
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میو قوم کو شاندار ماضی جنگ آزادی 1857۔
میواتی زبان ،موضوع کی وسعت۔تاریخی ضرورت
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
تُريكَ الليالي ما لم تَكُن تدري
ويَلوحُ الدَّهرُ في صُوَرٍ جِدادِ
مفہوم:
رات تم کو وا کچھ اےدکھا دیوے ہے جو تم نے پتو رہوے ہے۔
اور زمانہ نئی نئی صورتن میں اپنی حقیقت ظاہر کرے ہے۔
میو قوم میں بولی بولی جان والی میواتی کہلاوے ہے۔جب سو ُمیواتی زبان میں کام کرنو شروع کرو ہے تو میو قوم کا بڈا بوڈھا دنیا بھر سوُ فون کراہاں ۔وائس کراہاں۔تعریف و تنقید کراہاں۔اپنی
یائے بھی پڑھو
میواتی طب

رائے دیواہاں ۔دعا دیواہاں۔
ایسے لگے ہے کہ اللہ موسوُ ایسو کام لے رو ہے جو میو قوم کے بڈا بوڈھان کا دل کی آوازہے۔
ایسی بات ہے جائے بہت سا لوگ کہنو چاہ راہا،لیکن کہہ نہ سکا ۔
موقع نہ ملو۔فرصت نہ ملی ۔میدان عمل نہ ملو۔یا ان کی آواز گلا سو باہر نا نکل سکی۔

یا رابطہ سوُ دو فائدہ دیکھن کو ملا ہاں۔
(1)موئے پتو چلے ہے کہ لوگ میو قوم ۔میواتی بولی۔میواتی میں لکھائی۔میو قوم کی تاریخ،میو قوم کی ثقافت ۔میو قوم کو ماضی۔حال و استقبال کا بارہ کہا سو چا ،کہا سمجھا ہاں؟
جب وے نوں کہواہاں کہ ہم بھی یا کام اے کرنو چاہوے ہا ،لیکن سمجھ میں نہ آوے ہی کہ کیسے کراں؟
دوسرو نکتہ ۔

اگر ای کام ایسے کرلئیو جاوے تو بہتر رہتو،ہم نے نوں کرو ہے، واکو نتیجہ ای ہوئیو۔یامارے تو اپنا کام اے ایسے کر۔تو زیادہ بہتر رہے گو۔
(2)ان روابط سوُ پتو چلے ہے کہ میو قوم میں ابھی تک قومیت کی چنگاری موجود ہے۔
یاد رہے۔
قومیت سو مراد کائی دوسراے حقیر سمجھنو نہ ہے۔بلکہ اپنا وجود کو احساس ہے اپنی شناخت۔اپنو ماحول و ثقافت کو تحفظ ہے۔جولوگ یاسو قومیت کہوا ہاں کہ اسلام میں جائز نہ ہے۔
ایسی بات نہ ہے۔دراصل وے کچھ خود کرنو چاہوا ہاں نہ دوسران نے کچھ کرن دیواہاں۔بس احساس کمتری کو شکار ہاں۔
یائے میں پڑھو
میو قوم کا لوگن سو میل ملاقات

میری نئی کتاب” میو قوم کو شاندار ماضی اور جنگ 1857ء۔
۔جب میو قوم کا دانا و اہل علم لوگن کے پئے تبصرہ کے مارے پہنچے ہے تو مختلف پہلون پے بات چیت ہو وا ہاں ۔۔ہر ایک کو نکتہ نظر زیر بحث آوے ہے۔
میو قوم کی تڑپ کو اندازہ یاسو لگائیو جاسکے ہے کہ۔اصل کتاب کا موادسوُ گھنو تو یا کتاب پے تبصران کو مواد جمع ہوچکو ہے۔
یا پے نظم لکھی جاری ہاں۔نثر میں تقدمہ لکھا جاراہاں۔تبصرہ ہوراہاں۔۔اظہار رائے۔اظہار خیالات ایک طوفان کی شکل میں چاروں گھاں سو آراہاں۔ یاسو گھنو کہا کہہ سکوں ہوں کہ میو قوم کی ثقافت و تاریخ پے کام کرنو میو قوم کی دلی آرزو ہے۔
دوچار دِن پہلے جناب سکندر سہراب میو سو ملاقات ہوئی۔
دیکھ کے بہت خوش ہوئیو۔بڑی محبت سو بٹھائیو۔کتاب دیکھی راضی ہوگئیو۔بڑا بوڑھان کی طرح خوب دعا ء دی ۔تاریخ پے بات چیت طویل سو طویل ہوتی گئی، میں تو جلدی میںہو۔ لیکن گفتگو اتنی دلچسپ ہوئی کہ دو گھنٹہ گزر گیا اور پتو بھی نہ چلو۔
سنکدر سہراب صاحب میونے سوال کرو کہ میوون کی تاریخ لکھ رو ہا ۔ای میرو پسندیدہ موضوع ہے۔

لیکن کدی سوچو ہے کہ میو ہزاروں سال سو میوات میں آباد ہا۔ان کی حکومت رہی۔ان کو راج پاٹ رہو۔پھر بھی میواتی زبان اور میواتی کلچر دوسرا علاقان میں کیوں نہ پھیلو؟
میں کہا بولتو۔اُن سوُ اِی پوچھو کہا وجہ ہوسکے ہے؟ کہ بادشاہ کو دین تو سبن کو دین رہوے ۔
عربی کو مقولہ ہے
الناس علی دین مملوکھم۔۔۔
کہ لوگ اپناحکمرانن کا طریقہ اے اَپنا واہاں۔
پھر میون کی ثقافت اور بولی کیوں میوات سو باہر نہ جاسکی۔
جو میو ۔میوات اے چھو ڑی گیا وے اپنا ماضی اور قومیت اے چھوڑ گیا؟
میرا ذہن میں فی البدیع ایک نکتہ آئیو کہ
اللہ سو سچو کوئی رب نہ ہے،رسول اللہﷺ سو بڑھ کے کائی کے پئے پیغام کی وسعت نہ ہے۔
قران کریم سو بڑھ کے کوئی فطرت سو زیادہ ہم آہنگ کتاب نہ ہے۔
نبوت سو بڑھ کے کوئی اعلان نہ ہے۔
اسلامی روایات کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی آیا۔لیکن نامن کو کائی اے پتو نہ ہے۔
حالانکہ وے برَحق ہا،اللہ کا انتخاب ہا۔ان کی صداقت و رسالت میں کائی اے شک نہ ہے۔
لیکن ان کا نام اُن کا علاقہ اور اُن کا زمانہ کا بارہ میں کچھ پتو نہ ہے۔
البتہ جو نام قران کریم میں آگیا وے محفوظ ہوگیا۔یعنی کتاب ان کی حفاظت کو سبب ہے۔
جیسے وے دنیا کا ذہنن سوُ اُتر گیا۔وجہ صرف کتاب کو نہ ہونو ہو۔
ایسے ای میو قوم کے پئے بھی کوئی کتاب نہ ہی ۔ جو اُن کا پیغام اے آگے پہنچاتی۔
میون نے خود لکھن پڑھن سو کدی دلچپسی نہ ہی۔
نا ہی میوات میں تعلیم کو رواج ہو۔
۔نہ میو قوم میں کتاب لکھن کو رجحان ہو۔نہ آج ہے
۔چند لوگ ہاں۔
جو اپنا بل بوتا پے کچھ لکھ راہاں۔اتنی بڑی قوم کے مارے اتنو کم کام۔کچھ جچے نہ ہے۔
