میون کابالکن کی تعلیم کو پرُانو طریقہ
میون کابالکن کی تعلیم کو پرُانو طریقہ
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
میون کا بالن کی منجھائی کرنو۔بڑان کو حق سمجھوجاوے ہو
میو قوم میں عبادت کو شوق تو بچپن سو ای پیدا ہوجاوے ہے
کیونکہ میون کا بالکن کی دیکھ بھال میں ماں باپ کے ساتھ
دادا۔دادی۔نانا۔نانین کو بھی بہت بڑو کردار رہوے ہو
باپ تو باہر کاکامن نے بھگتاوے ہو، یامارے اولاد کا مہیں
دھیان دینو بہت مشکل رہوے ہو۔یامارے باپ یا بوجھ سو
اَلکھت رہوے ہو۔البتہ کدمی مدی ماں دَھمکاوے ہی کہ
تو کہو نہ مان رو ہا ۔تیرا باپ اے آ لین دے۔
تیری مرمت کروائونگی۔باپ بالن کی مرمت خوش دلی سو
اور اپنو فرض سمجھ کے کرے ہو۔لپڑ تھپڑ تو معمولی بات رہوے ہی
چاچا، تائو، بھی کدی مدی ہاتھ سینک لیوے ہا۔بالکن کے مارے
انصاف کا سارا دروازہ بند رہوے ہا۔
کیونکہ بالن کے لپڑ تھپڑ مارنو، بڑان کو حق مانو جاوے ہو
مار کھانو۔جھڑک کھانو، بچنان پے لازم رہوے ہو۔
میو ن کا بالک اکثر چلبلا رہواں،اوگن گارا۔اور شرارتی ہا
مار کھاکے بھی،اُن کو موڑ کدی بھی خراب نہ ہوے ہو۔
بڑا، بوڑھان کو کہنو ہو۔ماں باپ کی مار اولاد کے مارے
ایسے رہوے ہے جیسے فصل کے مارے بارش۔
میون کا بالکن کی جفاکشی کو اندازہ یاسو لگا سکو ہو
جب میونی بالکن کو لوری(سونا سو پہلے کو لاڈ پیار)دیوے ہی
تو کہوے ہی۔
بات کہوں بتکا کی۔تیرا سر میں ماروں کُتکا کی۔
کُتکا پڑو بجار میں۔گنڈہ روواں جوار میں۔
اندزہ کرو۔جا کی لوری میں کٹکا پڑتا ہوواں
وائے بڑو ہوکے لڑن سوُ کون روک سکے ہے؟
جب ہمارا گھر والان نے مدرسہ میںداخلہ دیوائیو
تو استاد صاحب کو مخلصانہ انداز میں مشورہ دئیو
استاد جی ۔ماس تیرو ۔ہڈی ہماری۔بے فکر ہوکے
یائے پڑھا۔۔اللہ کو شکر ہو کہ استاد نے ماں باپ
کا مہیں دئیو گئیو حق اچھا انداز میں استعمال کرو ہو
اچھی طرح کاٹے ہو۔لودھڑی سو ُکڑی اے
اُوسیل دیوے ہو۔جب مار مار کے من نہ بھرے ہو
تو کھجور کی سوٹی ،یا تونت کی چھمک سو خبر لیوے ہو
آج کل کی اولاد ہمارا دُکھ اے نہ سمجھ سکے ہے۔
اگر کوئی سکول یا مدرسہ سو بُھگ جاوے ہو تو
گھر والان کے کوئی فکر نہ ہی۔ای خدمت بھی
استادجی کے ذمہ رہوے ہی۔
کیونکہ کلاس میں کچھ خدائی خدمت گزار ایسا رہوے ہا
پڑھنو تو اُنن نے کہا رہوے ہو۔لیکن غیر حاضر بالکن نے
ڈھونڈ کے لانو اور استاد جی کےسامنے پیش کرن کو ہنر خوب جانے ہا
جادن سکول کا ہرکاران کے ہاتھ لگ جاوے ہا ۔تو ماس کا حقوق تو
پہلے ای اُستاد کو مل چکا ہووے ہا۔پھر کہا۔ہاتھن کی ٹھلین نے
پھوڑ دیوے ہو۔کئی دن تو استنجا سو بھی ڈر لگے ہو۔
کئی تو بالک تو ایسا اَوگن گارا رہوے ہا۔جو استاد جی کی
چاپلوسی میں ماہر ہا۔لیکن کلاس کے ساتھ ان کو سلوک اچھو نہ ہو
آج بھی دل کرے ہے، اُنن نے معاف نہ کروں۔
لیکن گئیو وقت ہلٹو تھوڑو آوے ہے۔
اللہ انن نے بھی خوش راکھے جو پڑھے ہا۔
اور انن نے بھی جو زبردستی پڑھاوے ہا۔
اور جو مظلوم تھاڑ سو پڑھایا گیا ہا۔
میواتی تعلیم کو سلسلہ جاری ہے۔
باقی فرصت میں لکھونگو۔