میو قوم کاجوانن کی منت سماجت
ماضی سو باہر آئو،کچھ کرگزراں۔
میو قوم کاجوانن کی منت سماجت۔
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
میں جوانن کوبہت بڑ وکیل ہوں میں آپ کو کوئی الزام نہ دیئو ہوں،
جو آپ کو دییو جاوے ہے وائی کام اے پورا کرنا کی توقع کرسکاہاں
یعنی جو آپ کو دئیو نہ گیو ہوئے واکو مطالبہ کیسے کرسکاہاں؟/غلطی ہماری ہے ۔
آپ میرا مسقبل ہواورمیں آپ کو ماضی ہوں۔ماضی اے رد مت کرو بلکہ پرکھو۔
جانچو۔اگر کچھ اچھو ہے تو آگے لیکے بڑھ جائو اور پھر ماضی اے مت دوہرائو۔
ہم آج تک ماضی اے دُوہرانا کی فکر میں ہاں۔وقت گزرے ضرور ہے
لیکن پلٹ کے نہ آوے ہے۔ہم نے وقت کو مسافر ہونو چاہے، پلٹنو نہ ہے۔
گستاخی اور بدتہذیبی کا مہیں/یا وقت ایک بہت الجھن کی صورت حال موجود ہے۔
اپنا من میںجو اپنا آپ اے بڑو پرہیز گاراور نیک کہواہاں ان کی گفتگو سنو تو خیال بے آبرو ہووے ہے
۔اور وے جو خوداے ہمارا سربراہ کہوا ہاں ان کی گفتگو سنو تو زبان بے آبرو ہووےہے۔
جو خیال و زبان کی آبرو نہ رکھ سکا وے ایک قومی ریاست کی آبرو کیسے رکھ پانگا۔
وقت اور زمانہ کو فاصلہ فاصلہ نہ رہوے ہے۔ فاصلہ وا وقت ہے
جب ہم ایک دوسرا کے قریب آکے دردمند ہونا شروع نہ ہوواں
اور درد مندی کونسی بات کو نام ہے کہ زندگی اور زندہ رہن والان کی قدر کرسکاں۔
احترام کرسکاں۔
ہمارے ہاں احترام کو مطلب ای ہے کہ جیسے ہم خود نیچو ہوراہاں،
عاجزی سو بڑی کوئی خوبی نہ ہے اور عاجزی سو بہتر کوئی چیز نہ ہے
میں تم سو توقع کرسکو ہوں جو ای دردمندی کی دولت ہے
آپ یائے تہذیب سو باوضو راکھو گا۔ای بہت ضروری ہے ۔
ہم سمجھا ہاں صرف جسمن کی عصمت رہوے ہے۔نیت ۔
فکر اور عمل کی عصمت ان سو کہیں زیادہ قوی تر اور اہم تر ہے۔
یامارے کہ جب زندگی بسر کراہاں تو۔زندگی کی عصمت کو نام اخلاق ہے۔
میرو جی چاہوے ہے کہ آپ میں سو کوئی بھی بے عصمت زندگی نہ گزارے۔
یا معاشرہ میں تعلیم اور اخلاقی قدرن نےپس پشت کرن کےمارے استعمال کری جاوے ہے ۔
دراصل جو تعلیمی ادارہ ہاں ان کا مرثیہ پڑھن کو جی کرے ہے بلکہ ماتم کرن کو دل کرے ہے
کہ ایک خطب الحواس نسل لاکرےہمارے سامنے کھڑی کرراہاں ،
جا سو پیسہ تو بے حد وصول کراہاں،ماں باپ کی زندگین نے ان پیسان کی خاطر نچوڑی جاری ہاں۔
اور یاکا بدلہ میں ان کو کہا مل رو ہے؟
تعلیم کو کام ای ہے۔ درس گاہ کی خوبی ای ہے کہ اُو کھلی آنکھن سو خواب دیکھنو سکھائے،
جو کھلی آنکھن سو خواب نہ دیکھائے میرو خیال ہے ان کو تعبیر بھی کہیں سو نہ ملے گی۔
کدی معاشرہ کی خوبی ای ہی کہ قانون کی عملداری ہی اور اخلاق کو قانون ہو۔
اخلاق کی رعایت ہووا ںلیکن زور آوری کا ماحول میں قانون صرف جنگل کا رہ جاوے ہے۔
اور جب بھی کوئی اپنا آپ اے حرف آخر سمجھن لگے ہے تو تعلیم تہذیب علم اور اخلاق وائی جگہ مرجاواہاں۔
ہم میں سو کوئی حرف آخر نہ ہے ۔ہم میں سو ہر کوئی ایک حرف ہے جو دوسرا سو مل کے لفظ بن سکے ہے
آپ تبدیل کرنو چاہو تو آج کل تبدیلی کو بہت چرچا ہے/
اگر یا انتظار میں رہا کہ زمانہ بدلے گو سب بدل جانگا تو ہم بھی بدل جانگا۔
میرو خیال ای ہے بجائے غم و غصہ سو نڈھال ہون کے مثبت کوشش کرنو شروع کردیواں۔
اپنی نئے پود کو کچھ دیواں جاسو ان سو کچھ مطالبہ کرسکاں
موئے پتو ہے میو قوم میں خوشحالی کم ہی۔تنگی ترشی کا دن دیکھا ہا۔
بھوک اور غربت دیکھی ہی۔لیکن آج کی نسل اِن باتن سو بے خبر ہے۔
تم اپنی بھوک اور غربت کی کہانین نے ان کو مت سنائو۔
جیسا لاڈ سو یہ پاکا ہاں انن نے ایسا اچھا انداز سو ای سمجھائو۔
بتائو کہ بیٹا ہم لوگ مشکل حالات سو اللہ نے نکالا ہاں۔
ہم نے تنگی میں اپنی تہذیب و تمدن نہ چھوڑو۔اپنی بولی نہ بدلی۔
میو کہوان پے فخر کرے ہے۔ہم جنگ جو او ر خق پرست اور خود پرست ہا۔
ہماری گن کیں آج بھی98 فیصد اصلی خون دوڑ رو ہے۔
ای سارو نظام قدرت نے یامارے کرو ہے اُو تم سو کوئی بہتر کام لینو چاہے۔
جو ہم نہ کرسکا اُن کامن نے تم کروگا۔اپنی برادری اور تہذیب کی خدمت کروگا۔
بیٹا ہم میں کونسی خامی ہے جو دوسران میں نہ ہوئے۔یا دوسری قومن میں کونسی خوبی ہے
جو ہمن میں موجود نہ ہے۔ہمارے بھینتر بہت سی ایسی خوبی ہاں جو دوسری قومن میں موجود نہ ہاں۔
قدرت تم سو کوئی کام لینو چاہے۔اگر تم نہ کروگا تو قدرت تہاری محتاج نہ ہے۔
میو قوم کی خدمت کے مارے بہت سا لوگ میدان میں آجانگا۔
ہمار ازمانہ مین سوٹا/لٹھ کی لڑائی ہی ۔ہم نے کائی میدان میں ہار نہ مانی۔
آج جدید ٹیکنالوجی کی لڑائی ہے۔تہارے پئے وسیع میدان ہے جو ہمارے پئے نہ ہو۔
بلکہ ہماری سوچ میں بھی نہ۔اگر تم نے اب بھی قوم کے مارے کام نہ کرو،تو کام تو ہوجائے گو لیکن قوم تم نے بھول جائے گی۔
جب تم ای قوم کے مارے کچھ نہ کروگا تو قوم اے کہا پڑی جو تم نے یاد راکھے؟۔۔
۔تم قوم کے مارے کچھ کروگا تو قوم تم نے سر ماتھا پے بٹھائے گی۔
۔اپنا کامن نے تو ہر کوئی کرے ہے۔بیٹا مزہ تو ای ہے کہ قوم کے مارے کچھ کر دکھائو۔
۔۔قوم اور برادری تو کاگن نے بھی پیاری رہوے ہے۔ہم تو پھر بھی انسان ہاں۔
۔/آخر میں اقبال عظیم آبادی کو شعرسن لئیو
بدلناہے اگر تو رندوں سے کہو اپنا چلن بدلیں
فقط ساقی بدل جانے سے میخانہ نہ بدلے گا