
جنگ 1857 میواتی بغاوت میں مولانا محراب خان میواتی کا کردار
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
حصہ 1: تعارف: تاریخی ریکارڈ کی وضاحت اور سیاق و سباق کا قیام
1857 کی جنگ آزادی کی تاریخ نویسی میں، جو برطانوی استعمار کے خلاف ایک عظیم مزاحمت تھی، اکثر بڑے شہری مراکز اور شاہی شخصیات پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ تاہم، اس وسیع جدوجہد کی اصل روح ہندوستان کے دیہی علاقوں میں عوامی بغاوتوں میں پنہاں تھی، جہاں عام کسانوں اور مقامی رہنماؤں نے غیر معمولی جرات کا مظاہرہ کیا۔ ان میں سے ایک اہم لیکن اکثر نظر انداز کیا جانے والا باب میوات کا ہے، جو جدید دور کے ہریانہ اور راجستھان پر محیط ایک خطہ ہے۔ یہاں بغاوت محض ایک فوجی سرکشی نہیں تھی، بلکہ ایک مکمل عوامی جنگ تھی جس کی قیادت کسانوں، مقامی چوہدریوں اور علمائے کرام نے کی۔ اس بغاوت کے ایک اہم کردار مولانا محراب خان میواتی تھے، جن کا نام اکثر اسی دور کے ایک اور مشہور باغی، کوٹہ کے محراب خان کے ساتھ خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ یہ رپورٹ مولانا محراب خان میواتی کے کردار، ان کی جدوجہد کے محرکات، اور میوات کی وسیع تر بغاوت میں ان کی اہمیت کو واضح کرنے کی ایک جامع کوشش ہے۔
1.1 محراب خان کا ابہام: میوات اور کوٹہ میں فرق
1857 کی تاریخ کا مطالعہ کرتے وقت ایک جیسے ناموں کی وجہ سے پیدا ہونے والی الجھن کو دور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ “محراب خان” نام دو الگ الگ اور اہم شخصیات سے وابستہ ہے جنہوں نے بغاوت میں نمایاں کردار ادا کیا، لیکن ان کے میدانِ عمل اور کردار بالکل مختلف تھے۔ اس ابہام کو دور کرنا مولانا محراب خان میواتی کے حقیقی کردار کو سمجھنے کے لیے پہلا اور لازمی قدم ہے۔
● محراب خان پٹھان (کوٹہ): یہ کوٹہ کی ریاستی فوج میں رسالدار (کمانڈر) تھے۔ انہوں نے جے دیال بھٹناگر کے ساتھ مل کر 15 اکتوبر 1857 کو کوٹہ میں بغاوت کی قیادت کی۔ اس بغاوت کے دوران، انہوں نے ریزیڈنٹ میجر برٹن، اس کے دو بیٹوں اور ایک ڈاکٹر کو قتل کیا۔ ان کی قیادت میں باغیوں نے تقریباً چھ ماہ تک کوٹہ شہر پر اپنا کنٹرول قائم رکھا، جو راجستھان میں سب سے شدید اور طویل بغاوتوں میں سے ایک تھی۔ بالآخر، جب برطانوی افواج نے جنرل رابرٹس کی قیادت میں شہر پر دوبارہ قبضہ کیا تو محراب خان کو گرفتار کر کے پھانسی دے دی گئی 1۔
● مولانا محراب خان میواتی (میوات): اس رپورٹ کا موضوع، مولانا محراب خان میواتی، کا تعلق علمائے کرام کے طبقے سے تھا۔ وہ کسی ریاستی فوج کے کمانڈر نہیں تھے، بلکہ ایک روحانی اور عوامی رہنما تھے جنہوں نے میوات کے علاقے میں عوام کو انگریزوں کے خلاف مذہبی اور قومی بنیادوں پر متحرک کیا۔ ان کا کردار ایک نظریاتی رہنما اور ایک میدانی جنگجو، دونوں کا تھا۔ انہوں نے نہ صرف گاؤں گاؤں جا کر لوگوں کو جہاد کی ترغیب دی بلکہ سوہنا اور تاؤڑو کے محاذوں پر برطانوی افواج کے خلاف براہ راست لڑائی میں بھی حصہ لیا 3۔
اس فرق کو واضح کرنے کے لیے درج ذیل جدول مددگار ثابت ہوگا:
جدول 1: 1857 کے دو محراب خانوں میں فرق
خصوصیت محراب خان (کوٹہ) مولانا محراب خان میواتی (میوات)
پورا نام/عہدہ محراب خان پٹھان، رسالدار مولانا محراب خان میواتی، عالم دین
سرگرمی کا علاقہ کوٹہ ریاست، راجستھان میوات کا خطہ (ہریانہ/راجستھان)
کردار/حیثیت ریاستی فوج کا کمانڈر، باغی رہنما روحانی و عوامی رہنما، جنگجو
اہم اقدامات کوٹہ میں بغاوت کی قیادت، میجر برٹن کا قتل میواتی عوام کو جہاد کے لیے متحرک کرنا، سوہنا اور تاؤڑو میں جنگ
معلوم انجام گرفتار ہوئے اور پھانسی دی گئی نامعلوم
1.2 ایک فراموش شدہ داستان: 1857 کے بیانیے میں میوات کی بغاوت کا مقام
جبکہ دہلی، لکھنؤ، کانپور اور جھانسی جیسے مراکز 1857 کی جنگ آزادی کی تاریخ پر حاوی ہیں، میوات کی بغاوت عوامی مزاحمت کی ایک ایسی مثال پیش کرتی ہے جو اپنی شدت اور وسعت میں کسی سے کم نہ تھی۔ یہ بغاوت کسی ایک فوجی چھاؤنی سے شروع نہیں ہوئی، بلکہ پورے خطے کے دیہی عوام نے اس میں بھرپور شرکت کی 3۔ میواتیوں کو بیک وقت تین محاذوں پر لڑنا پڑا، جو اس جدوجہد کی پیچیدگی کو ظاہر کرتا ہے:
- برطانوی فوج اور پولیس کے خلاف: یہ براہ راست استعماری طاقت کے خلاف جنگ تھی۔
- مقامی برطانوی وفاداروں کے خلاف: ان میں نوح کے خانزادے، ہاتھین اور بھونڈسی کے راجپوت، اور ہوڈل کے راوت جاٹ شامل تھے، جو اپنے مفادات کے لیے انگریزوں کا ساتھ دے رہے تھے 6۔
- وفادار شاہی ریاستوں کی افواج کے خلاف: الور، بھرت پور اور جے پور جیسی ریاستوں نے اپنی فوجیں بغاوت کو کچلنے کے لیے انگریزوں کی مدد کے لیے بھیجیں 6۔
یہ “سہ محاذی جنگ” میوات کی بغاوت کو محض ایک نوآبادیاتی مخالف جدوجہد سے بڑھ کر ایک پیچیدہ خانہ جنگی اور مزاحمتی جنگ میں بدل دیتی ہے۔ اس رپورٹ کا بنیادی مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ مولانا محراب خان میواتی، اگرچہ تاریخی دستاویزات میں ان کا ذکر کم ملتا ہے، لیکن وہ اس عوامی، کسان پر مبنی، اور نوآبادیاتی مخالف جنگ کو متحرک کرنے میں مذہبی قیادت کے کلیدی کردار کی بہترین مثال ہیں۔ ان کی جدوجہد کا مطالعہ 1857 کی بغاوت کے مکمل منظرنامے کو سمجھنے کے لیے ناگزیر ہے۔
حصہ 2: میوات کا آتش فشاں: 1857 کی بغاوت کے اسباب
میوات میں 1857 کا عظیم دھماکہ کوئی اچانک واقعہ نہیں تھا، بلکہ یہ نصف صدی پر محیط برطانوی استحصال، سیاسی تذلیل اور سماجی بے چینی کا منطقی نتیجہ تھا۔ اس خطے میں بغاوت کی جڑیں بہت گہری تھیں، جو معاشی بدحالی، سیاسی انتقام اور ایک قدیم جنگجو روایت کے سنگم سے پھوٹیں۔
2.1 راج کا بوجھ: زرعی بحران اور معاشی تباہی
1803 میں جب میوات کا خطہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر تسلط آیا، تو اس نے یہاں کے سماجی و معاشی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کیا۔ کمپنی کی پالیسیوں نے کسانوں اور جاگیرداروں کو یکساں طور پر بدحال کر دیا۔ جاگیروں کی ضبطی: انگریزوں نے اقتدار سنبھالتے ہی بہت سی روایتی جاگیریں ضبط کر لیں، جس سے مقامی اشرافیہ اور ان پر انحصار کرنے والے ہزاروں افراد معاشی طور پر غیر مستحکم ہو گئے 3۔
● بھاری ٹیکس: کمپنی نے زرعی پیداوار پر بھاری ٹیکس عائد کیے، جو اکثر کسانوں کی برداشت سے باہر ہوتے تھے۔ یہ ٹیکس سختی سے وصول کیے جاتے تھے، چاہے فصل اچھی ہو یا خراب۔ اس پالیسی نے میوات کی زرعی معیشت کی کمر توڑ دی 8۔
● قحط اور حکومتی بے حسی: اس دوران خطے میں کئی بار قحط پڑا، لیکن کمپنی کی حکومت نے متاثرین کی مدد کے لیے صرف نمائشی اقدامات کیے، جو نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس بے حسی نے عوام کے دلوں میں حکومت کے خلاف شدید نفرت پیدا کر دی 7۔
2.2 انتقام کی چنگاری: نواب شمس الدین خان کی پھانسی کی میراث
میوات کے عوام کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف نفرت کی سب سے بڑی اور فوری وجہ 1835 میں فیروز پور جھرکہ کے حکمران نواب شمس الدین خان اور ان کے ایک ساتھی کریم خان میو کی پھانسی تھی۔ یہ واقعہ میوات کی اجتماعی یادداشت میں ایک گہرے زخم کی طرح محفوظ ہو گیا 4۔
نواب شمس الدین پر الزام تھا کہ انہوں نے دہلی کے کمشنر ولیم فریزر کے قتل کی سازش کی تھی۔ فریزر کی مداخلت کو نواب اپنی خودمختاری میں دخل اندازی سمجھتے تھے۔ انگریزوں نے نواب کو مجرم قرار دے کر سرعام پھانسی دے دی، جسے میوات کے لوگوں نے ظلم اور بے عزتی سمجھا۔ اس واقعے نے ان کے دلوں میں انتقام کی آگ بھڑکا دی، جس کا ثبوت 1857 میں اس وقت ملا جب باغیوں نے دہلی میں ولیم فریزر کے مقبرے کو تباہ کر دیا، جو اس دو دہائی پرانی رنجش کا واضح اظہار تھا 7۔ یہ پھانسی محض ایک فرد کا خاتمہ نہیں تھی، بلکہ یہ میواتی عوام کے لیے ان کی سیاسی شناخت اور عزت پر حملہ تھا، جس کا بدلہ لینے کا وہ موقع تلاش کر رہے تھے۔
2.3 ایک جنگجو روایت: آزادی سے فطری محبت
میواتی عوام کی تاریخ ہمیشہ سے مزاحمت اور آزادی پسندی سے عبارت رہی ہے۔ وہ ایک جنگجو قوم تھے جنہوں نے کبھی بھی دہلی کے حکمرانوں کی بالادستی کو آسانی سے قبول نہیں کیا، چاہے وہ سلطان ہوں، مغل ہوں یا انگریز 7۔ ان کی یہ فطری آزادی پسندی اور جنگجو روایات ان کے کردار کا لازمی حصہ تھیں۔ جب 1857 میں بغاوت کی چنگاری بھڑکی، تو یہ ان کے لیے اپنی کھوئی ہوئی خودمختاری کو دوبارہ حاصل کرنے اور غیر ملکی تسلط کو ختم کرنے کا ایک بہترین موقع تھا۔ ان کے لیے یہ لڑائی صرف کچھ وقتی شکایات کا نتیجہ نہیں تھی، بلکہ اپنی صدیوں پرانی شناخت اور آزادی کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کا تسلسل تھی۔ ان تینوں عوامل—معاشی تباہی، سیاسی انتقام کی خواہش، اور جنگجو ثقافت—نے مل کر میوات کو ایک ایسے آتش فشاں میں تبدیل کر دیا تھا جسے پھٹنے کے لیے صرف ایک چنگاری کی ضرورت تھی، اور وہ چنگاری مئی 1857 میں میرٹھ سے فراہم ہوئی۔
حصہ 3: عظیم بغاوت: میواتی بغاوت کا تجزیہ
جب 10 مئی 1857 کو میرٹھ میں بغاوت کی آگ بھڑکی، تو اس کی لپیٹیں بجلی کی سی تیزی سے پورے شمالی ہندوستان میں پھیل گئیں۔ میوات، جو پہلے ہی بے چینی کی آگ میں جل رہا تھا، اس بغاوت کا ایک اہم مرکز بن گیا۔ یہاں بغاوت کا آغاز، اس کا پھیلاؤ اور ابتدائی کامیابیاں اس خطے کے عوامی کردار اور منظم مزاحمت کی عکاسی کرتی ہیں۔
3.1 میرٹھ کی چنگاری: 11 مئی 1857
بغاوت کی خبر میوات میں 11 مئی کی سہ پہر کو پہنچی۔ دہلی سے تقریباً 300 باغی سپاہی گڑگاؤں پہنچے، جہاں مقامی آبادی نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ آس پاس کے دیہاتوں سے سینکڑوں کسان، کاریگر اور غریب عوام فوراً ان کے ساتھ شامل ہو گئے 6۔ اس عوامی حمایت نے بغاوت کو ایک فوجی سرکشی سے عوامی جنگ میں تبدیل کر دیا۔
گڑگاؤں کے کلکٹر-مجسٹریٹ ڈبلیو فورڈ نے پٹودی کے سواروں کی مدد سے بجواسن کے مقام پر باغیوں کو روکنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔ اس کے بعد باغیوں نے ضلعی ہیڈکوارٹر گڑگاؤں پر حملہ کیا۔ فورڈ کی دوسری کوشش بھی ناکام رہی، اور وہ اپنی شکست سے demoralized ہو کر متھرا کی طرف بھاگ گیا۔ اس کے فرار کے بعد، باغیوں نے ضلعی ہیڈکوارٹر پر قبضہ کر لیا، سرکاری خزانے سے 7,84,000 روپے لوٹ لیے اور سرکاری عمارتوں کو تباہ کر دیا 6۔ اس تیزی سے برطانوی انتظامیہ کا خاتمہ میوات میں بغاوت کی پہلی اور بڑی کامیابی تھی۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کچھ مقامی جاگیردار باغیوں میں شامل ہوئے تو کسانوں اور سپاہیوں نے قیادت اپنے ہاتھوں میں ہی رکھی، جو اس تحریک کے عوامی اور نچلی سطح سے ابھرنے والے کردار کو ظاہر کرتا ہے 6۔
3.2 عملی طور پر سہ محاذی جنگ
میواتیوں نے اپنی جدوجہد کو تین مختلف محاذوں پر کامیابی سے لڑا، جو ان کی فوجی حکمت عملی اور عزم کو ظاہر کرتا ہے:
● برطانوی افواج کے خلاف محاذ: گڑگاؤں پر قبضہ کرنے کے بعد، میواتی باغیوں نے میجر ڈبلیو ایڈن کی افواج کو بھی سخت مزاحمت کا سامنا کرنے پر مجبور کیا، جس سے برطانوی فوجی طاقت کو ابتدائی طور پر شدید دھچکا لگا 3۔
● وفاداروں کے خلاف محاذ: سب سے شدید لڑائیاں مقامی برطانوی وفاداروں کے خلاف ہوئیں۔ نوح کے خانزادے، جو انگریزوں کے اتحادی تھے، کے خلاف کئی دن تک جنگ جاری رہی۔ بالآخر میواتیوں نے خانزادوں کو شکست دی اور نوح کے قصبے پر قبضہ کر لیا، جو ایک اہم ڈاک چوکی تھی۔ اس لڑائی میں ایک برطانوی افسر مسٹر میکسن کے مارے جانے کی بھی اطلاعات ہیں 6۔ اسی طرح ہوڈل کے راوت جاٹوں اور ہاتھین کے راجپوتوں کو بھی شکست دی گئی 6۔
● شاہی ریاستوں کے خلاف محاذ: جب الور کی ریاست نے اپنی فوجیں بغاوت کو دبانے کے لیے بھیجیں تو میواتیوں نے انہیں بھی ناکام بنا دیا۔ انہوں نے دہلی-الور سڑک پر قبضہ کر کے انگریزوں اور الور ریاست کے درمیان رابطے کو منقطع کر دیا، جو ایک اہم تزویراتی کامیابی تھی 6۔
3.3 باغی انتظامیہ کا قیام
برطانوی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد، میواتیوں نے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی برائے نام حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی مقامی حکومت قائم کی۔ یہ نظام محض افراتفری نہیں تھا، بلکہ اس میں ایک منظم ڈھانچہ موجود تھا 6۔
● دہلی میں باغی حکومت کے سربراہ جنرل بخت خان نے گڑگاؤں ضلع کے لیے عبدالحق کو ضلعدار (ضلع کا سربراہ) مقرر کیا۔
● تحصیلوں کی سطح پر تحصیلدار مقرر کیے گئے تاکہ انتظامی امور چلائے جا سکیں۔
● مقامی سطح پر، بادشاہ کے مشورے کے مطابق، گاؤں کے چوہدریوں نے اپنے علاقوں کا انتظام سنبھال لیا اور قانون و व्यवस्था قائم کی۔
یہ انتظامی ڈھانچہ ظاہر کرتا ہے کہ میوات کی بغاوت صرف تباہی اور لوٹ مار پر مبنی نہیں تھی، بلکہ اس کا مقصد ایک متبادل، خودمختار حکومت قائم کرنا تھا، جو اس تحریک کی سیاسی پختگی کا ثبوت ہے۔
حصہ 4: جہاد کی پکار: مولانا محراب خان میواتی کی متحرک مہم
میوات کی عوامی بغاوت کو ایک منظم اور نظریاتی قوت میں تبدیل کرنے میں علمائے کرام کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ اس ضمن میں، مولانا محراب خان میواتی ایک کلیدی شخصیت کے طور پر ابھرے، جنہوں نے اپنی روحانی حیثیت اور ذاتی جرات کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو ایک مشترکہ مقصد کے لیے متحد کیا۔ ان کا کردار محض ایک مبلغ کا نہیں، بلکہ ایک جنگجو رہنما کا بھی تھا، جس نے مذہب اور وطن پرستی کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا۔
4.1 علمائے کرام کی آواز: ہتھیار اٹھانے کی روحانی دعوت
مولانا محراب خان میواتی کا بنیادی کردار میواتی عوام کو نظریاتی اور روحانی طور پر متحرک کرنا تھا۔ وہ طبقہ علماء سے تعلق رکھتے تھے، جن کی آواز کو عوام میں گہری عزت اور قبولیت حاصل تھی 3۔
● انہوں نے “گاؤں گاؤں کا دورہ کیا تاکہ میواتیوں کو اپنے مذہب اور قوم کی خاطر انگریزوں کے خلاف لڑنے کی ترغیب دیں” 3۔ یہ بیان انتہائی اہم ہے کیونکہ یہ بغاوت کے دوہرے محرک کو واضح کرتا ہے: مذہب اور قوم۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جدوجہد صرف مذہبی جنون کا نتیجہ نہیں تھی، بلکہ اس میں ایک ابتدائی قومی شعور بھی شامل تھا، جہاں وطن (قوم) کا دفاع ایک مذہبی فریضہ سمجھا جا رہا تھا۔
● ان کی یہ مہم 1857 کی بغاوت کے اس وسیع تر رجحان کا حصہ تھی جہاں مذہبی رہنماؤں نے انگریزوں کو ایک غیر ملکی، غیر مسلم اور ظالم طاقت قرار دے کر ان کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا، جس نے عوامی مزاحمت کو ایک مقدس جنگ کی شکل دے دی 5۔
4.2 فتح کا تعویذ: حوصلہ افزائی اور نفسیاتی جنگ
مولانا محراب خان کی حکمت عملی کا ایک منفرد پہلو میواتی جنگجوؤں میں تعویذ تقسیم کرنا تھا، جس کے ساتھ وہ انہیں فتح کی یقین دہانی کراتے تھے 3۔ جدید نقطہ نظر سے یہ ایک توہم پرستانہ عمل لگ سکتا ہے، لیکن 1857 کے تناظر میں یہ نفسیاتی جنگ کا ایک انتہائی موثر ہتھیار تھا۔
● اس عمل نے ایک غیر تربیت یافتہ کسان ملیشیا کے حوصلے بلند کیے، جو ایک منظم اور جدید ہتھیاروں سے لیس فوج کا سامنا کر رہی تھی۔
● اس نے لڑائی کے عمل کو محض ایک سیاسی جدوجہد سے بڑھ کر ایک خدائی طور پر منظور شدہ مشن میں تبدیل کر دیا۔ جنگجوؤں کو یہ یقین ہو گیا کہ وہ مافوق الفطرت تحفظ میں ہیں، جس نے ان کی بہادری اور قربانی کے جذبے کو کئی گنا بڑھا دیا۔
4.3 مبلغ سے جنگجو تک: سوہنا اور تاؤڑو میں جنگ
مولانا محراب خان صرف تقریروں اور روحانی ترغیبات تک محدود نہیں رہے۔ تاریخی شواہد انہیں میدان جنگ میں ایک فعال جنگجو کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
● جون 1857 کے اوائل میں، انہوں نے ایک اور میواتی رہنما، سادت خان کے ساتھ مل کر، “جے پور کے پولیٹیکل ایجنٹ میجر ڈبلیو ایڈن کو سوہنا اور تاؤڑو میں سخت مزاحمت فراہم کی” 3۔
● ان کی افواج نے “میجر ایڈن کے بہت سے سپاہیوں کو ہلاک کیا”، جو ان کی جنگی صلاحیت اور قیادت کا ثبوت ہے 3۔
لڑائی میں یہ براہ راست شرکت ان کے کردار کو ایک عام مبلغ سے بلند کر کے ایک جنگجو-عالم کی حیثیت عطا کرتی ہے، جو اپنے پیروکاروں کے شانہ بشانہ لڑتا تھا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی قیادت محض علامتی نہیں تھی، بلکہ عملی اور جرات مندانہ تھی۔ مولانا محراب خان میواتی کی شخصیت میں مذہب اور مزاحمت کا یہ امتزاج میوات کی بغاوت کی اصل روح کی عکاسی کرتا ہے۔
حصہ 5: قیادت کا جھرمٹ: میواتی بغاوت میں قیادت اور تعاون
میوات کی بغاوت کی کامیابی کا راز اس کی اجتماعی اور विकेंद्रीकृत (decentralized) قیادت میں پوشیدہ تھا۔ یہ کسی ایک شخص کی تحریک نہیں تھی، بلکہ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے متعدد رہنماؤں کی مشترکہ کوشش تھی، جنہوں نے اپنے اپنے علاقوں اور کرداروں میں رہتے ہوئے اس جدوجہد کو آگے بڑھایا۔ مولانا محراب خان میواتی اسی قیادت کے جھرمٹ کا ایک اہم ستارہ تھے۔ ان کے کردار کو دیگر رہنماؤں کے ساتھ ملا کر دیکھنے سے بغاوت کی حقیقی نوعیت واضح ہوتی ہے۔
5.1 کسان جنرل: صدرالدین میو
صدرالدین، جو پینگھنواں کا ایک “لمبا اور خوبصورت میو کسان” تھا، بغاوت کے ابتدائی اور اہم ترین رہنماؤں میں سے ایک تھا 6۔
● اس نے میواتیوں کو ایک “دھاڑ” (ایک منظم ہجوم) کی شکل میں منظم کیا اور تاؤڑو، سوہنا، اور فیروز پور جھرکہ جیسے قصبوں پر قبضہ کرنے کی کامیاب مہمات کی قیادت کی 6۔
● اس نے نوح میں خانزادوں کے خلاف جنگ کی قیادت کی 6 اور روپڑاکا کی مشہور جنگ میں 3,500 انقلابیوں کی کمان کی 4۔ اس کا کردار ایک عوامی اور میدانی کمانڈر کا تھا جو عوام میں سے ہی اٹھا تھا۔
5.2 تجربہ کار انقلابی: شرف الدین میواتی
ماہوں کا چھوپڑا گاؤں کے شرف الدین میواتی کو “سب سے تجربہ کار انقلابی” اور “میوات کے علاقے میں بغاوت کا عام طور پر قبول شدہ رہنما” قرار دیا گیا ہے 3۔
● اس کی سرگرمیوں کا مرکز پینگنواں اور اس کے آس پاس کے علاقے تھے، جہاں اس نے برطانوی وفاداروں کو نشانہ بنایا۔ اس کی حیثیت ایک مرکزی حکمت عملی ساز کی تھی، جو پوری تحریک کو مربوط کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
5.3 میدان کے کمانڈر: سادت خان، علی حسن خان، اور فیروز شاہ میواتی
کئی دیگر رہنماؤں نے مخصوص علاقوں میں میدانی کمانڈر کے طور پر اہم کردار ادا کیا:
● سادت خان میواتی: فیروز پور جھرکہ میں سرگرم، اس نے مولانا محراب خان کے ساتھ مل کر سوہنا اور تاؤڑو میں میجر ایڈن کے خلاف جنگ لڑی۔ وہ بالآخر ڈوہا کی لڑائی میں شہید ہو گیا 3۔ (نوٹ: یہ سادت خان اودھ کے بانی سے مختلف شخصیت ہے)۔
● علی حسن خان میواتی: “میواتی بغاوت کا ہیرو” کہلانے والا یہ رہنما نوح اور گھاسیڑہ سے برطانوی راج کا خاتمہ کرنے کا ذمہ دار تھا۔ اس نے گھاسیڑہ میں ولیم فورڈ کی قیادت میں برطانوی افواج کو شکست دی 3۔
● چوہدری فیروز شاہ میواتی: سوہنا، تاؤڑو اور رائسینا میں انقلابیوں کو منظم کیا۔ اس نے 31 اکتوبر 1857 کو رائسینا کی شدید جنگ کی قیادت کی، جس میں بدنام زمانہ برطانوی افسر وگرام کلفورڈ مارا گیا 4۔
یہ متنوع قیادت ظاہر کرتی ہے کہ میوات کی بغاوت ایک کثیر جہتی تحریک تھی۔ اس میں صدرالدین جیسے کسان رہنما، شرف الدین جیسے تجربہ کار حکمت عملی ساز، مولانا محراب خان جیسے روحانی رہنما، اور سادت خان اور علی حسن خان جیسے میدانی کمانڈر شامل تھے۔ یہ قیادت کسی ایک مرکز سے نہیں چل رہی تھی، جو اس کی طاقت بھی تھی اور کمزوری بھی۔ اس نے تحریک کو لچکدار بنایا، لیکن بعد میں برطانوی افواج کے مربوط حملوں کے سامنے ہم آہنگی کی کمی ایک مسئلہ بنی۔
جدول 2: 1857 کی میواتی بغاوت کے اہم رہنما
رہنما کا نام پس منظر/کردار بنیادی آپریشن کا علاقہ قابل ذکر خدمات/لڑائیاں معلوم انجام
مولانا محراب خان میواتی عالم دین، روحانی محرک پورے میوات میں، خاص طور پر سوہنا اور تاؤڑو عوام کو جہاد کے لیے متحرک کرنا، میجر ایڈن کے خلاف جنگ نامعلوم
صدرالدین میو کسان رہنما، عوامی منتظم پینگھنواں، نوح، روپڑاکا “دھاڑ” کو منظم کرنا، قصبوں پر قبضہ، روپڑاکا کی جنگ نامعلوم
شرف الدین میواتی تجربہ کار انقلابی، مرکزی رہنما پینگنواں اور آس پاس کے گاؤں برطانوی وفاداروں کو نشانہ بنانا، حکمت عملی تیار کرنا گرفتار ہوئے اور جنوری 1858 میں پھانسی دی گئی
سادت خان میواتی میدانی کمانڈر فیروز پور جھرکہ، سوہنا، تاؤڑو میجر ایڈن کے خلاف مولانا محراب خان کے ساتھ جنگ ڈوہا کی لڑائی میں شہید ہوئے
علی حسن خان میواتی میدانی کمانڈر، “بغاوت کا ہیرو” نوح، گھاسیڑہ نوح اور گھاسیڑہ سے انگریزوں کا صفایا، ولیم فورڈ کو شکست نامعلوم
چوہدری فیروز شاہ میواتی مقامی رہنما، منتظم سوہنا، تاؤڑو، رائسینا رائسینا کی جنگ کی قیادت، وگرام کلفورڈ کا قتل نامعلوم
حصہ 6: ‘شیطان کی ہوا’: برطانوی انتقام اور انقلابیوں کا انجام
ستمبر 1857 میں دہلی پر دوبارہ قبضے کے بعد، برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی پوری طاقت آس پاس کے ان علاقوں کی طرف موڑ دی جنہوں نے بغاوت کی جرات کی تھی۔ میوات، دہلی سے اپنی قربت اور مزاحمت کی شدت کی وجہ سے، برطانوی انتقام کا خاص نشانہ بنا۔ یہاں جو کچھ ہوا وہ محض ایک فوجی کارروائی نہیں تھی، بلکہ ایک منظم اور وحشیانہ انتقامی مہم تھی، جسے شمالی ہندوستان کے لوگوں نے “شیطان کی ہوا” (Devil’s Wind) کا نام دیا۔
6.1 انتقام کی مہم: نومبر 1857 – دسمبر 1858
برطانوی افواج نے میوات میں بغاوت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور آبادی کو دہشت زدہ کرنے کے لیے ایک سال سے زائد عرصے تک ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا۔ ان کا مقصد، جیسا کہ کچھ ذرائع سے ظاہر ہوتا ہے، “میواتیوں کے وجود کو مٹانا” تھا 14۔ اس مہم کی قیادت سیورج، ہڈسن اور کائلی فورڈ جیسے بدنام زمانہ ظالم افسران کر رہے تھے، جن کے پاس بھاری توپخانہ اور جدید اسلحہ تھا 14۔
اس مہم میں جنگی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عام شہریوں، بشمول عورتوں اور بچوں، کا بے دریغ قتل عام کیا گیا۔
● گھاسیڑہ (8 نومبر 1857): 157 رہائشیوں کو قتل کر دیا گیا 14۔
● روپڑاکا (19 نومبر 1857): یہ دن میوات کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔ صدرالدین کی قیادت میں لڑنے والے تقریباً 400 انقلابی میدان جنگ میں شہید ہوئے۔ اس کے بعد برطانوی افواج نے گاؤں میں گھس کر قتل عام کیا، اور ایک ہی دن میں کل 425 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا 4۔
● دیگر قتل عام: یہ ظلم و ستم جاری رہا۔ 85 افراد ہوڈل گڑھی میں، 157 گھاسیڑہ میں، اور درجنوں دیگر دیہاتوں جیسے حسن پور، ساہسولہ، نوح اور تاؤڑو میں مارے گئے۔ 9 فروری 1858 کو دھن سنگھ میو سمیت 52 افراد کو درختوں سے لٹکا کر پھانسی دے دی گئی 14۔
ایک اندازے کے مطابق، اس پوری مہم کے دوران 10,000 سے زیادہ میواتی شہید ہوئے، 36 سے زیادہ دیہات جلا دیے گئے، اور باغیوں کی زمینیں ضبط کر لی گئیں 14۔ یہ محض بغاوت کو دبانا نہیں تھا، بلکہ ایک پوری آبادی کو اس کی مزاحمت کی اجتماعی سزا دینا تھا۔
6.2 رہنماؤں کا انجام: شہادت اور خاموشی
برطانوی افواج نے بغاوت کی قیادت کو منظم طریقے سے ختم کیا۔
● سادت خان میواتی: ڈوہا کی لڑائی میں بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے 4۔
● شرف الدین میواتی: انہیں گرفتار کر لیا گیا اور جنوری 1858 میں پھانسی دے دی گئی 3۔
بہت سے دوسرے رہنما یا تو لڑائیوں میں مارے گئے یا اجتماعی پھانسیوں کا شکار ہوئے۔ تاہم، اس تمام تر ریکارڈ کے درمیان ایک اہم تاریخی خلا موجود ہے۔ دستیاب تحقیقی مواد مولانا محراب خان میواتی کے مخصوص انجام کے بارے میں خاموش ہے۔ ان کی گرفتاری، جنگ میں شہادت، یا پھانسی کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
یہ خاموشی بذات خود ایک اہم تاریخی حقیقت ہے۔ یہ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ نوآبادیاتی آرکائیوز اکثر عوامی اور نچلی سطح کے رہنماؤں کے بارے میں مکمل معلومات فراہم نہیں کرتے۔ یہ ممکن ہے کہ مولانا گمنامی میں کسی قتل عام کا شکار ہو گئے ہوں، یا وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہوں اور باقی زندگی روپوشی میں گزاری ہو۔ ان کا انجام تاریخ کے اوراق میں گم ہو گیا، جو ماتحت (subaltern) تاریخ کے مطالعے میں درپیش چیلنجوں کی ایک واضح مثال ہے۔
حصہ 7: میراث اور یاد: میوات کے گمنام ہیرو
1857 کی جنگ آزادی میں میواتی عوام کی قربانیاں بے مثال تھیں، لیکن قومی تاریخ کے وسیع تر بیانیے میں انہیں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے۔ اس کے باوجود، ان کی بہادری کی داستانیں مقامی یادداشت میں زندہ ہیں اور ان کی میراث آج بھی پہچان کی جدوجہد کر رہی ہے۔
7.1 جنگ آزادی کا ایک بھولا ہوا باب
10,000 سے زیادہ شہادتوں اور ایک سال سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی شدید مزاحمت کے باوجود، میوات کی بغاوت ہندوستان کی مرکزی تاریخ کی کتابوں میں اکثر ایک فٹ نوٹ بن کر رہ گئی ہے 16۔ قومی تاریخ نویسی نے اپنا زیادہ تر دھیان شاہی رہنماؤں اور بڑے شہری مراکز پر مرکوز رکھا ہے، جس کی وجہ سے میوات جیسی دیہی اور کسانوں کی قیادت میں ہونے والی عوامی بغاوتیں پس منظر میں چلی گئی ہیں۔ اس تاریخی نظر اندازی نے میوات کے ہیروز کو قومی سطح پر گمنام رکھا ہے، حالانکہ ان کی جدوجہد آزادی کی پہلی جنگ کے کردار کو سمجھنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
7.2 مقامی یادداشت اور شناخت کی جدوجہد
قومی تاریخ کی خاموشی کے برعکس، میوات کی مقامی آبادی نے اپنے شہیدوں کی یاد کو سینے سے لگا رکھا ہے۔ یہ یادداشت زبانی روایات، لوک گیتوں اور کمیونٹی کی کوششوں کے ذریعے نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہے 14۔
● یادگاروں کی تعمیر: “آل انڈیا مارٹائرڈم میوات سبھا” جیسی تنظیمیں، جس کی قیادت سرف الدین میواتی کر رہے ہیں، شہیدوں کی مکمل فہرست مرتب کرنے اور حکومت سے ان کی قربانیوں کو تسلیم کروانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کی کوششوں سے نگینہ، نوح اور ماہوں جیسے دیہاتوں میں “شہید مینار” تعمیر کیے گئے ہیں 14۔
● یادگاروں کی خستہ حالی: تاہم، یہ یادگاریں آج دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے خستہ حالی کا شکار ہیں، جو اس تاریخی ورثے کے ساتھ عمومی بے حسی کی علامت ہے۔ ان میناروں پر کندہ شہیدوں کے نام مٹ رہے ہیں، اور یہ عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہو رہی ہیں 14۔
● عوامی مطالبات: مقامی آبادی کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ اسکولوں، کالجوں اور سڑکوں کے نام ان شہیدوں کے نام پر رکھے جائیں تاکہ آنے والی نسلیں اپنے آباؤ اجداد کی قربانیوں سے प्रेरणा حاصل کر

سکیں 14۔
قومی اور مقامی یادداشت کے درمیان یہ فرق اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تاریخ کی تشکیل کا عمل اکثر منتخب ہوتا ہے۔ جہاں قومی بیانیہ چند مشہور ہیروز کو نمایاں کرتا ہے، وہیں میوات جیسی مقامی بغاوتوں کے ہزاروں گمنام شہیدوں کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ میوات کے شہیدوں کی پہچان کی جدوجہد دراصل تاریخ کے اس عمل کے خلاف ایک مزاحمت ہے، تاکہ ان گمنام ہیروز کو ان کا جائز مقام دلایا جا سکے۔
حصہ 8: نتیجہ: مولانا محراب خان میواتی کی اہمیت کا تعین
اس تفصیلی تجزیے کے اختتام پر، یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مولانا محراب خان میواتی، اگرچہ تاریخی دستاویزات میں ان کا ذکر محدود ہے، 1857 کی جنگ آزادی میں ایک غیر معمولی اہمیت کے حامل کردار ہیں۔ ان کی شخصیت اور جدوجہد اس عظیم بغاوت کے کئی بنیادی موضوعات کا احاطہ کرتی ہے اور میوات کی عوامی مزاحمت کی روح کی عکاسی کرتی ہے۔
8.1 بغاوت کا ایک چھوٹا نمونہ (Microcosm)
مولانا محراب خان میواتی کا کردار 1857 کی بغاوت کے وسیع تر رجحانات کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ ان کی سرگرمیوں میں وہ تمام عناصر موجود تھے جنہوں نے اس جنگ کو ایک عوامی تحریک بنایا:
● مذہبی اور حب الوطنی کے جذبات کا امتزاج: ان کی جہاد کی پکار صرف مذہبی نہیں تھی، بلکہ “مذہب اور قوم” دونوں کے دفاع کے لیے تھی، جو اس دور کے ابھرتے ہوئے قومی شعور کی نشاندہی کرتی ہے۔
● عوامی متحرک کاری میں علمائے کرام کا کردار: انہوں نے ثابت کیا کہ علماء صرف مساجد اور مدارس تک محدود نہیں تھے، بلکہ وہ عوام کو استعماری طاقت کے خلاف متحرک کرنے کی سب سے بڑی قوت تھے۔
● رہنماؤں کی براہ راست جنگ میں شرکت: وہ صرف ایک نظریاتی رہنما نہیں تھے، بلکہ سوہنا اور تاؤڑو کے میدان جنگ میں ایک سپاہی بھی تھے، جو اپنے پیروکاروں کے شانہ بشانہ لڑے۔
● کسان پر مبنی مزاحمت کا کردار: ان کی قیادت نے میوات کی کسان آبادی کو ایک formidable جنگی قوت میں تبدیل کر دیا، جو اس بغاوت کے دیہی اور عوامی کردار کو اجاگر کرتا ہے۔

8.2 آرکائیو سے پرے: جنگجو-عالم ایک علاقائی ہیرو کے طور پر
نوآبادیاتی آرکائیو (colonial archive) ان کے حتمی انجام کے بارے میں خاموش ہے، لیکن یہ خاموشی ان کی اہمیت کو کم نہیں کرتی۔ تاریخ صرف سرکاری فائلوں میں نہیں لکھی جاتی؛ یہ لوگوں کی یادداشتوں اور روایات میں بھی زندہ رہتی ہے۔ ان کے ریکارڈ شدہ اقدامات—دیہاتوں کو متحرک کرنا، تعویذوں کے ذریعے حوصلہ بڑھانا، اور برطانوی افواج کے خلاف براہ راست لڑنا—انہیں میوات کی بغاوت کے ایک کلیدی رہنما کے طور پر قائم کرنے کے لیے کافی ہیں۔
آخر میں، مولانا محراب خان میواتی کو صرف ایک نام کے طور پر نہیں، بلکہ عقیدے، مزاحمت اور مقامی خودمختاری کے سنگم کی ایک طاقتور علامت کے طور پر یاد رکھا جانا چاہیے۔ وہ ان ہزاروں گمنام ہیروز کی نمائندگی کرتے ہیں جنہوں نے ہندوستان کے فراموش شدہ دیہی علاقوں میں آزادی کی پہلی جنگ لڑی اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ان کی کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ 1857 کی جنگ کی حقیقی تاریخ صرف بڑے شہروں اور شاہی درباروں میں نہیں، بلکہ میوات جیسے علاقوں کے کھیتوں اور دیہاتوں میں لکھی گئی۔
Works cited
- [Solved] Where in Rajasthan, Mehrab Khan led the revolt of 1857? – Testbook, accessed on October 18, 2025, https://testbook.com/question-answer/where-in-rajasthan-mehrab-khan-led-the-revolt-of–6523ce41029a175ca6953c8e
- Revolt of 1857 in Rajasthan – Connect Civils – RAJ RAS, accessed on October 18, 2025, https://rajras.in/ras/mains/paper-1/rajasthan-history/revolt-of-1857-in-rajasthan/
- Role of Meos in Independence Movement of India – ijrpr, accessed on October 18, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE7/IJRPR15607.pdf
- Freedom Struggle in Mewat – ER Publications, accessed on October 18, 2025, https://www.erpublications.com/uploaded_files/download/dr-aijaz-ahmad-sunil-kumar_xfUSq.pdf
- Mewati Rebellion of 1857 | Exotic India Art, accessed on October 18, 2025, https://www.exoticindiaart.com/book/details/mewati-rebellion-of-1857-haj293/
- Participation of Mewati People in the Revolt of 1857 – Ignited Minds Journals, accessed on October 18, 2025, https://ignited.in/index.php/jasrae/article/download/3850/7494/18734
- A Study of the Revolt of 1857 and its Onward in Mewat – Ignited Minds Journals, accessed on October 18, 2025, https://ignited.in/index.php/jasrae/article/download/4232/8260/20645
- View of Causes of Mewati Revolt of 1857 – Zauq-e-Tahqeeq, accessed on October 18, 2025, http://zauq-e-tahqeeq.com/index.php/ZT/article/view/64/121
- Causes Of Mewati Revolt Of 1857 : Free Download, Borrow, and Streaming – Internet Archive, accessed on October 18, 2025, https://archive.org/details/causes-of-mewati-revolt-of-1857
- History of Mewat | PDF – Scribd, accessed on October 18, 2025, https://www.scribd.com/document/694253851/History-of-Mewat
- The Meos of Mewat : A Historical Perspective – ijrpr, accessed on October 18, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE6/IJRPR14628.pdf
- Indian Muslims in the 1857 Rebellion – Wikipedia, accessed on October 18, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Indian_Muslims_in_the_1857_Rebellion
- Mewat: May to December 1857 | 10 | Gallant Haryana | C.B. Singh Sheora – Taylor & Francis eBooks, accessed on October 18, 2025, https://www.taylorfrancis.com/books/9780429322174/chapters/10.4324/9780429322174-10
- Over 10,000 Mewatis were martyred in the 1857 mutiny, accessed on October 18, 2025, https://www.awazthevoice.in/india-news/over-mewatis-were-martyred-in-the-mutiny-89.html
- www.awazthevoice.in, accessed on October 18, 2025, https://www.awazthevoice.in/india-news/over-mewatis-were-martyred-in-the-mutiny-89.html#:~:text=From%208%20November%201857%20to,snatched%20land%20rights%20from%20others.
- Delhi & Its Adjoining Regions – English Releases, accessed on October 18, 2025, https://www.pib.gov.in/newsite/erelcontent.aspx?relid=27562
- Lesser known heroes of India’s first war of Independence (1857) – TwoCircles.net, accessed on October 18, 2025, https://twocircles.net/2007may10/lesser-known-heroes-india-s-first-war-independence-1857.html
- Daily Current Affairs on Forgotten martyrs of 1857 for State General Knowledge (GK) Preparation – Abhipedia, accessed on October 18, 2025, https://abhipedia.abhimanu.com/Article/5/NDAwNzkx/Forgotten-martyrs-of-1857-History-
