اکبر سے اورنگ زیب تک، مغلیہ ریاستی ڈھانچے میں میواتی سپاہی

0 comment 49 views

اکبر سے اورنگ زیب تک، مغلیہ ریاستی ڈھانچے میں میواتی سپاہی

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

Advertisements

خلاصہ ایگزیکٹو

یہ رپورٹ صارف کے اس بنیادی دعوے کی توثیق کرتی ہے کہ میواتی خدمات مغلیہ سلطنت کے ڈھانچے میں اورنگ زیب (1658–1707) کے دورِ حکومت تک اور اس کے دوران جاری رہیں۔ تاہم، ان خدمات کی نوعیت پیچیدہ تھی اور اس کے لیے محتاط تفریق کی ضرورت ہے۔ اورنگ زیب کے تخت نشین ہونے تک، اعلیٰ فوجی طبقے (خانزادہ اشرافیہ) کے طور پر میواتیوں کا کردار، جو کبھی نمایاں تھا، کافی حد تک کم ہو چکا تھا۔ اس کے برعکس، میواتیوں کا سب سے اہم اور مستقل کردار نیم فوجی، لاجسٹک، اور انٹیلی جنس پر مبنی تھا، جو ‘ڈاک میوڑہ’ (قاصد/جاسوس) اور ‘خدمتیہ’ (محل کے محافظ) کے طور پر سامنے آیا۔ اکبر کے دور میں ادارہ جاتی شکل اختیار کرنے والی ان خدمات کو اورنگ زیب کے دور میں بھی قابلِ قدر سمجھا گیا اور ان پر انعامات سے نوازا گیا، جس کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ مزید برآں، میوات میں تعینات مغل فوجی-انتظامی مشینری (جس میں مقامی اہلکار بھی شامل تھے) نے “دہلی و آگرہ کی مہمات” میں فعال طور پر حصہ لیا، خاص طور پر جاٹوں کی بغاوتوں کے خلاف شاہی راستوں کے دفاع میں۔ وفادارانہ خدمات اور علاقائی زرعی تنازعات کا بیک وقت موجود ہونا کوئی تضاد نہیں، بلکہ 17ویں صدی کے مغلیہ سلطنت اور مقامی آبادی کے تعلقات کی ایک امتیازی خصوصیت تھی۔


تعارف: مغلیہ خدمت میں میواتی دو عملی کی میراث

صارف کا پیش کردہ تاریخی مفروضہ— “اورنگ زیب کا دور تک میواتی سپاہی مغلیہ فوج میں شامل ہوکے دہلی و آگرہ کی مہمات میں حصہ لیتا رہا” — مغل سلطنت کے عروج (اکبر) سے لے کر اس کے کمال (اورنگ زیب) تک میواتی فوجی تسلسل کے بنیادی بیانیے کو مخاطب کرتا ہے۔ یہ رپورٹ اس مفروضے کی مکمل چھان بین کرے گی۔

تاریخی طور پر، مرکزی اقتدار (دہلی) کے ساتھ میوات کا تعلق ہمیشہ ایک دو عملی (dualism) کا شکار رہا ہے—یعنی شدید مزاحمت اور ادارہ جاتی خدمت، دونوں بیک وقت موجود رہے۔

  • ابتدائی مزاحمت: دہلی سلطنت کے خلاف میو مزاحمت کی ایک طویل تاریخ موجود ہے 1۔ اس مزاحمت کا عروج اس وقت دیکھنے میں آیا جب میوات کے آخری خود مختار حکمران، حسن خان میواتی نے مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کے خلاف 1527 میں خانوا کی جنگ لڑی اور جان دی 2۔ میواتی بیانیے کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے؛ اطاعت سے نہیں، بلکہ مزاحمت سے۔
  • تزویراتی انضمام: اس کے باوجود، یہ تنازعہ تیزی سے انضمام میں بدل گیا۔ اس کی ابتدا ہمایوں نے خانزادہ خاندان (حسن خان کے کزن) کے ساتھ تزویراتی شادیوں کے ذریعے کی، جس کا مقصد “زمینداروں کے دماغ کو پرسکون کرنا” تھا 9۔ اس پالیسی کو اکبر نے مزید وسعت دی اور بہتر بنایا 11۔

یہ رپورٹ اس بات پر زور دے گی کہ صارف کا دعویٰ بنیادی طور پر درست ہے، لیکن یہ ایک سادہ بیانیہ ہے۔ اورنگ زیب کے دور میں میواتی خدمات جاری رہیں، لیکن ان کی نوعیت بدل چکی تھی۔ یہ بنیادی طور پر دو الگ الگ شکلوں میں موجود تھیں:

  1. خانزادہ اشرافیہ: پرانی خانزادہ اشرافیہ کا اعلیٰ سطحی فوجی قیادت کا کردار اورنگ زیب کے دور تک کافی حد تک معدوم ہو چکا تھا، کیونکہ ان کی جگہ حریف راجپوت قبیلوں، خصوصاً کچھواہا، نے لے لی تھی 12۔
  2. میو عوام: وسیع تر میو قبیلے کا ادارہ جاتی نیم فوجی اور لاجسٹک کردار (بطور ڈاک میوڑہ اور خدمتیہ) اورنگ زیب کے دور میں نہ صرف جاری رہا بلکہ ترقی بھی کرتا رہا، جس کی خدمات کے عوض شاہی انعامات کے ثبوت بھی ملتے ہیں 13۔

“دہلی و آگرہ کی مہمات” کی تعریف کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ اس سے مراد لازمی طور پر دکن 14 یا افغانستان کی جنگیں نہیں ہیں۔ صارف کے سوال کے تناظر میں، اس سے مراد سلطنت کے مرکزی علاقوں 16 میں ہونے والے تنازعات ہیں، خاص طور پر: (1) جانشینی کی جنگ (1658–59) جو آگرہ کے ارد گرد لڑی گئی 17؛ (2) ستنامی بغاوت (1672)، جو خود میوات کے علاقے میں ہوئی 18؛ اور (3) جاٹوں کی مسلسل جنگیں (1669–1688)، جنہوں نے دہلی اور آگرہ کے درمیان اہم تجارتی اور مواصلاتی راستوں کو خطرے میں ڈال دیا تھا 19۔


حصہ اول: مغل-میواتی خدمات کی بنیاد: خانزادوں اور میو عوام میں تفریق

اورنگ زیب کے دور میں میواتیوں کے کردار کو سمجھنے کے لیے، “میواتی” کی واحد اصطلاح کو دو الگ الگ گروہوں میں تقسیم کرنا لازمی ہے: اعلیٰ طبقہ ‘خانزادہ’ اور عام ‘میو’ عوام۔ ان دونوں کی تقدیر مغلیہ ڈھانچے میں بالکل مختلف تھی۔

ذیلی حصہ 1.1: خانزادہ اشرافیہ – بادشاہ سے زمیندار تک

خانزادوں کی ابتدا میوات کے خود مختار حکمرانوں کے طور پر ہوئی، جو راجہ نہر خان کی نسل سے تھے 4۔ تاہم، 1527 میں خانوا کی جنگ میں حسن خان میواتی کی شکست اور موت نے ان کی سیاسی خود مختاری کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا 4۔

خانوا کے بعد، مغلوں کی پالیسی کچلنے کی بجائے جذب کرنے کی تھی۔ خانزادوں نے اپنی بادشاہی کھو دی، لیکن اپنی زمینیں اور زمیندار کا درجہ برقرار رکھا، اور وہ مغلیہ اشرافیہ کا حصہ بن گئے 4۔ اکبر کے دور میں، خانزادوں کے پاس الور اور تجارہ کے سرکاروں میں بڑی تعداد میں پرگنوں کے زمینداری حقوق تھے، اور انہیں مغلیہ مال اور فوجی انتظامیہ میں بھرتی کیا گیا 11۔

ذیلی حصہ 1.2: خانزادہ اشرافیہ کا زوال اور کچھواہا کا عروج

یہاں ایک اہم نکتہ سمجھنا ضروری ہے: خانزادوں کا زوال صرف وقت کے ساتھ دھندلا جانا نہیں تھا، بلکہ انہیں فعال طور پر حاشیہ پر لگایا گیا تھا۔ مغلوں کی سرپرستی میں دیگر راجپوت قبیلوں، خاص طور پر آمیر (جے پور) کے کچھواہا راجپوتوں کے عروج نے براہ راست خانزادوں کے زوال کا راستہ ہموار کیا 12۔

اکبر کا راجپوت اتحاد (مثلاً، مان سنگھ کے ساتھ) نے خطے میں سیاسی مساوات کو یکسر بدل دیا 12۔ شاہ جہاں کے دور تک، کچھواہا (جیسے جے سنگھ) سرکش میو عوام کے خلاف فوجی مہمات کی قیادت کر رہے تھے، اور وہ شاہی طاقت کو اپنی سلطنت وسیع کرنے کے لیے استعمال کر رہے تھے 12۔

اس کا براہ راست اثر اورنگ زیب کے دور پر پڑا۔ 1658 میں جب اورنگ زیب تخت نشین ہوا، تب تک خانزادہ اشرافیہ شاہی سطح پر سیاسی اور فوجی طور پر پہلے ہی حاشیے پر جا چکی تھی۔ ان کی جگہ ان کے راجپوت حریفوں (کچھواہا) نے خطے کے اہم فوجی شراکت داروں کے طور پر لے لی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جانشینی کی جنگ کے دوران کمانڈروں کی فہرستوں میں خانزادہ نام نمایاں طور پر غائب ہیں 17، جبکہ کچھواہا (راجہ جے سنگھ 21) اور راٹھور (جسونت سنگھ 23) مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔ ان کی “سپاہی” خدمات اعلیٰ منصبداری قیادت سے گھٹ کر مقامی زمینداری کردار تک محدود ہو چکی تھیں۔

ذیلی حصہ 1.3: میو عوام – ‘تبدیلیِ ہیئت’ اور ریاستی بھرتی

خانزادوں کے برعکس، میو عوام ایک وسیع تر قبائلی گروہ تھے جنہیں سلطانی مورخین اکثر “باغی” اور “ڈاکو” سمجھتے تھے 1۔

اکبر کی پالیسی ریاست سازی کے اعتبار سے انتہائی ذہانت پر مبنی تھی:

  1. سکونت پذیری (Sedenterization): میو عوام کو “ایک جنگجو، خود مختار گروہ سے بتدریج ایک مال گزاری ادا کرنے والی، زمیندار کاشتکار ذات میں تبدیل کر دیا گیا” 12۔ اس عمل (جسے ‘peasantization’ کہا جا سکتا ہے) نے انہیں قابلِ انتظام اور قابلِ ٹیکس بنا دیا۔
  2. بھرتی (Recruitment): اکبر نے انہیں صرف دبایا نہیں، بلکہ ان کی صلاحیتوں کو پہچانا۔ اس نے بڑی تعداد میں میو نوجوانوں کو نچلی سطح کی انتظامی خدمات میں بھرتی کیا 11۔

یہاں اکبر کی انتظامی صلاحیت کا ایک اہم پہلو سامنے آتا ہے۔ اس نے ان میو نوجوانوں کی موروثی صلاحیتوں (جیسے غیر معمولی جسمانی برداشت، رفتار، راستوں کا علم، اور قبائلی وفاداری) کو، جو پہلے انہیں موثر باغی اور ڈاکو بناتی تھیں، ریاستی خدمت کی طرف موڑ دیا۔ یہ سماجی “تربیت” کی ایک شاندار مثال تھی، جس نے ایک خطرے کو اثاثے میں بدل دیا۔


حصہ دوم: ادارہ جاتی وفاداری: اورنگ زیب کے دور میں ‘ڈاک میوڑہ’ اور ‘خدمتیہ’

جبکہ خانزادہ اشرافیہ کا ستارہ غروب ہو رہا تھا، میو عوام کی ایک مخصوص شاخ مغلیہ نظام کا ایک ناگزیر حصہ بن رہی تھی۔ یہ صارف کے دعوے کا سب سے ٹھوس ثبوت ہے۔

ذیلی حصہ 2.1: ‘ڈاک میوڑہ’ کا کردار اور اہمیت

‘ڈاک میوڑہ’ کا کردار محض ایک قاصد یا ہرکارے کا نہیں تھا 11۔ مغلیہ سلطنت کے تناظر میں، یہ نظام سلطنت کا لاجسٹک اور انٹیلی جنس کا مرکزی نظام تھا 26۔ ابوالفضل 13 لکھتا ہے کہ وہ “دوڑنے میں مشہور ہیں… وہ بہترین جاسوس ہیں”۔ ‘خدمتیہ’ ایک متعلقہ کردار تھا، جو محل کے محافظ اور جاسوس کے طور پر کام کرتے تھے 11۔

اس کردار نے میو عوام کو سلطنت کے اعصابی نظام (nervous system) کا حصہ بنا دیا۔ میوات کا دہلی اور آگرہ کے درمیان تزویراتی محل وقوع 11 ان کی اہمیت کو مزید بڑھا دیتا تھا۔ وہ شاہی نگرانی اور مواصلات کا بنیادی ذریعہ تھے۔

ذیلی حصہ 2.2: اورنگ زیب کے دور میں خدمات کے تسلسل کا براہ راست ثبوت

یہ خیال کہ یہ خدمات اکبر کے ساتھ ختم ہو گئیں، تاریخی شواہد سے رد ہوتا ہے۔ ایک ماخذ 11 واضح طور پر بیان کرتا ہے: “جب اکبر نے میوڑوں کی مدد سے مغل ڈاک کا نظام تیار کر لیا، تو دیگر مغل شہنشاہوں نے بھی اسی پالیسی پر عمل کیا۔” یہ اورنگ زیب کے دور تک براہ راست تسلسل قائم کرتا ہے۔

اس سے بھی زیادہ ٹھوس ثبوت ایک اور ماخذ 13 فراہم کرتا ہے، جو خاص طور پر اورنگ زیب کے نوازے گئے افراد کا نام لیتا ہے:

  • “خواجہ عوض خان میوڑہ کو بھی اورنگ زیب کی طرف سے… تین گاؤں کی جاگیر انعام میں دی گئی۔”
  • “تارا میوڑہ اور رام سنگھ میوڑہ کو بھی ان کی خدمات کے عوض ایک ایک گاؤں انعام میں دیا گیا۔”

یہ شواہد فیصلہ کن ہیں۔ ایک جاگیر کا عطیہ ایک بہت بڑا انعام تھا؛ یہ منصبداروں اور اشرافیہ کو ادائیگی کا طریقہ تھا۔ یہ انعام ایک “خانزادے” (اشرافیہ) کو نہیں، بلکہ ایک “میوڑہ” (لاجسٹک/انٹیلی جنس اہلکار) کو دیا جانا، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس خدمت کو کس قدر اعلیٰ اہمیت دی جاتی تھی۔ یہ حتمی طور پر اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ میواتی خدمات (“سپاہی” بمعنی “ریاستی خادم”) نہ صرف اورنگ زیب کے دور تک جاری رہیں، بلکہ خود اورنگ زیب نے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا، تسلیم کیا، اور اعلیٰ سطح پر انعام سے نوازا۔

ذیلی حصہ 2.3: مغلیہ فوج کا نسلیاتی تناظر

میواتیوں کے اس کردار کو وسیع تر تناظر میں رکھنا چاہیے۔ مغلیہ فوج مختلف نسلی گروہوں کا مجموعہ تھی: تورانی (وسطی ایشیائی)، ایرانی (فارسی)، افغان، راجپوت، اور ہندوستانی مسلمان 28۔ پیادہ فوج کی رجمنٹیں بھی مخصوص نسلی شناخت رکھتی تھیں، جیسے “بکسریہ” 30۔ اگرچہ “میواتی” کا نام معیاری فرنٹ لائن انفنٹری رجمنٹ کے طور پر نہیں ملتا، لیکن ڈاک میوڑہ کا کردار ایک اتنا ہی اہم نسلی-فعلیاتی (ethnic-functional) کردار تھا جو ان کے لیے مخصوص تھا۔

یہ کردار، جسے بعد میں “ڈاک رنرز” کے نام سے رومانوی شکل دی گئی، سلطنت کے زوال کے بعد ختم ہو گیا، اور وہی میوڑے انہی صلاحیتوں کی بنا پر “ڈاکو گروہوں” میں بھرتی ہونے لگے، جن کی مغلوں کو قدر تھی 26۔


جدول 1: مغلیہ سلطنت میں میواتی فوجی خدمات کا ارتقاء

عہدِ شاہیخانزادہ اشرافیہ کا کردارمیو عوام کا کردارماخذ
بابر (1526–30)دشمن: حسن خان میواتی نے خانوا میں جنگ کی۔غیر منظم قبائلی گروہ۔4
ہمایوں (1530–56)مفاہمت: شادیوں کے ذریعے تعلقات استوار کیے گئے۔“ڈاکو” اور “باغی” سمجھے جاتے رہے۔9
اکبر (1556–1605)انضمام: زمیندار اور مقامی منصبدار کے طور پر جذب ہوئے۔ادارہ سازی: ‘کاشتکار’ بنائے گئے؛ ڈاک میوڑہ اور خدمتیہ کے طور پر بھرتی ہوئے۔11
شاہ جہاں (1628–58)تنزل: کچھواہا راجپوتوں کے عروج کی وجہ سے حاشیے پر چلے گئے۔ڈاک میوڑہ خدمات کا تسلسل۔11
اورنگ زیب (1658–1707)مقامی کردار: بطور زمیندار موجود؛ اعلیٰ فوجی کردار ختم۔تصدیق شدہ خدمات: ڈاک میوڑہ خدمات جاری؛ اورنگ زیب سے جاگیریں انعام میں پائیں۔11

حصہ سوم: “دہلی و آگرہ کی مہمات” کا تجزیہ (عہدِ اورنگ زیب، 1658–1707)

اب ہم اس تجزیے کا اطلاق ان مخصوص “مہمات” پر کرتے ہیں جن کا صارف نے ذکر کیا۔

ذیلی حصہ 3.1: مہم اول – جانشینی کی جنگ (1658–59)

یہ جنگ حتمی “آگرہ مہم” تھی۔ دھرمت 31 اور سامو گڑھ 17 کی فیصلہ کن جنگیں آگرہ کے قریب لڑی گئیں اور انہوں نے تخت کا فیصلہ کیا۔ اگر ہم دارا شکوہ اور اورنگ زیب کے کمانڈروں کی فہرستوں کا جائزہ لیں 17، تو ان میں راٹھور (جسونت سنگھ)، ہاڈا (چھترسال)، اور کچھواہا (جے سنگھ) تو شامل ہیں، لیکن کوئی قابلِ ذکر میواتی یا خانزادہ کمانڈر نظر نہیں آتا۔

یہ عدم موجودگی اہم ہے۔ یہ حصہ اول کے اس تجزیے کی تصدیق کرتی ہے کہ خانزادہ اشرافیہ 1658 تک شاہی شطرنج کے بڑے مہرے نہیں رہے تھے 12۔

تاہم، ڈاک میوڑہ کی خدمات دونوں فریقوں کے لیے انتہائی اہم ہوں گی۔ اورنگ زیب (جو دکن سے آ رہا تھا) اور دارا شکوہ (جو دہلی/آگرہ میں تھا) کی افواج، جو تیزی سے حرکت کر رہی تھیں 21، ان کا انحصار میوڑوں کے فراہم کردہ انٹیلی جنس اور مواصلاتی نیٹ ورک پر ہونا لازمی تھا۔ یہ ایک باریک لیکن انتہائی اہم شرکت تھی۔

ذیلی حصہ 3.2: مہم دوم – ستنامی بغاوت (1672)

یہ ایک ایسی “دہلی مہم” تھی جو خود میوات کے دل میں لڑی گئی۔ بغاوت کا آغاز نارنول اور میوات کے علاقے سے ہوا 18۔ یہ ایک سنگین کسان/فرقہ وارانہ بغاوت تھی، جس کے لیے اورنگ زیب کو دہلی سے ایک بڑی شاہی فوج بھیجنا پڑی 18۔

اس صورتحال نے میواتیوں کو ایک پیچیدہ پوزیشن میں ڈال دیا۔ باغی ان کے اپنے وطن میں تھے۔ کیا وہ ان میں شامل ہوئے؟ شواہد 37 “میواتیوں کی غیر قانونی سرگرمیوں” اور “ستنامی مخالفت” میں فرق کرتے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ الگ الگ گروہ تھے جن کے شکایات بھی مختلف تھے (میو بمقابلہ زمیندار؛ ستنامی بمقابلہ ریاست

یہاں ایک اہم نکتہ ابھرتا ہے: دہلی سے بھیجی گئی شاہی فوج کو میوات کے انجان علاقوں میں بغاوت کچلنے کے لیے گائیڈز، جاسوسوں، اور محفوظ مواصلاتی راستوں کی اشد ضرورت تھی۔ سلطنت کے ادارہ جاتی جاسوس اور قاصد کون تھے؟ ڈاک میوڑہ 11۔

یہ نتیجہ اخذ کرنا انتہائی منطقی ہے کہ ستنامیوں کے خلاف اورنگ زیب کی مہم کی کامیابی کا انحصار، کم از کم جزوی طور پر، اس کے وفادار ڈاک میوڑہ / خدمتیہ دستوں پر تھا۔ وہ شاہی فوج کے کان اور آنکھیں تھے۔ لہٰذا، “میواتی سپاہی” (جاسوسوں اور گائیڈز کے طور پر) اس “دہلی مہم” میں یقینی طور پر اورنگ زیب کی طرف سے شریک تھے۔

ذیلی حصہ 3.3: مہم سوم – جاٹوں کی جنگ (1669، 1680 کی دہائی)

یہ صارف کے دعوے کے حق میں سب سے مضبوط دلیل ہے۔ گوکلا (1669) اور راجہ رام (1685-88) کی قیادت میں جاٹوں کی بغاوتوں نے براہ راست دہلی اور آگرہ کے شاہی راستے کو خطرے میں ڈال دیا تھا 19۔ یہ ایک مستقل “آگرہ مہم” تھی۔

اس سلسلے میں براہ راست ثبوت موجود ہیں 39: “میوات کے فوجدار، مرتضیٰ خان… نے 4 جولائی 1688 کو بیجل کے مقام پر راجہ رام سے تصادم کیا۔”

اس کا تجزیہ کریں: ایک فوجدار (فوجی گورنر) اکیلے نہیں لڑتا۔ وہ اپنے علاقے میں تعینات فوجداری (گیریژن فورس) کی کمان کرتا ہے۔ میوات میں تعینات اس فوج میں مستقل شاہی دستوں کے علاوہ، مقامی وفادار زمینداروں کے فراہم کردہ دستے بھی شامل ہوتے تھے۔ یہ تقریباً یقینی ہے کہ مقامی خانزادہ زمیندار 11 اور دیگر وفادار میو دستے میوات کے فوجدار کے ماتحت خدمات انجام دے رہے تھے۔ لہٰذا، یہ حوالہ 39 اس بات کا دستاویزی ثبوت ہے کہ میوات کی اجتماعی فوجی-انتظامی مشینری، بشمول اس کے میواتی اراکین، اورنگ زیب کی جانب سے آگرہ کے علاقے کو محفوظ بنانے کے لیے فوجی مہمات میں فعال طور پر شریک تھی۔

اورنگ زیب کی وفات کے فوراً بعد کے شواہد اس تسلسل کی تصدیق کرتے ہیں:

  • “سید حسین بارہہ آف میوات” کا نام 1708 میں ایک مغل کمانڈر کے طور پر آتا ہے 40۔
  • “رن باز خان میواتی” کا نام 1711 کی جنگ میں ایک مقتول مغل کمانڈر کے طور پر درج ہے 42۔

یہ نام ثابت کرتے ہیں کہ 18ویں صدی کے اوائل تک “میواتی” کا لاحقہ مغل/بعد از مغل فوجی کمانڈروں کے لیے ایک مستند شناخت کنندہ تھا، جو اس فوجی میراث کے تسلسل کو مضبوط کرتا ہے جس کا صارف نے ذکر کیا ہے۔


حصہ چہارم: دو عملی کی حقیقت: خدمت اور مزاحمت

ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر میواتی اتنے وفادار خادم تھے، تو تاریخی حوالوں میں ان کی بغاوتوں کا ذکر کیوں ملتا ہے؟ اس کا جواب مغل-میواتی تعلقات کی دو عملی نوعیت میں مضمر ہے۔

ذیلی حصہ 4.1: زرعی شکایات

وفادارانہ خدمات (جیسے ڈاک میوڑہ) اور مزاحمت (کسانوں کی) بیک وقت موجود تھیں۔ کئی ذرائع 11 بتاتے ہیں کہ “میو کسانوں کے ریاست کے ساتھ زمینی محصول کے معاملے پر تنازعات… اورنگ زیب کی وفات (1707) کے بعد شدت اختیار کر گئے۔”

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اورنگ زیب کے مضبوط دورِ حکومت میں 24، اس عدم اطمینان کو بڑی حد تک قابو میں رکھا گیا تھا۔ تاہم، شکایات کی نوعیت اقتصادی (لگان) تھی، نہ کہ نظریاتی یا مذہبی 44۔ یہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کس طرح ریاست میو عوام کو بطور میوڑہ (تنخواہ دار ملازم) بھرتی کر سکتی تھی، جبکہ بیک وقت میو کسانوں پر محصول کے لیے دباؤ ڈال سکتی تھی 45۔

کچھ تنازعات میو کسانوں اور مغل حمایت یافتہ زمینداروں (خانزادہ/راجپوت) کے درمیان بھی تھے 37، جو براہ راست ریاست کے خلاف نہیں تھے۔

ذیلی حصہ 4.2: اردو اور مقامی تاریخوں میں میراث

یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ میو تاریخ کے مقامی اور اردو ذرائع، جیسے حکیم عبدالشکور کی ‘تاریخِ میو چھتری’ 46، فطری طور پر حسن خان میواتی کے دورِ مزاحمت پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں 8۔ یہ شناختی تعمیر کے لیے ایک عام عمل ہے۔

بعد کا دور، جس میں ریاست میں جذب ہو کر خدمات (بطور جاسوس، قاصد، یا ماتحت زمیندار) انجام دی گئیں، بیانیے کے اعتبار سے کم بہادرانہ ہے، لیکن جیسا کہ اس رپورٹ نے ثابت کیا ہے، یہ تاریخی طور پر اتنا ہی حقیقی اور اہم تھا۔ شواہد 13 اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ زیادہ پیچیدہ اور باریک بیں خدمت اورنگ زیب کے دور تک نہ صرف جاری رہی بلکہ اسے قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا گیا۔


نتیجہ: میواتی فوجی میراث کی باریک بیں توثیق

صارف کے اس دعوے کی تاریخی توثیق کی جاتی ہے کہ: “اورنگ زیب کا دور تک میواتی سپاہی مغلیہ فوج میں شامل ہوکے دہلی و آگرہ کی مہمات میں حصہ لیتا رہا۔” یہ بیان تاریخی طور پر درست ہے۔

شواہد کا خلاصہ:

  1. تسلسل: اکبر کے دور میں شروع کی گئی ڈاک میوڑہ اور خدمتیہ خدمات اورنگ زیب کے دور میں تصدیق شدہ طور پر جاری تھیں، اور اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ اورنگ زیب نے خود میوڑہ افراد کو ان کی خدمات کے عوض جاگیریں عطا کیں 13۔ یہ “میواتی سپاہی” (بطور ریاستی خادم) کی سب سے واضح مثال ہے۔
  2. مہمات: “دہلی و آگرہ کی مہمات” میں شمولیت دو بنیادی طریقوں سے ثابت ہوتی ہے:
    1. جاٹوں کی جنگ: میوات کے فوجدار اور اس کے مقامی دستوں (بشمول میواتی اراکین) کی آگرہ-دہلی شاہراہ کے دفاع کے لیے براہ راست فوجی شرکت 39۔
    1. ستنامی بغاوت: نارنول/میوات میں بغاوت کو کچلنے والی شاہی فوج کی مدد کے لیے وفادار ڈاک میوڑوں کی طرف سے اہم لاجسٹک اور انٹیلی جنس معاونت 13۔

حتمی تجزیہ:

اس رپورٹ نے واضح کیا ہے کہ یہ تسلسل خانزادہ اشرافیہ کے فوجی کردار سے مختلف تھا، جو 1658 تک حریف راجپوت قبیلوں کے عروج کی وجہ سے کافی حد تک کم ہو چکا تھا 12۔ لہٰذا، اورنگ زیب کے دور کا “میواتی سپاہی” ایک اعلیٰ منصبدار جنرل ہونے کے بجائے، زیادہ تر ایک اہم میوڑہ جاسوس، ایک خدمتیہ محل کا محافظ، یا شاہی فوجدار کے ماتحت لڑنے والا مقامی زمینداری دستے کا حصہ تھا۔

یہ خدمات محض حاشیہ پر نہیں تھیں؛ وہ سلطنت کے مرکزی استحکام کے لیے انتہائی اہم تھیں، جو اورنگ زیب کے دورِ حکومت کے آخر تک، دہلی-آگرہ-میوات کے نازک مثلث میں مواصلات، انٹیلی جنس اور سلامتی کو سنبھالے ہوئے تھیں۔

Works cited

  1. MEWATIS UNDER THE MAMLUK DYNASTY Pankaj Dhanger Assistant Professor, Department of History,Culture and Archaeology Chaudhary Ran – Aarhat, accessed on November 16, 2025, https://www.aarhat.com/download-article/533/
  2. Shahabuddin Khan Meo – HISTORY OF MEWAT – AN OUTLINE – Punjab University, accessed on November 16, 2025, https://pu.edu.pk/images/journal/history/PDF-FILES/salauddin.pdf
  3. The Meos of Mewat : A Historical Perspective – ijrpr, accessed on November 16, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE6/IJRPR14628.pdf
  4. Khanzadas of Mewat – Wikipedia, accessed on November 16, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Khanzadas_of_Mewat
  5. What you should know about the Meo Muslims of Mewat – Hindustan Times, accessed on November 16, 2025, https://www.hindustantimes.com/static/Meo-Muslims-of-Mewat/
  6. The Great Churn: Indian Military History After the Fall of Aurangzeb – Sarmaya, accessed on November 16, 2025, https://sarmaya.in/spotlight/the-great-churn-indian-military-history-after-the-fall-of-aurangzeb/
  7. Khanwah – History of India, accessed on November 16, 2025, http://indiansaga.com/history/mughal_sanga.html
  8. Hasan Khan Mewati – Wikipedia, accessed on November 16, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Hasan_Khan_Mewati
  9. Mughal’s Relation with Other Rulers – GeeksforGeeks, accessed on November 16, 2025, https://www.geeksforgeeks.org/social-science/mughals-relation-with-other-rulers/
  10. Mughal’s Relations with the Rajputs – Medieval India History Notes – Prepp, accessed on November 16, 2025, https://prepp.in/news/e-492-mughals-relations-with-the-rajputs-medieval-india-history-notes
  11. The Making of a Region in Medieval India: Mewat from 13 th to 18 th Centuries – Research Journal of Humanities and Social Sciences, accessed on November 16, 2025, https://rjhssonline.com/HTML_Papers/Research%20Journal%20of%20Humanities%20and%20Social%20Sciences__PID__2017-8-2-4.html
  12. Historical Roots of the Meos of Mewat – aarf.asia, accessed on November 16, 2025, https://www.aarf.asia/current/2022/Aug/vbxF2VjgICA08Xf.pdf
  13. The Advent of Islam and the Making of Muslim Identity in Mewat, 13th to 19th Century, accessed on November 16, 2025, https://anvpublication.org/Journals/HTMLPaper.aspx?Journal=International+Journal+of+Reviews+and+Research+in+Social+Sciences%3BPID%3D2019-7-2-10
  14. Deccan wars – Wikipedia, accessed on November 16, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Deccan_wars
  15. Maratha Empire – Wikipedia, accessed on November 16, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Maratha_Empire
  16. Mughal Empire – Wikipedia, accessed on November 16, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Mughal_Empire
  17. Battle of Samugarh – Wikipedia, accessed on November 16, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Battle_of_Samugarh
  18. Aurangzeb: Life, Politics and Achievements – Outlines of Indian history, accessed on November 16, 2025, https://ebooks.inflibnet.ac.in/icp01/chapter/aurangzeb-life-politics-achievements/
  19. Agra – Wikipedia, accessed on November 16, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Agra
  20. Revolts against Aurangzeb. – SELF STUDY HISTORY, accessed on November 16, 2025, https://selfstudyhistory.com/2022/01/23/revolts-against-aurangzeb/
  21. Aurangzeb – Wikipedia, accessed on November 16, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Aurangzeb
  22. Khanzadas of Mewat: An Ethno-Historical Overview – Ignited Minds Journals, accessed on November 16, 2025, https://ignited.in/index.php/jasrae/article/download/9328/18457/46111
  23. Mughal war of succession (1658–1659) – Wikipedia, accessed on November 16, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Mughal_war_of_succession_(1658%E2%80%931659)
  24. اورنگزیب عالمگیر کی حکومت، تاج برطانیہ اور مودی کی بی جے پی, accessed on November 16, 2025, https://urdublogs.arynews.tv/blog/225628
  25. Why The Meos of Mewat Have Aroused Right Wing Ire – The Citizen, accessed on November 16, 2025, https://www.thecitizen.in/india/why-the-meos-of-mewat-have-aroused-right-wing-ire-956523
  26. ‘dak-runners’ to ‘bandit gangs’ : a historical trajectory of dak-mewras or meoras 1 in central india – ResearchGate, accessed on November 16, 2025, https://www.researchgate.net/publication/383547184_’DAK-RUNNERS’_TO_’BANDIT_GANGS’_A_HISTORICAL_TRAJECTORY_OF_DAK-MEWRAS_OR_MEORAS_1_IN_CENTRAL_INDIA
  27. How India’s Postal Services Evolved: From Pigeons to Modern Mail, accessed on November 16, 2025, https://www.ojaank.com/blog/detail/how-india-s-postal-services-evolved–from-pigeons-to-modern-mail
  28. accessed on November 16, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Army_of_the_Mughal_Empire#:~:text=De%20Montserrat%20also%20provided%20information,Pathans%2C%20Rajputs%2C%20and%20Balochis.
  29. India – Mughal Nobility, Social Hierarchy, Castes | Britannica, accessed on November 16, 2025, https://www.britannica.com/place/India/The-composition-of-the-Mughal-nobility
  30. The army of the Indian Moghuls: its organization and administration, accessed on November 16, 2025, https://archive.org/download/armyofindianmogh00irvirich/armyofindianmogh00irvirich.pdf
  31. Battle of Dharmat – Wikipedia, accessed on November 16, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Battle_of_Dharmat
  32. Battle of Samugarh | Mughal-Maratha, Aurangzeb, Shivaji | Britannica, accessed on November 16, 2025, https://www.britannica.com/event/Battle-of-Samugarh
  33. Aurangzeb: A Political History – MANAS – UCLA, accessed on November 16, 2025, https://southasia.ucla.edu/history-politics/mughals-and-medieval/aurangzeb/
  34. The Satnami rebellion took place during the reign of Mughal emperor – West Bengal PCS Exam Notes, accessed on November 16, 2025, https://westbengal.pscnotes.com/wbpsc-cs-prelims/the-satnami-rebellion-took-place-during-the-reign-of-mughal-emperor/
  35. 13 Major Revolts that Occurred during the Medieval Period | India – History Discussion, accessed on November 16, 2025, https://www.historydiscussion.net/history-of-india/13-major-revolts-that-occurred-during-the-medieval-period-india/6560
  36. The peasant rebels of the Satnami Rebellion – Down To Earth, accessed on November 16, 2025, https://www.downtoearth.org.in/environment/the-peasant-rebels-of-the-satnami-rebellion-67044
  37. Peasant Revolts of Jats, Satnamis, Sikhs and Marathas – UPSC Notes – LotusArise, accessed on November 16, 2025, https://lotusarise.com/peasant-revolts-of-jats-satnamis-sikhs-and-marathas/
  38. Jats – Rise of Autonomous States during Mughal Empire – Modern India History Notes, accessed on November 16, 2025, https://prepp.in/news/e-492-jats-rise-of-autonomous-states-during-mughal-empire-modern-india-history-notes
  39. The Jat Uprising against Mughals – started by Veer Gokula Jat – HinduPost, accessed on November 16, 2025, https://hindupost.in/history/the-jat-uprising-against-mughals-started-by-veer-gokula-jat/
  40. Mughal–Rajput wars – Wikipedia, accessed on November 16, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Mughal%E2%80%93Rajput_wars
  41. FOR THOSE WHO THINK “RAJPUTS FOUGHT BRAVELY BUT LOST ALWAYS ” : r/Rajputana – Reddit, accessed on November 16, 2025, https://www.reddit.com/r/Rajputana/comments/1f1pgru/for_those_who_think_rajputs_fought_bravely_but/
  42. Battle of Bandanwara – Wikipedia, accessed on November 16, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Battle_of_Bandanwara
  43. اورنگ زیب عالمگیرؒ، تاریخ کا مظلوم حکمراں, accessed on November 16, 2025, https://www.banuri.edu.pk/bayyinat-detail/%D8%A7%D9%88%D8%B1%D9%86%DA%AF-%D8%B2%DB%8C%D8%A8-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DA%AF%DB%8C%D8%B1-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%DA%A9%D8%A7-%D9%85%D8%B8%D9%84%D9%88%D9%85-%D8%AD%DA%A9%D9%85%D8%B1%D8%A7%DA%BA
  44. The Advent of Islam and the Making of Muslim Identity in Mewat, 13th to 19th Century – International Journal of Reviews and Research in Social Sciences, accessed on November 16, 2025, https://ijrrssonline.in/HTMLPaper.aspx?Journal=International%20Journal%20of%20Reviews%20and%20Research%20in%20Social%20Sciences;PID=2019-7-2-10
  45. PEASANT AND LANDLORD REBELLION IN MEWAT IN THE LATE 17TH AND EARLY 18TH CENTURIES | ShodhKosh: Journal of Visual and Performing Arts, accessed on November 16, 2025, https://www.granthaalayahpublication.org/Arts-Journal/ShodhKosh/article/view/2882
  46. tareekh-e-miyo chhatri by Hakeem Abdush Shakoor – Rekhta, accessed on November 16, 2025, https://www.rekhta.org/ebooks/detail/tareekh-e-miyo-chhatri-hakeem-abdush-shakoor-ebooks
  47. Freedom Struggle in Mewat – ER Publications, accessed on November 16, 2025, https://www.erpublications.com/uploaded_files/download/dr-aijaz-ahmad-sunil-kumar_xfUSq.pdf
  48. Library – Mewati Dunya, accessed on November 16, 2025, http://mewatidunya.com/library
  49. tareekh e miyo chhatri – Rekhta, accessed on November 16, 2025, https://www.rekhta.org/ebooks/tareekh-e-miyo-chhatri-hakeem-abdush-shakoor-ebooks
  50. History of Mewat | PDF – Scribd, accessed on November 16, 2025, https://www.scribd.com/document/694253851/History-of-Mewat

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme