میواتی زبان میں کتب کی یقینی فراہمی۔2

0 comment 9 views
میواتی زبان میں کتب کی یقینی فراہمی۔2
میواتی زبان میں کتب کی یقینی فراہمی۔2

میواتی زبان میں کتب کی یقینی فراہمی۔2
78 ویں یوم آزادی کے موقع پر
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
پاکستان کے باشندے اٹھرواں یوم آزاد ی منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ شوسل میڈیا پر بینروں اشتہارات سٹیکرز۔پوسٹوں کی بھرمار ہے۔مختلف قسم کے فلسفے اور باتیں کی جارہی ہیں۔ترقی کے عجیب و غریب فارمولےپیش کئے جارہے ہیں۔
ان لوگوں میں میو قوم کے افراد بھی شامل ہیں جن کے سینے پر جشن آزادی کے بلے اور منقش سٹیکر زسجے ہوئے ہیں۔گلیوں میں بچے چھنڈیاں لگا رہے ہیں۔ دکانوں پر سب سے زیادہ فروخت ہونے والی ایٹم سبز ہلالی پرچم بنا ہوا ہے۔
کبھی سوچا ہے یہ مناظر اور یہ کلکاریاں کیوں وجود میں آئے؟ ملک و قوم اور آزاد قومیں اس کی قیمت ادا کرتی ہیں ۔پاک و ہند کی تقسیم میں بے پناہ قربانیاں پیش کی گئیں۔کچھ نے شعوری طورپر مکمل اعتماد و آمادگی کے ساتھ قربانیاں دی کچھ نے قہقری طورپر اس میں شمولیت اختیار کی۔
تقسیم برصغیر میں جس قوم نے مالی جانی قربانی اور عزت و آبرو کو لٹایا وہ میو قوم تھی۔تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت تقسیم پاک و ہند میں ہوئی اور اس میں ستر فیصد جو قوم مہاجر بنی وہ میو قوم تھی۔یہ ہجرت کس قدر الناک و ہوش ربا تھی اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔
زخموں کی کسک بھی کہیں بیان ہوتی ہے؟۔کیا گھائو آہ یا کراہنے سے بھر تے ہیں؟ وہ میو قوم جو صدیوں سے اپنی بقا کی جنگ لڑتی آئی۔اس تقسیم میں بھی اس نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر حصہ لیا۔پھر اس کے ساتھ مقتدرہ اور حکومت و طاقت پر براجمان لوگوں نے قصدا ظلم ڈھائے۔جہاں یہ لوگ ہزاروں برس سے اپنی بقاء کی خاطرجھونپڑوں میں سر چھپائے بیٹھے تھے۔انہیں قہرا و جبرا ان سے بے دخل کردیاگیا ۔پھر کچھ زندگی کی رمق باقی ہونے کی امید تھی، وہاں پر پھر اِن پر مظالم ڈھائے گئے۔
ان لُٹے پٹے بے آسرا لوگوں کو اپنے آبائی کھیت کھلیانوں سے بے دخل ہی نہیں کیا گیا ۔بلکہ جہاں انہیں سبز باغ دیکھا کے لایا گیا تھا وہاں پر ان کے کلیم ۔یونٹ۔اور زمین جائیدادوں کو ہڑپ لیا گیا۔انہیں چار پانچ دیھائیوںپر تک اپنی ہی زمین جائیداد کے لئے مزید لڑنا پڑا ۔اب تک میو قوم کے کلیم اور جائیدادیں پھنسی ہوئی ہیں یوں میو قوم ابھی تک حالت جنگ میں ہے اور آزادی کی قیمت چکا رہی ہے۔جب کہ تقسیم ہندکو 78 سال ہوچکے ہیں، تیسری چوتھی پیڑھی ان مصائب کو بھگت رہی ہے۔
میو قوم اس جرم میں برابر کی شریک ہے۔
کیونکہ انہوں نے تقسیم کے وقت سوچا، نہ ہجرت کی کوئی منصوبہ بندی کی، نہ آنے والے مصائب و مشکلات پر کوئی لائحہ عمل طے کیا۔اس کی سزا انہیں مختلف مصائب و آلام انتشار و افتراق ۔اور گروہ بندی کی شکل میں ملی۔
ستم بالائے ستم یہ کہ انہوں نے ماضی میں اپنی تاریخ مرتب کی، نہ حال میں علم و ادب کی تحقیق و تدوین میں حصہ لیا۔یوں قربانیاں اور ان کے اثرات ان لوگوں کے ساتھ ہی مرتے رہے۔اور مَر رہے ہیں۔کچھ دن میں سب مر جائیں گے۔کیونکہ جنہوں نے آزادی کی قیمت چکائی تھی اب وہ لب گور بیٹھے ہیں ۔
نئی نسل اور قوم کے زعماء و لیڈر اس بات سے بے خبر ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچائی میں پر خلوص انداز میں لگے ہوئے ہیں۔قوم کے شاندار ماضی کا تحفظ اور تاریخ کی تدوین و تحفیظ کے بارہ میں کوئی منصوبہ بندی نہیں۔نہ ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھتی ہے کہ آنے والی نسلوں کو ان قربانیوں سے آگاہ کیا جائے۔آج کی نسل نو کے ذہن سے یہ بات مٹ چکی ہے کہ میو قوم نے بھی اس آزادی کے لئے قربانیاں دی تھی۔انہیں جو پڑھایا گیا ۔ یا انہیں جو کتابیں پڑھنے کو ملیں ان میں میو قوم کا کہیں ذکر تک نہیں ۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ میو قوم کی مرتی ہوئی تاریخ و ادب۔ثقافت پر کوئی اقدام کیا جائے ؟جس سے ہماری شخصیات کتابوں میں ڈھل کر تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید ہوجائیں ۔۔میو قوم ہزاروں سالوں سے حق دفاع رکھتی آئی ہے، اسے بڑے بڑے جابر و قاہر حکمران مٹا نہ سکے۔لیکن افسوس کہ میو قوم نے مٹنے کا سامان پر خلوص طریقے سے خود مہیا کرلیا۔جوقوم خود کو تاریخی اوراق میں محفوظ نہیں کرتی ۔ اس کی سزا یہی کہ اسے صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے۔
سعد طبیہ کالج //سعد میو ورچوئل سکلز نے بساط بھر یہ بیڑا اٹھا یا ہے کہ جہاں تک ہوسکے میو قوم کی تاریخ ۔میو قوم کی ثقافت۔اور میو ادب کو محفوظ کردیا جائے۔امید ہے میو قوم کے لئے یہ کاوش بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوگی۔
ادارہ ہذا چندہ یا کسی لالچ سے ماوراء ہوکے میو قوم کی ادبی خدمات اور میو ثقافت کو تاریخ کے اوراق میں محفوظ کرنے کے لئے مصروف عمل ہے۔۔ادارہ ہذا کے منتظمین۔اور مخیر حضرات کو اس بات کا ادراک ہے کہ اس پہلو کی اہمیت و افادیت کیا ہے؟،کچھ لوگوں کا کہنا ہے” میو قوم کی نفسیات میں کتاب بیزاری اور اپنوں کی ٹانگ کھنچائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے”۔لیکن ہمارا تجزیہ و تجربہ مختلف ہے۔میو قوم میں کتاب پڑھنے اور اسکے حصول کی تڑپ موجود ہے۔کمی ہے

Advertisements

تو اس ماحول کی جس میں اس جہت کی افادیت اجاگرکیا جاسکے۔
میو قوم کے افراد مختلف شعبوں میں کام کررہے ہیں۔کہیں جہیز ہے تو کہیں بارات پر بحث۔کہیں دیگر امور۔ جس دن میو قوم کا رخ اس طرف ہوگیا، اس دن کتاب اور میو قوم کا آبائی ورثہ گھر گھر پہنچنا شروع ہوجائے گا ۔کوئی کچھ بھی کہے “سعد میو ورچوئل پاکستان” کے پلیٹ فارم سے شائع ہونے والے مضامین میو قوم کے جوانوں اور اہل علم کے لئے کشش رکھتے ہیں۔اندرون و بیرون ممالک سے آنے والے پیغامات۔فون کالز،میسجز اس کا ثبوت ہیں ۔اہل ذوق کا شائع شدہ مضامین و کتب کو شائع کرنے کا اصرار ڈھارس بندھاتاہے ۔ اس صورت حال سے یہی محسوس ہوا کہ میو قوم کے لئے علمی ماحول اور کتاب دوستی کا کوئی اہتمام ہی نہیں کیا گیا۔۔اس کمی کو پورا کرنا میو قوم کی سوچ میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
میو قوم کو ان لکھاریوں کا شکرگزار ہونا چاہئے جنہوں نے اس گھٹن کام کو بغیر کسی طمع کے سرانجام دیا۔کچھ لوگوں نے اس کار خیر مین نام نہ بتانے کی صورت میں ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا ہے۔کچھ لوگ بارش کا پہلا قطرہ بننے کے لئے اپنی جیب ڈھیلا کررہے ہیں۔۔میں اگر مولانا محمد احمد قادری میو مدرسہ جامعہ عربیہ کاہنہ نو لاہور۔اور نواب ناظم مدیر ۔سسٹم و روز نامہ بارڈر لائن لاہور۔رائو غلام محمد میو اسلام آباد۔ کا شکریہ ادا نہ کروں تو زیادتی ہوگی ۔

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme