ بات ہورہی تھی غیب دانی کی اس کی تعریف اب وہ نہیں رہی جو صدیوں پہلے تھی پہلے لوگوں کے ذہن میں محدود تصور تھا ،مثلاََ کہیں دور کی بات کو قبل از وقت بتادینا بہت بڑا کارنامہ سمجھا جاتا تھا۔مثلاََ کوئی آدمی فوت ہوا محدود وسائل کی وجہ سے خبر پہنچنے میں دیر لگی کسی نے ظاہری مسافت کرنے سے پہلے بتادیا کہ فلاں شخص فوت ہوچکا ہے،جب تحقیق کی جاتی تو بات سچ ہونے پر اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔یا جنگوں کا حال معلوم کرنے کا تجسس ہوتا تھا جو بھی قبل از وقت یا سب سے پہلے یہ معلومات بہم پہنچا دیتا تھا اسے معاشرہ میں ایک تفوق بخشا جاتاتھا۔کسی دور مقام پر بیٹھے شخص کی باتیں بتانا یا اس سے رابطہ کرکے معلومات لینا بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔
ایک عورت پر جنات کا تسلط تھا وہ دور دراز کی باتیں بتایا کرتی تھی۔خلفائے راشدین کے دور میں فتوحات کا سیلاب قیصرو کسری کی درو دیواروں سے پوری قوت سے ٹکررا رہا تھا۔لمحہ بالمحہ بدلی ہوئی جنگی صورت حال اور فوجیوں کی احوال پرسی کا تجسس عوام کی طرح حضرت عمر کو بھی تھا۔ایک جن گی خبر پر بہت فکر مندی تھی،دور کی خبریں کئی دنوں بعد پہنچا کرتی تھیں حضرت عمر کو بتایا گیا کہ فلاں عورت کے پاس جنات کی آمد و رفت ہے،وہ کچھ باتوں سےلوگوں کو پہلے آگاہ کردیتی ہے۔حجرت عمر نے اس سے اس جنگ کی خبر معلوم کی۔۔۔۔۔۔
۔ لیکن علوم و فنون کی ترقی نے انباتوں کے مفہوم بدل دئے ہیں۔غیب دانی اور نامعلوم باتوں کا تجسس آج بھی اتنا ہی اہم سمجھا جاتا ہے لیکن اس کا مفہوم بدل چکا ہے۔جب باتوں کو پہلے غیب سمجھا جاتا تھا آج وہ روز مرہ زندگی میں شامل ہوچکی ہیں۔۔
عاملین اور عملیات کی سطح پر آج بھی لوگ ایسا تصور رکھتے ہیں کہ ماضی کی کچھ باتیں معلوم کرکے اور مستقبل کا مہوم سے نقشہ دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں۔اور فخریہ بتاتے ہیں کہ فلاں بزرگ نے میری برسوں پرانی بات مجھے بتادی تھی جس کا میرے علاوہ کسی کو پتہ نہ تھا۔اسی بزرگ نے کسی باتیں ایسی بتائی ہیں جو ابھی سامنے نہیں لیکن امکان ہے کہ وہ ایسی طرح ہونگی جیسے پیش گوئی کی گئی ہے۔
دراصل یہ سب کچھ آج بھی انسانی تجسس کا ایک حصہ ہے کہ مستقبل معلوم کرکے اسے بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔چالاک و ہوشیار لوگ تو کچھ رہنمائی لے سکتے ہیں لیکن عوام اور زیادہ لوگ سوائے باتوں کو کچھ نہیں کرتے،کیونکہ جو باتیں اتنی واضح ہوں کہ معمولی عقل والا بھی فیصلہ کرنے میں دشواری نہ سمجھے جیسے جولوگ کاروبار بڑھانا چاہتے ہیں ان کے لئے کاروباری اصول اور کاروباری لوگوں کی زندگیاں رہنما اصول ہیں کہ کونسے طریقوں سے کامیابی ملتی ہے،کونسی باتوں سےکاربار تباہ ہوجاتا ہے۔کونسی باتیں عزت کا سبب ہیں کن باتوں سے انسان اپنی عزت گنواتا ہے۔
صدیوں سے انسان غیب کی باتیں معلوم کرنے کے ہنر معلوم کرنے کے در پے ہے،لیکن دور جدید کی سہولیات نے خفیہ سے خفیہ چیزوں تک ہر کوشش کرنے والے کو رسائی بخش دی ہے،یعنی جو کتابیں یا علوم صرف خواص تک محدود تھیں آج معمولی قیمت پر ان تک کوئی بھی رسائی حاصل کرسکتا ہے۔بہتریں سے بہترین کتاب خرید سکتا ہے۔جب کہ آج سے ایک پچاس سال پہلے اس کا تصور بھی نہ تھا۔مثلاََ ابن حجر،سیوطی۔ابن سینا،رازی۔ابو العباس بونی ،غزالی ، ذہبی،طبری۔وغیرہ بہت بڑے علمی لوگ تھے۔آج بھی ان کی وسعت ذہنی پر رشک آتا ہے۔ان کےحافظے اور معلومات قابل داد تھیں۔لیکن انہیں علمی ذرائع اور حمل و نقل کی وہ سہولیات میسر نہ تھیں آج جو ایک معمولی انسان کو حاصل ہیں۔
آج کونسا موضوع ہے جس پر لکھی گئی بہترین کتب نہ مل سکتی ہوں۔مسلمانوں کی تو بات ہی کیا ہے،انہیں تو ایک دورے کی ٹانگ کھچائی اور کیڑے نکالنے سے فرصت نہیں لیکن ان لوگوں نے جنہیں کافر سمجھا جاتا ہے،انہیں خدا و جنت تک رسائی دینے پر آمادگی کی ظاہر نہیں کرتے۔انہوں نے وہ کام کئے ہیں کہ جنہیں سوچنا بھی مشکل تھا۔انہوں نےمیدان عمل میں وہ جوہر دکھائی کہ ان کی کاوشوں کے نتیجہ میں پید اہونے والی سہولیات کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ، انہوں نے ایسے سوفٹ وئیر بنا دئے ہیں جن کی مدد سے لاکھوں کتب تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔یہ حیرت انگیز کارنامہ ایسا ہے جس کا پچاس سال پہلے تصور کرنا بھی محال تھا۔راقم الحروف کے پاس لیپ ٹاپ میں اتنا علمی مواد موجود ہے جسے سوچ کر ذہن چکراکر رہ جاتاہے۔چند مکتبے ایسے ہیں جن میں عربی ،اردو ،فارسی،انگریزی کتب لاکھوں کی تعداد میں موجود اور میری ایک کمان پر کچھ بھی علمی کام کرسکتے ہیں۔میں ان کتب میں اپنی مرضی سے اضافہ کرسکتا ہوں ۔سہولت کی خاطرکمی کرسکتا ہوں۔
یہ کتب دستیاب علوم قدیمہ و جدیدہ پر مشتمل ہیں۔ہر موضوع پر یہ سہولت دی گئی ہے۔طب، عملیات،فلسفہ۔قیافہ سناشی۔دست سناشی۔عزائم و تعویذات ۔ مسلم و غیر مسلم۔مشرقی و مغربی علوم پر مشتمل کتب ایک کلک پر حاضر ہیں۔صدیوں پہلے لکھی جانے والی کتب جو بادشاہوں کے لئے مختص تھیں آج میرے میز پر موجود ہے۔یونانی،سریانی،مصری و ہندی مشرق و مغرب میں پروان چڑھنے والے علوم وفنون کبھی بھی کسی وقت بھی میں حاصل کرسکتا ہوں۔میں ہی کیا کسی بھی کو بھی معمولی قیمت دیکر سہولت میسر ہے۔ماناکہ پہلے لوگوں کو علوم و فنون میں بہت مہارت و حذاقت حاصل تھی۔لیکن وہ تووہی کتابیں حاصل کرسکتے تھے جو اس وقت تک لکھی جاچکی تھیں لیکن آج کے طالب علم کو وہ کتب بھی اور ان کے بعد آج تک لکھی جانے والی کتابیں میری رسائی میں ہیں۔یوں اس حدیث مبارکہ کی تصدیق ہوئی کہ ۔قرب قیامت علم کی بہتات ہوجائے گی۔یہ سہولت ہمہ قسم کے علوم و فنون کے لئے میسر ہے۔
شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں: خارجی حالات و اسباب سے میری مراد لوگوں کی عادات و اطوار اور ان کے ذہنوں میں جو علوم مرکوز ہوتے ہیں،ان سے ہے،اور یہ چیزیں ایسی ہیں کہ اس زندگی کے بعد بھی جب یہ لوگ عالم برزخ میں پہنچتے ہیں تو اس کی یہ عادات و اطوار اور یہ علوم ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔چنانچہ یہ لوگ اور ان کی عادتیں اور ان کے یہ اطوار اور ان کے یہ مرکزی علوم ذریعہ بنتے ہیں۔خطیرۃ القدس میںاس عظیم الشان تدلی کے خاص مثالی پیکر میں بروئے کار آنے کا۔الغرض اس طرح ایک خاص زمانے میں اس تدلی کا ایک مثالی پیکر خطیرۃ القدس میں بنتا ہے اور وہاں سے جب ارادہ الہی اس کا مقتضی ہوتا ہے اور جس وقت کہ دنیا کےے علوم اور سفلی حالات اس کے لئے سازگار ہوتے ہیںیہ مثالی پیکر عالم جسمانی میں نازل ہوتا ہے(فیوض الحرمین۔چوتھا مشاہدہ)
1 Comment
Surre