Dehaqani treatment is my experience
دہقانی علاج میرے مجربات
علاج دحقاني هو تجربتي
دہقانی علاج میرے مجربات
Dehaqani treatment is my experience
علاج دحقاني هو تجربتي
حررہ عبد فقیر۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ لاہور
زندگی میں بہت سی روز مرہ استعمال ہونےوالی اشیاء ہیں جنہیں ایک ماہر و باخبر طبیب ادویاتی مقاصد کے لئے کام میں لاسکتا ہے۔مگر طبیب کا خواص الاشیاء کا جاننا اورادویہ کے طبی رخ کا سمجھنا از بس ضروری ہے،طبیب جب خواص الادویہ پر عبور حاصل کرلے گا تو مریضوں کے لئے غذا اور دواء تجویز کرنے میں دشواری سے بچے گا۔
دہقانی نسخوں کی کامیابی کاراز۔
دیہاتی لوگ اپنی ضروریات اور امراض کے نسخہ جات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں ۔گائوں میں ایک آدھا بزرگ مرد/عورت ایسا ضرور پایا جاتا ہے جو سینہ بسینہ کچھ نسخے وراثت میں اپنے بڑوں سے پاتا ہے،یہی دہقانی نسخہ جات ان کی وجہ شہرت ہوتے ہیں ۔ہمارے بچپن کےچند واقعات حاضرخدمت ہیں۔
موتی جھیرا کی تشخیص
ہمارے گائوں میں دادا ابراہیم نامی شخص ہواکرتے تھے ،دور و نزدیک سے ان کے پاس لوگ بخار والے بچوں کو دکھانے لاتے تھے۔وہ سینہ سے قمیص اٹھاکر دیکھتے اور بتادیا کرتے تھے کہ اسے نمونیہ یا موتی جھرہ ہے کہ نہیں؟۔اگر کسی کابخار نہ ٹوتا اس سے مشورہ لیتا وہ اپنے تجربہ سے بتاتے کہ کچھ دانے باقی ہیں جب موتی جھرہ کے وہ دانے بھی نکل آئیں گے تو بخار ٹوٹ جائے گا۔
ڈاڑھ درد کے معالج
دوسرے شخص بابا ممن ہوا کرتے تھے کھیتی باڑی کرتے تھے ،ان کے پاس لوگ داڑھ دانت کے درد میں مبتلا جاتے تھے۔وہ کماد(گنے) کے کھیت سے کوئی جڑی بوٹی اکھاڑ کر لاتے اور ہتھیلی پر مسل کر اس کا پانی جس طرف ڈاڑھ میں تکلیف ہوتی ،اس طرف کان میں ڈال دیا کرتے تھے۔فورا درد بند ہوجاتا۔ایسا بھی مشاہدہ کیا گیا کہ داڑھ کا کیڑا تک تھوک کے ساتھ نکل آیا کرتاتھا۔
ہمارے استاد جی بچوں کے معالجی کے ماہر
ہمارے امام مسجد اور سب سے پہلے استاد جناب حاجی عبد الشکور مرحوم گولیاں بنایا کرتے تھے جو بچوں کے سانس میں تنگی میں دیا کرتے تھے۔ایک دن دیکھا کہ انہوں نے ہم بچوں سے درخت ارنڈ کی کونپلیں منگوائیں،ہم نے لاکر دیں،انہوں نےشوخ نیلے رنگ کی ایک ڈلی نکالی(یہ نیلے تھوتھے کی ڈلی تھی جسے ہم نے زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا) اور پتھر کی سل پر رکھ کر دونوں کو کچلا جیسے دیہاتوں میں سل باٹ پر مرچیں پیسا کرتے ہیں،جب اچھی طرح دونوں اجزاء مل گئے تو اس ملغوبہ کی گھریلو مکھی کے برابر بڑی احتیاط سے گولیاں بنالیں۔سوکھانے کے بعد انہیں شیشی میں محفوظ کرلیا۔
گائوں کی عورتیں پسلی چلنے والے بچوں کو دم کرانے لیکر آتیں ،حاجی صاحب مرحوم دم بھی کرتے اور ان گولیوں سے دو چار گولیاں بھی کاغذ کی پوڑیہ میں لپیٹ کر تھمادیتے کہ ان گولیوں کو ماں کے دودھ یا حقے کے استعمال شدہ پانی سے گھس کر بچے کو پلادیں۔اس سے بچے کو لیسدار قسم کا پاخانہ یا قے آتی بچہ اسی وقت کھیلنے لگ جاتا،گویا کہ یہ دو اجزائی نسخہ جمے ہوئے لیسدار بلغم کو نکالنے کا بہترین عمل تھا ۔
بچوں کے سوکڑے کا معالج
راقم الحروف نے ایک دیہائی سے زائد عرصہ مسجد میں امامت و خطابت،درس و تدریس کے فرائض سر انجام دئے۔اس وقت حکمت سے اپنی سوجھ بوجھ نہ تھی البتہ چند نسخے بناکر رکھ لیا کرتا تھا،ان سے جیب خرچ کا اتنظام ہوجایا کرتا تھا۔
میرے پاس سوکڑے کے مریض بچے لائے جاتے تھے،لوگوں کا یقین ہوتا تھا کہ انہیں نظر لگی ہے یا سایہ ہے۔دم کرانے سےآرام آجائے گا،میں دم بھی کرتا اور انہیں دوا بھی بناکر دیتا۔
میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ گھریلو مکھی سوکڑے کا بہترین علاج ہے۔اندھے کو کیا چاہئے دو آنکھیں،لوگ بچوں کی بیماری سے پریشان، علاج کے طالب ہوتے،میں انہیں مکھی کے پر اور ٹانگیں الگ کرکے گڑ میں لپیٹ کر گولی بناکر دیدیا کرتا تھا کہ ماں کے دودھ کے ساتھ صبح و شام یا پھر روزانہ ایک گولی گھس کربچے کو پلادیا کریں۔
جب قے ہونے لگ جائے تو بس کردیں ۔جب تک بچہ مکھیاں ہضم کرتا رہے۔سمجھو سوکڑے کے چنگل میں گرفتار رہے جیسے ہی بچہ قے کرتا سوکڑے سے باہر آجاتا ،کیونکہ تندرست بچہ مکھی ہضم نہیں کرسکتا۔
اگر کہیں مکھی کا فقدان ہوتا تو چینی یا شکر دیتا کہ یہ دم والی شکر کو بھینس کی چگالی سے پیدا ہونے والی جھاگ سے دیدیا کریں۔
بنیادی طورپر بھینس کی چگالی کے چند قطرے سوکڑے کے بچے کو پلانے سے سوکڑا سے شفاء کا سبب بنتا ہے۔
اس کے علاوہ بلغمی دمہ کے لئے حقے کی ٹوپی میں رکھا ہوا تمباکو اور گڑ کی جلی ہوئی راکھ پیس کر نیم گرم پانی سے ایک تا دو ماشہ دینے سے بلغم ختم ہوجاتا ہے۔
اسی طرح بلغمی کھانسی کے لئے کچھ ادویات حقے کے پانی کے ساتھ کھلانے کی تجویز دی جاتی تھی۔۔یہ طویل مضمون کے اس پر پھر کبھی لکھا جائے گا۔