بِٹ کوائن،بلاک چین اور کرپٹوکرنسی۔
Bitcoin, Blockchain and Cryptocurrencies.
البيتكوين والبلوك تشين والعملات المشفرة.
بِٹ کوائن،بلاک چین اور کرپٹوکرنسی۔
ماضی حال مستقبل۔تکنیکی تفصیلات اور علمائے کرام سے چند سوالات
مصنف :ذیشان عثمانی۔
یہ کتاب کیوں پڑھیں ؟
میرے خیال میں یہ کتاب ہر پاکستانی کو پڑھنی چاہئے۔ اس کا دیباچہ لکھنے کی بجائے اگر میں 115 سال پر انار یا چہ علامہ اقبال کی کتاب علم الاقتصاد سے کاپی پیسٹ کر دوں تو بھی کافی رہے گا۔ جہاں ہم 115 سال پہلے کھڑے تھے ، وہیں آج ہیں۔
بلاک چین اور کرپٹو کرنسی پر کئے جانے والے زیادہ تر اعتراضات کی وجہ کم علمی ہے۔ دنیائے معاشیات میں صرف وہ چیز نئی ہے جو آپ نے پڑھی نہیں، ورنہ نوع انسانی نے ہر چیز کسی نہ کسی رنگ میں ضرور دیکھ رکھی ہے۔ مثال کے طور پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ بٹ کوائن پر بجلی بہت لگتی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ بٹ کوائن کے علاوہ بھی کرپٹو کرنسیز موجود ہیں، جو مختلف Consensus (اتفاق رائے) کے انگور تھمز استعمال کرتی ہے اور ان پر اتنی بجلی صرف نہیں ہوتی ، برسٹ کوائن(Burst Coin ) پروف آف کیسے سٹی (Proof Of Capacity) پر چلتاہے اور بہت کم بجلی استعمال کرتا ہے۔
ہم پورا معاشی نظام بنانا چاہ رہے ہیں۔ آپ اس کا موازنہ بینکوں، ڈیٹا سینٹرز، 24 گھنٹے چلنے والی ATM مشینز اور مالیاتی اداروں میں کام کرنے والوں کی آمد ورفت کے ذرائع اور ان سے پیدا ہونے والے کاربن فٹ پرنٹ سے کریں تو آپ کو کرپٹو کرنسیز پر خرچ ہونے والی بجلی بہت کم محسوس ہوگی۔ بلاک چین، کرپٹو کرنسیز فنانشل نظام کے ساتھ وہی کرے گی جو موبائل فون نے لینڈ لائن فون کے ساتھ اور ای میل نے ڈاکخانوں کے ساتھ کیا ہے۔
2020 تک دنیا میں 20 ارب ڈیوائسز ہونگے جو IOT (انٹرنیٹ آف تھنگز) سے جڑے ہونگے۔ یہ ڈیوائس آپس میں بھی رقوم کا تبادلہ کریں گے ۔ ہمارا مائیکر ودیو، فرج، ائیر کنڈیشنر حتی کہ تو تھ برش تک اپنے فارغ اوقات میں کرپٹو مائکنگ کر رہا ہو گا جسے ہم اپلائنس مائننگ (Appliance-Mining) کہتے ہیں۔ دنیا بھر کا آبی نظام، معاشی نظام، جنگی نظام، امیگریشن، ذاتی شناخت سب بلاک چین کے ذریعے کنٹرول ہو رہی ہوگی۔
جب اقوام عالم اسمارٹ کانٹریکٹ کے ذریعے ، مصنوعی ذہانت سے آراستہ روبوٹس کی مدد سے ملکوں کی تقدیر کا فیصلہ کر رہی ہونگی تب آپ کافر اور حرام کے نعرے لگالگا کر شاید بوند بھر پانی کو ترسیں، مگر روبوٹس کو ترس کب آتا ہے۔ 1903ء میں علامہ اقبال کے لکھے گئے علم الاقتصاد کے دیباچے کے ساتھ آپ سے رخصت چاہوں گا، اسے پڑھنے کے بعد بھی اگر آپ کو اس کتاب میں شغف محسوس نہ ہو تو نہ پڑھئے گا ہو سکتا ہے آگے پچاس سال بعد کوئی نا عاقبت اندیش، اس دیباچے کو اپنی کتاب میں لکھ کر ، پھر سے اپنی قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرے۔