میو قوم سپنا سو باہر آئے اور آگے بڑھے
میو قوم سپنا سو باہر آئے اور آگے بڑھے
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
تاریخ ایسو شیشہ ہے جامیں ہم کائی حد تک
اپنا باپ دادان کا منہ اے دیکھ سکا ہاں۔
ای لکھن والا کی مرضی ہے کہ مجاہدن نے ڈاکو لکھ دئے
یا آزادی کا متوالان نے باغی لکھ دئے۔
یا سادہ لوگن نے جاہل و گنوار لکھ دئے۔
ہم نے ماننا پڑنگا۔کیونکہ لکھن پڑھن سو
ہم نے خدا واسطے کو بیر ہے۔
دوسری بات ای ہے ہم نے ایک دوسرا کی
ٹانگ کھچائی سو فرصت نہ ملے ہے۔
کچھ لوگن کے نزدیک لکھنو لکھانو یاسو ہمارو
کہا لینو دینو۔کوئی کچھ بھی لکھے ہماری بلا سو
یاسستی کی وجہ سو۔دوسران لکھارین نے ہم بہادر
مجاہد ۔آزادی پند۔اور حریت پسند۔دھرتی ماں
پے قربان ہون والان کی جگہ ۔لٹیرا ۔ڈاکو۔باغی لکھ دیا
لوگن نے کہا پتو یہ لوگ وطن پرست توحید پریست
اور سادگی پند لوگ ہا۔دوسران کی غلامی ان کے ماری
موت سو بڑھ کے ہی۔آزاد ہا ۔آزاد رہنو پسند ہو
باہر سو حملہ آور ن للکارے ہا۔کائی دوسرا قبضہ گروپ اے
مار بھگاوے ہا۔
لیکن کہا کراں ان لوگن نے نسلن نے ایسی آلکسی دکھائی
کہ اپنا باپ دادان کا لگا منہ کا داغن نے بھی نہ دھو سکا
لوگن نے کہا پڑی جو تہارا داغن نے دھوتا ؟
ان کو تو وہی کچھ ملو جو مکالفن نے لکھ دئیو ہو۔
تہارا ہاتھ ٹوٹ گیا ہا کہ اپنا باپ دادان کی اصل بات
نہ لکھ سکا ۔اب روتا پھراں ہاں کہ ہم سو چور ڈاکو کہدی
مصیبت تو ای ہے اب بھی یا بات اے نہ سمجھاہاں۔
خدا نے وسائل صلاحیت اور اثر رسوخ سب کچھ دے راکھو ہے
لیکن سستی کاہلی۔عہدی پن نے ہمارو ستیا ناس کردئیو ہے
جب لوگ ہمار ا باپ دادان سو بڑو بھلو کہوا ہاں
اور تاریخ کو حوالہ پیش کراہاں،تو حقیقت جانن کے بجائے
ہم اپنا نام کے ساتھ میو لکھنا اے چھوڑ دیوا ہاں۔
اللہ کو شکر ہے اب کچھ حالات تبدیل ہوراہاں۔
میو اپنا نام کے ساتھ میو لکھن لگ پڑا ہاں۔
ای خوش گوار تبدیلی ہے۔امید ہے میو قوم
اپنا نام سو پہنچانی جائے گی اور
ایک سربلند قومن میں شمار ہوئے گی