محافظ اروائولی،کا محافظ بنو۔۔
محافظ اروائولی،کا محافظ بنو
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
جناب نواب ناظم صاحب سو ہماری بہت پرانی یاد اللہ ہے۔جب ہم چھوٹا چھوٹا پڑھے ہا تو نواب ناظم جب بھی تحریر و ادب کو نواب ہو ۔آج جب ہم خود لکھاری بناہاں، تو نواب صاحب آج بھی اپنی کرسی پے ایسے ہی براجمان ہے۔نواب صاحب کی زندگی علم و ادب سو بھری پڑی ہے۔انن نے اتنی ساری ادبی و قومی خدمات سرانجام دی ہاں کہ آدمی سوچے تو ھدک رہ جاوے ہے۔ ان کی ساری تصنیفات سو اگر تخلیقات کہو جائے تو مبالغہ نہ ہوئے گو۔
اتنو پڑھ لکھ کے بھی نواب صاحب ہر کائی سو ہنس کے ملے ہے۔شکریہ ادا کرے ہے۔ہر کائی اے ایسو لگے ہے نواب ناظم سبن سو گھنو واسو محبت کرے ہے۔واکا مہیں دھیان دیو ے ہے۔
محاٖط ارائولی۔ناواب ناظم صاحب کی کتاب میو قوم پے احسان ہے۔اگر نواب صاحب میو ن کے مارے کوئی دوسرو کام نہ بھی کرے تو میو پھر بھی یاکا احسان اے نہ دے سکاہاں ۔محافظ ارائولی۔صرف حسن خان میواتی۔یا واکا خاندان کی تاریخ نہ ہے۔بلکہ میوات کی بہادری کی اُو داستان ہے،جو ہر میو کا گھر میں لکھی جاوے ہی۔اور بہادری اور ناموری اے وے لوگ،روز مرہ کو معلوم سمجھے ہا۔۔حسن خان میواتی۔ایک استعارہ ہے ۔ میو قوم سو منسوب کرنو بالکل حقیقت ہے۔۔
حسن خان میواتی کی زندگی کی کہانی دراصل میون کی او تاریخ ہے جائے میو بھولتا جارہا ہاں ۔عدہ نبھانو۔اپنان کے مارے جان قربان کرنو۔غداری سو دور رہنو۔وطن اور قوم کی حفاظت کرنو۔قوم و برادری کی لاج راکھنی۔یہ وے سبق ہان جنن نے میو آج بھول چکا ہاں۔۔جادن سو میون نے یہ سبق بھولا ۔دنیا نے یہ بھلا دیا۔جب قوم بہادری۔وفاداری۔وطن پرستی۔اور عدہ نبھاتی ہوئے تو وائے کائی تعارف کی ضرورت نہ رہوے ہے۔۔آج کو میو الٹی چال چل رو ہے ۔۔حسن خان میواتی نے جو کام اپنی تلوار اور بھالا سومیون نے جگان کے مارے کرو ہو۔۔نواب ناظم صاحب نے وہی کام اپنا قلم سو کرو ہے۔۔اگر غور کرو جائے تو وقت بدلو ہے لیکن کردار ایک سو ہے۔وانے تلوار سو قوم کی حفاظت کری ۔نواب صاحب نے اپنا قلم کا زور سو میون نے جگانا کی کوشش کری ہے۔
محفاظ اورائولی کی تقریب میں میون کا دوسرا پوتن سو بھی ملن کو موقع ملو۔ان میں۔بابائے میوات۔عاصد رمضان میو۔عظیم اللہ ایدووکیٹ۔کرنل محمد علی۔ریاض نور۔اسد اللہ ارشد۔لیاقت لاہوری۔مشتاق احمد امبرالیا۔پروفیسر محمد امین میو۔