ناج کی کوٹھی ،چاکھی اورچون کی کُٹھلی
ناج کی کوٹھی ،چاکھی اورچون کی کُٹھلی
میو قوم کی ثقافت اور اس کی باقیات ماضی کی یاد
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
کئی صدی پہلے ہر گھر میں چون پیسن کے مارے
چاکھی ضرور رہوے ہی۔
گھر کا افراد کی ضرورت کے مطابق پیسنو بنے ہو
جا گھر میں چون(آٹا)کی جتنی ضرورت رہوے ہی
اتنو ہی روزانہ پیسنو بنے ہو۔
گھریلو طور پے بیربانین کی اہم ذمہ دارین میں سو
چاکھی پے چون پیسنو ۔
مہیری کے مارہ اوکھلی میں ناج چھڑ نو
کھانو پکانو۔گھر میں بوہاری پھیرنو۔
لتا کپڑا دھونا۔گوبر روڑو کرنو
کھیتن سو کھدو نیار کی کئی پنڈ کاٹنو۔
ڈھور ڈنگرن کو نیار کوٹنو۔وغیرہ ایسا کام ہا
جن میں کدی ناغہ نہ ہووے ہی۔
ویسے تو پیسنو روز کو روز بنے ہو
دھیر دھیرئیں دودھ بلونا کی آواز
خدامحمد ﷺ کے پہرے کانن میں گونجے ہی
بلئیونی،رئی سینکلا۔ہر گھر کی ضرورت ہی
دن کو انگیٹھی میں دودھ اونٹتو رہوے ہو
روٹی جیسی موٹی ملائی آوے ہی۔
اگر دودھ جماوے ہی تو،،،
سنہری رنگ کو گھی نلگے ہو۔
ہر گھر میں ناج کی کوٹھی اورچون کی کُٹھلی بھی رہوے ہی۔
جائے بیربانیبڑی بنر مندی سو بنا وے ہی
یہ دونوں چیز گھریلو طورپے خود ساختہ رہوے ہے
کوٹھی سال بھر کا دانہ رہوے ہا
اور کُٹھلی میں دس پانچ دن کو چون بھرو جاوے ہو
بوڑھی بڑَھین سو نئی چَھری چورین کو مت دی جاوے ہی
کہ کونسی مانٹی سو کٹھلی یا کوٹھی بنسئی جائے
ہر قسم کی مانٹی یا قابل نہ ہی کہ
واسوا ناج کی کوٹھی یا چون کی کُٹھلی بنائی جاسکے۔
کوٹھی/کُٹھلی/چولہا /چاکھی کے مارے دودر سو
اکثر ٹینٹ پے مانٹی ڈھوئی جاوی ہے
ان میں سُریلی یا کیڑا نہ لھے ہو
انن نے تیار کرے کئی جنگلی جڑی بوٹیپھرائی کاوے ہی۔
جاسو ناج خراب ہون سو بچو رہوے۔
ای میون کی ژقافت ہی۔اورمیونین کی ہنر مندی ہی
ای نبر ایک نسل سو دوسری نسل کو منتقل ہووے ہو۔
مانتی کی کوٹھی۔کٹھلی۔چاکھی کو گرنڈ،
پلوےھن کی کونڈیلی۔اور لگان کی ڈھومری۔
مانٹی سو بنوپانی کو گلاس۔
یہ سحٹ کی علامت اور تندرستی کی گارنٹی ہا۔
جب یہ چیز استعمال میں ہی۔
مونڈھ بھڑکنو،دل کو دورہ۔گردہ فیل ہونا
جیسی مرض میوات میں نہ ہی۔
تندستی ہی صحت ہی ،بے فکری ہی
وے لوگ زندگی جیوے ہے۔
روکھو سوکھو کھاکے مست رہوے ہا۔
ہوس و لالچ کی جگہ قناعت و شکر گزاری ہی۔