
ریحان اللہ والا سکول کو وزٹ۔
میو طلباء کے مارے خوشخبری
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
کل میرے پئے صوفی عرفان انجم اور مولوی طاہر نقشبندی تشریف لایا۔
یہ مولانا محمد احمد قادری صاحب سو ملن آیا ہا۔میرے پئے بھی ملن آپہنچا۔ابھی چائے پی را ہا کہ۔مولانا احسان احمد حسینی انچارج ریحان اللہ والا سکول کو فون آئیو کہ میں ملنو چاہوں۔
میں آرو ہوں ۔یا تو آجا!۔۔۔
میں نے فوراََ کہی کہ میں آرو ہوں۔

۔صوفی عرفان انجم صاحب کہن لگو استاد جی جے اجاز ت ہوئے تو ہم بھی ساتھ چل دیواہاں۔ میں نے کہو چپڑی اور دو،دو۔جلدی چلو۔ہم تینو گڑ گدی باندھی چلد یا۔
ہم لوگ منصورہ میں بازار پہنچا، مفتی احسان احمد حسینی صاحب نے لوکیشن بھیجی۔جب پہنچا تو مفتی صاحب ننگے پائو باہر ہمارا استقبال کے مارے کھڑو ہو۔
بڑو راضی ہوئیو۔ ملاقات ہوئی۔مختلف امور پے بات چیت ہوئی۔

ریحان اللہ والا سکول کی یا شاخ کو شوق سودورہ کرو۔ وزٹ کرائیو،ایک ایک چیز دکھائی،چائے پلائی۔۔اپنا نصاب اور تعلیمی نظام کا بارہ میں تفصیلی بات چیت کری۔
مفتی صاحب موئےادارہ کو پوڈ کاسٹ روم میں لے گئیو۔
ہوں ایک پوڈ کاسٹ کرو۔مختلف انداز میں طب و حکمت صحت کا بارہ میں طویل نششت ہوئی۔
ریحان اللہ والا سکولن میں ابھی تجرباتی کلاسز کو انتظام کرو جارو ہے۔کوئی کتاب نہ ہے،کوئی امتحان نہ ہے۔ نہ کوئی ڈگری ہے۔صرف ہنر ہے ضرورتن کو حل سکھائیو جاوے۔
یہ لوگ نو سال کا بچہ اے لیواہاں ۔واکو ایسو ماحول دیواہاں کہ۔بچہ بارہ چودہ سال کو ہوجائے تو

پچاس ہزار سو ایک لاکھ روپیہ تک کمانا کے قابل بن جاوے ہے۔
انن نے بتائیو کہ ہمارے پئے ہر طبقہ و شعبہ سو تعلق راکھن والی کیمونٹی کا بالک آرٹیفیشلن انٹلجنس سیکھن آواہاں۔
مذہب ومسلک کی بنیاد پے کائی سو امتیازی سلوک نہ برتو جاوے ہے۔
مفتی صاحب نے صحت و تندرستی۔جدید دور کا امراض۔اور ان کو گھریلو حل پے ایک پوڈ کاسٹ کرو۔
موسو سوالات کرا ۔میں نے قران و حدیث کی روشنی میں ان کو حل پیش کرو۔
یا ملاقات میں ایک بات محسوس کری گئی کہ مفتی صاحب میری ایک ایک بات اے غور سو سنے ہو۔واکو محتاظ و مختصر جواب دیوے ہو۔
قصقہ مختصر ای کہ تعلیم و صحت میں آرٹفیلشن انٹلجنس کہا رول ادا کرسکے ہے؟۔
مفتی صاحب یا نتیجہ پے پہنچو ۔یا تو ہم کو برانچ کے مارے جگہ دیو،یا پھر ہفتہ میں کم از ایک بار ہمارے پئے آئو۔
معاہدہ کرلئیو۔

موئے مفتی صاحب سو دلچسپی یا مارے ہی کہ
سعد ورچول سکلز پاکستان اے
میں ان کے ساتھ الحاق کرنو چاہوں۔
جامیو قوم کے مارے کچھ بہتر کرسکوں۔
نئی نسل کی ضرورت اور ان کے مارے روزگار کو بہتر انتظام کرسکوں۔
صوفی عرفان انجم۔اور مولوی طاہر نقشبندی صاحب نے یا سلسلہ میں گہری دلچسپی کو اظہار کرو۔
ہر طرح سو ساتھ چلن کو ادارہ ظاہر کرو۔
اگر ہم ریحان اللہ والا سکول سسٹم کو حصہ بن جاواہاں ،تو ایک بین الاقوامی ادارہ سو الحاق کو فائدہ اٹھاسکاہاں۔
اب ڈگری یا سند کی جگہ سکلز اور ہنر کی ضرورت ہے۔
یا سکول میں دس بارہ سال کو بالک،ویب سائٹس ڈزائن کرے ہے

،موبائل ایپ بناوے ہے۔سوفٹ وئیر بناوے ہے۔
ادارہ کی ساکھ و شہرت ہے،یورپ و امیریکہ میں ڈیمانڈ ہے۔
میرو ارادہ ہے کہ دس پانچ میو طلباء منتخب کرکے یا ادارہ میں ٹریننگ کرائوں۔
پھر وے بطور ٹرینر۔دوسرا میو بچان کو تربیت دیواں ۔
اپنو کراں اپنو کھاواں۔اپنا غریب والدی کو ہاتھ بٹاواں۔
یاسلسلہ میں بہت ساری مشکلات بھی آنگی ۔جن کے م ارے ہم لوگ ذہنی طورپے آمادہ ہاں۔
