
میواتی بولی کی حفاظت کیوں ضروری ہے؟
حکیم المیوات قاری محمدیونس شاہد میو
میو بولی کی حفاظت کی بہت سی صورت ہوسکاہاں۔لیکن یہ سب صورت یاطرح ممکن ہاں کہ میواتی بولی جائے ، میواتی لکھی جائے۔میواتی میں علوم و فنون منتقل کرا جاواہاں۔میواتی کی درس و تدریس کو سلسلہ جاری کرو جائے۔
کائی بھی زبان کو رائج ہونو وائے زندہ اور امر کردیوے ہے۔لیکن (بولی) زبان کا مٹنا سو اُو قوم اور واکی ثقافت مٹ جاوے ہے۔لسانیات کو تحفظ بہر حال ضروری ہے۔کوئی بھی قوم اپنی مادری زبان کے بغیر ترقی نہ کرسکے ہے۔
کچھ پڑھا لکھا میون کی زبانی سُنن کو ملے ہے کہ۔میو بولی بولنو ،قران و حدیث میں ثابت شدہ حقیقت تو نہ ہے؟۔
جی بھائی ٹھیک کہو۔میو بولی بولنو۔میواتی میں بات کرنو۔قران و حدیث سو ثابت نہ ہے۔نہ میواتی میں ایسو کوئی ادبی ذخیرہ۔علوم و فنون موجود ہاں کہ میواتی زبان لازمی بولی ۔سیکھی۔لکھی جائے۔نہ ہی میواتی کوئی الہامی ہے کہ یاکو تقدس بحال راکھو جائے؟

یا بارہ میں بہت سوچو۔مطالعہ کرو۔دوسری زبانن میں لکھی گئی کتب کو مطالعہ کرو۔تاریخ عالم میں ممکنہ حد تک دستیاب کتب کو مطالعہ کرو۔جب دیکھو کہ ترقی یافتہ قوم ترقی سو پہلے اپنی زبان و بولی کی حفاظت لازمی کرے ہی۔یعنی کوئی بھی زبان وا وقت بڑی بنے ہے۔جب اُو لکھی جائے،جب واکی ممکنہ حفاظت کری جائے۔ دوسری زبانن میں لکھا گیا علوم و فنون وازبان میں منتقل کرا جاواں۔
تم کائی زبان و قوم کا ریکارڈ اٹھا کے دیکھ لئیو۔کائی بھی قوم نے جب بھی سر اٹھائیو ہے تو وانے اپنی زبان (لسان) کا قواعد و ضوابط محفوظ کرا، جہاں کمی دیکھی پوری کری۔جہاں لوڈ پَڑی دوسری زبانن سو مستعار لی۔
عربی زبان نے جب دنیا پے غلبہ پائیو تو ایک کتاب اور اپنا پیغمبر کا کہا ہویا الفاظ کی حفاظت لازمی قرار دی گئی ۔ یائی طرح جب انگریزن نے عرج پائیو تو عربی سو ُبے شمار ذخیرہ انگریزی میں منتقل کرو۔چائنہ ،جاپان۔ جرمن کوئی بھی قوم دیکھو لئیو جب بھی ترقی کری اپنی زبان میں کری۔
رہی ای بات کہ میواتی بولی کی حفاظت کے بغیر بھی تو ترقی کرسکاہاں؟
بالکل کرسکو ہو۔لیکن پھر میو اور میو بولی مرجائے گی۔ترقی ای ترقی رہ جائے گی۔پھر ای ترقی میو بولی یا میو قوم کی نہ ہوئے گی بلکہ ایک فرد یا کچھ افراد کی ترقی اور انفرادی کاوش ہوئے گی۔میو تو جب ہی زندہ رہ سکے گو ۔جب اُو میواتی بولے گو۔میواتی لکھے گو۔میواتی پڑھے گو۔
عام بولی ۔زبان تو رہی ایک گھاں کو۔اگر بولی یا زبان کی حفاظت نہ کری جائے تو مذاہب تک مٹ جاواہاں۔جب کائی بھی قوم کی مذہبی بات۔احکامات۔تاریخ۔تہذیب پہچاننی مشکل ہوجاوے ہے۔
کہا دیکھو نہ ہو کہ دوسرا مذاہب سو منسوب عجیب و غریب بات دوسری زبانن میں پڑھن اور سنن کو ملا ہاں ۔ جب کہ اصل ماخذات میں ان کو ثبوت نہ ملے ہے۔جب زبان کی حفاظت ہوئے۔بولی کتاب میں محفوظ کردی جائے ۔تو کائے وابارہ میں آتی پاتی لگانا کی ضرورت ای محسوس نہ ہووے ہے۔
لیکن اگر بولی ۔ زبان محفوظ ہوئے تو کائی کی کہا مجال جو جھوٹ بول جائے؟
جا وقت ہم نے میواتی زبان۔تہذیب۔تاریخ۔ادب کے کام شروع کرو تو عجیب سو لگے ہو۔کہ ای بھی کوئی کرن والو کام ہے؟۔
لیکن اللہ اے ای کام کرانو ہو۔ہمارا ذہن نوں کو پھیر دیا۔
چاہتے نہ چاہتے ہوئے ہم نے میو قوم ۔میو زبان۔میو ثقافت۔میو ادبیات پے لکھنو لکھانو شروع کردئیو۔
جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا۔مطالعہ ومعلومات میں اضافہ ہوتو گئیو۔
ڈھونڈ ڈھونڈ کے میوات۔میو۔میواتی بولی ۔میواتی ثقافت پے کتب کو مطالعہ کرو گئیو۔
تو آنکھ پھٹی کی پھٹی رہ گئی کہ۔دنیا بھر میں کثیر تعداد میں لوگ موجود ہاں۔
پھر بھی ان سو منسوب ایسی۔ایسی بات لکھی گئی ہاں کہ جن کا بارہ میں نہ کوئی ثبوت ہے،کوئی حقیقت۔لیکن میو بولی ۔
میواتی زبان کی حفاظت نہ ہونا کی وجہ سو وے بات تاریخ کو حصہ بن چکی ہاں۔
جاکو خمیازہ آج ہم نے بھگتنو پڑ رو ہے۔
جا ترقی پے تم پھولا نہ سما را ہو۔کائی دوسرا ے پوچھ کے دیکھو،
تم لڑن بھیڑن والا۔باغی۔چور ڈاکو۔ اُجڈ۔ تہذیب و ترقی سو نا آشنا قوم ہو۔
جائے کھان کو پتو نہ پہرن کو،تہارا بڑا بوڑھا ان پڑھ جاہل۔دنیا سوُ بے خبر ہا۔
ای ہے تہارو ماضی۔تہاری تاریخ۔یاکی وجہ ای ہے کہ تم نے اپنی بولی چھوڑی تاریخ لکھن کی فرصت نہ ہی ۔جو کچھ ہو زبانی کلامی ہوتو رہو۔آج کوئی بھی میو۔کتنی بھی ترقی کرجائے۔
مذکورہ بالا لکھی گئی باتن سو منہ پھیر سکے ہے۔اگر منہ پھیرے گو تو میو تو نہ رہے گو؟
یامارے اپنی تاریخ لکھنی پڑے گی۔دوسران کی غلط بات۔غلط روایات کی نفی کرکے تصحیح کرنی پڑے گی۔
سعد ورچوئل سکلز پاکستان۔
ایک ایسو ادارہ ہے جو میو بولی۔میو ثقافت۔میو اتہاس (تاریخ) پے کام کررو ہے۔ای ایک اجتماعی مہم ہےجو مل بیٹھ کے سَر کرری جاری ہے۔
بحمد اللہ ای ٹیم ورک ہے۔جامیں شامل ۔
چوہدری آفتاب اختر میو۔ چوہدری طاہر نمبردار میو۔عاصد رمضان میو۔مشتاق احمد میو امرالیا ۔شکر اللہ میو۔ عمران بلا جیسا پُر خلوص محنتی لوگ شامل ہاں۔
ہم نے محسوس کرو ہے کہ یا ضرور ت اے بہت سا عقلمند میو قوم کا بڑا لوگ بھی محسوس کراہاں۔
رائو غلام محمد اسلام آباد ۔
حاجی اسحق اسلام آباد۔
جیسا لوگ موجود ہاں۔جنن نے میواتی ہریٹیج جیسی تنظیم و ادارہ بنایا۔اور میوات ، میو قوم۔میو ثقافت پے دن رات محنت کری۔
رائو غلام محمد نے جہاں دن رات محنت کری ہوں دھن دولت بھی پانی کی طرح بہائیو۔
میو قوم کا بے شمار لوگ اپنا اپنا انداز سو کام کرراہاں۔
تنظیم بن ری ہاں ۔سوشل میدیا کو استعمال کرو جارو ہے۔
شعر و شاعری نثر میں بہت کچھ مواد جمع ہورو ہے۔ بہت خوش آئیند بات ہے۔
ہمارا بہترین تجربان میں ای بات بھی شامل ہے کہ جب تم کائی میو کو کام کی اہمیت و افادیت سمجھانا میں کامیاب ہوجائو ہو ۔
سنن والو دھن دولت سو پیچھے نہ رہ دیوے ہے۔میو خرچیلا ہاں۔ دیالو ہاں ۔کام کرن والان کی قدر کراہاں۔
ابھی کل کا سوشل میڈیا پے تصویر وائرل ہی کہ میو ویلفئیر اسلام آباد کے زیر اہتمام پروگرام ہوئیو
جامیں حاجی صدیق کی خدمات کا سلسلہ میں پچاس ہزار کو چیک پیش کرو گئیو۔
میو فنکارن کے مارے اعزازات ک واہتما کرو گئیو۔
ای تو میڈیا پے آگئیو۔میرے پئے ایسا لوگن کی طویل فہرست موجود ہے۔
جو میو قوم میو بولی پے کام کرن والان کو مٹھی باندھ کے دیواہاں۔
ان کو کہنو ہے ای کام اللہ کی رضا کے مارے ہے کائی کو بتانا کی ضرورت نہ ہے۔
سعد ورچوئیل سکلز پاکستان
لین دین کا معاملاتن نے لکھے ہے اور ان کو ریکارڈ راکھے ہے۔
موقع بموقع لوگن کے سامنے آمد و اخراجات کی فہرست دھری جاواہاں۔
یا میں کام کرن والا لوگ للہ فی اللہ میو قوم کی خدمت میں لگاہویا ہاں۔
