
یقینی علم کی تعمیر: حکیم صابر ملتانی کے نظریہ مفرد اعضاء کا ایک فنی تجزیہ
حصہ اول: ایک مجدد کی تشکیل: سیاق و سباق اور ابتداء
اس حصے میں حکیم صابر ملتانی کے کام کے فکری اور تاریخی پس منظر کو قائم کیا جائے گا، اور ان کے سفر کو محض ایک پیشہ ورانہ انتخاب کے بجائے طبی ابہام کے دور میں یقینی علم (یقین) کی ایک فلسفیانہ جستجو کے طور پر پیش کیا جائے گا۔
ابتدائی سال اور فکری مخمصہ
حکیم صابر ملتانی، جن کا اصل نام دوست محمد تھا، کی فکری نشوونما ایک ایسے دور میں ہوئی جب طب کی دنیا ایک گہرے مخمصے کا شکار تھی۔ 9 جولائی 1906ء کو ملتان میں ایک علمی طبی گھرانے میں پیدا ہونے والے صابر ملتانی نے روایتی اور جدید دونوں علوم میں مہارت حاصل کی، جس میں اردو، فارسی، عربی اور طب شامل تھے 1۔ اس کثیر الجہتی علمی بنیاد نے انہیں مختلف طبی نظاموں کا تقابلی جائزہ لینے کے لیے ایک منفرد زاویہ فراہم کیا۔
طبیہ کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد، انہوں نے تقریباً ساڑھے سات سال تک ایلوپیتھی، جسے وہ “فرنگی طب” کہتے تھے، کے مطابق پریکٹس کی۔ تاہم، ان کی “متجسانہ و محققانہ طبع” اس طریقہ علاج سے مطمئن نہ ہوسکی، جسے وہ “غیر حقیقی و خلاف فطرت” سمجھتے تھے 1۔ ان کے سامنے بنیادی فکری چیلنج “نظریہ جراثیم” اور طب یونانی کے کلاسیکی “نظریہ کیفیات و مزاج” کے درمیان تضاد تھا۔ یہ وہ مرکزی فکری مسئلہ تھا جسے حل کرنے کے لیے انہوں نے اپنی زندگی وقف کردی۔ ان کی ابتدائی ایلوپیتھک پریکٹس نے انہیں اس نتیجے پر پہنچایا کہ علامات کو دبانا اصل مرض کا علاج نہیں، بلکہ یہ طریقہ کار اپنے ہی اصولوں کی نفی کرتا ہے۔
حکیم احمد دین کے “نظریہ افعال الاعضاء” سے وابستگی اور علیحدگی
ایلوپیتھی سے مایوسی کے بعد، 1930ء میں صابر ملتانی لاہور میں حکیم احمد دین شاہدروری سے منسلک ہوگئے، جو “نظریہ افعال الاعضاء” کے بانی تھے۔ اس دور میں انہوں نے طبیہ کالج میں پروفیسر اور “تبصرۃ الاطباء” و “خادم الحکمت” جیسے رسائل کے ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں 1۔ یہ عرصہ ان کے لیے تقابلی طب کے گہرے مطالعے کا ذریعہ بنا۔
تاہم، ان کی تحقیقی جستجو انہیں یہاں بھی سکون سے بیٹھنے نہ دے سکی۔ انہوں نے حکیم احمد دین کے “نظریہ افعال الاعضاء” کا گہرائی سے تجزیہ کیا اور اسے بھی نامکمل پایا۔ ان کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ یہ نظریہ جسم کی ساخت (ساخت) کی وضاحت نہیں کرتا اور تمام اعضاء کی غذا کے لیے صرف خون پر انحصار کرتا ہے، جسے انہوں نے ایک “بے بنیاد نظریہ” قرار دیا 1۔ فرنگی طب کو مسترد کرنے کے بعد، طب یونانی کے ایک اصلاح شدہ نظریے سے بھی ان کی عدم اطمینان نے انہیں ایک مزید بنیادی اور جامع اصول کی تلاش پر مجبور کردیا۔ یہ دوہرا فکری ردعمل ان کے اپنے نظریے کی بنیاد بنا۔
ایک انکشاف: ہیضے کا مریض اور نظریے کی پیدائش
ان کی فکری جستجو کا کلیدی موڑ ایک ہیضے کے مریض کے علاج کے دوران آیا۔ جب “جدید اصولوں” پر مبنی علاج سے مریض کی حالت مزید بگڑ گئی تو صابر ملتانی نے “قدیم اصولوں” کی طرف رجوع کیا، جس سے مریض کو فوری شفا حاصل ہوئی 1۔ یہ واقعہ ان کے لیے ایک انکشاف کی حیثیت رکھتا تھا اور اس نے انہیں طب قدیم کے بنیادی اصولوں کا از سر نو جائزہ لینے پر مجبور کیا۔
اس گہری تحقیق کے نتیجے میں وہ اپنے نظریے کے بنیادی محور تک پہنچے: “اخلاط اور مفرد اعضاء در حقیقت ایک ہی چیز کے دو مختلف نام ہیں” 1۔ یہ ایک انقلابی سوچ تھی جس نے طب یونانی کے مجرد تصورات کو ایک مادی اور ٹھوس بنیاد فراہم کی۔ یہ محض ایک نیا خیال نہیں تھا، بلکہ ایک “تجدید” کی تحریک کا آغاز تھا، جو موجودہ طبی نظاموں (خواہ وہ مغربی ہوں یا اصلاح شدہ مشرقی) سے مایوسی کے بعد طب کے خالص ಮೂಲ کی طرف واپسی اور اسے جدید دور کے لیے ایک نئے، مربوط نظام میں ڈھالنے کی کوشش تھی۔ ان کا مقصد طب کو قیاس آرائیوں اور امکانات کے فن سے نکال کر “یقینی علم” کی سائنس بنانا تھا، ایک ایسا نظام جو “دو اور دو چار کی طرح” قطعی نتائج فراہم کرے 1۔ ان کی تمام تر جدوجہد اسی “یقین” کے حصول کے لیے تھی۔
حصہ دوم: نظریاتی عمارت: نظریہ مفرد اعضاء کا فنی تجزیہ
یہ حصہ نظریہ مفرد اعضاء کی فنی وضاحت پیش کرتا ہے، اسے علم الابدان (Physiology) اور علم الامراض (Pathology) کے ایک عظیم، مربوط اور خود انحصاری نظام کے طور پر پیش کرتا ہے۔
2.1 بنیادی محور: اخلاط بطور مجسم اعضاء
اس نظریے کا سنگ بنیاد یہ ہے کہ طب یونانی کے چار کلاسیکی اخلاط (humors) محض سیال مادے نہیں ہیں، بلکہ یہی وہ جوہر ہیں جو ٹھوس شکل اختیار کرکے (مجسم ہوکر) جسم کے بنیادی مفرد اعضاء (tissues) بناتے ہیں 1۔ صابر ملتانی نے بڑی ذہانت سے کلاسیکی اخلاط کو جدید علم الانسجہ (Histology) سے جوڑا:
بلغم (Phlegm): اعصاب (Nerves/Nervous Tissue) کی بنیاد بنتا ہے۔
صفراء (Yellow Bile): غدد (Glands/Epithelial Tissue) کی بنیاد بنتا ہے۔
سوداء (Black Bile): عضلات (Muscles/Muscular Tissue) کی بنیاد بنتا ہے۔
دم (Blood): اسے باقی تین اخلاط کا مرکب اور ان کا محرک سمجھا جاتا ہے۔
یہ تشریح انقلابی تھی کیونکہ اس نے قدیم نظریات کو ایک قابل فہم اور مادی حقیقت عطا کی، جس سے طب یونانی کے مجرد تصورات اور جدید سائنسی علم کے درمیان ایک پل قائم ہوگیا 1۔
2.2 حیات کی تثلیث: اعضائے رئیسہ کا کردار
صابر ملتانی نے جسمانی نظام کو ایک سہ رخی ماڈل میں آسان بنا دیا جس کا مرکز تین اعضائے رئیسہ ہیں، جو زندگی کے ضامن ہیں:
دماغ (Brain): اعصابی نظام (Nervous System) کا مرکز ہے۔ اس کا کام احساسات کو کنٹرول کرنا اور بلغم پیدا کرنا ہے۔ اس کا مزاج سرد و تر ہے۔
جگر (Liver): غدی نظام (Glandular System) کا مرکز ہے۔ اس کا کام تغذیہ فراہم کرنا اور صفراء پیدا کرنا ہے۔ اس کا مزاج گرم و خشک ہے۔
قلب (Heart): عضلاتی نظام (Muscular System) کا مرکز ہے۔ اس کا کام حرکات کو کنٹرول کرنا اور سوداء پیدا کرنا ہے۔ اس کا مزاج خشک و گرم ہے 1۔
یہ تثلیث (Triad) ان کے علم الابدان اور علم الامراض کا مطلق مرکز بن گئی۔ جسم کے تمام افعال اور بیماریاں بالآخر ان تینوں نظاموں کی حالت سے منسوب کی جاتی ہیں۔ یہ طب یونانی کے پیچیدہ نظام (چار اخلاط، چار کیفیات، متعدد اعضاء) کو ایک سادہ اور منظم تثلیث میں تبدیل کرنے کی ایک شعوری کوشش تھی، جس سے یہ نظام قابلِ تعلیم اور قابلِ عمل بن گیا۔
2.3 علم الامراض کی حرکیات: تحریک، تسکین اور تحلیل
بیماری کی تعریف ان تینوں نظاموں کے توازن میں خلل کے طور پر کی گئی ہے۔ یہ خلل تین حالتوں میں ظاہر ہوتا ہے:
تحریک (Stimulation): کسی عضو کا غیر طبعی طور پر تیز یا فعال ہوجانا۔ یہ بیماری کا بنیادی مقام ہے۔
تحلیل (Lysis): کسی عضو کا سوزش اور زیادہ کام کی وجہ سے کمزور اور گھل جانا۔
تسکین (Sedation): کسی عضو کا سکون یا سستی کی حالت میں چلا جانا 1۔
اس نظریے کا بنیادی میکانکی اصول یہ ہے کہ کسی بھی بیماری کی حالت میں، ایک نظام تحریک میں، دوسرا تحلیل میں، اور تیسرا تسکین میں ہوتا ہے۔ یہ ایک مکمل اور خودکار نظام ہے۔ مثال کے طور پر، ایک اعصابی بیماری میں:
اعصاب تحریک میں ہوں گے۔
غدد تحلیل میں ہوں گے۔
عضلات تسکین میں ہوں گے 1۔
یہ حرکیات جسم کو ایک ایسی مشین کے طور پر پیش کرتی ہیں جس کے تین حصے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ علاج کا اصول بھی اسی میکانکی تصور پر مبنی ہے: مشین کے سست حصے (تسکین زدہ عضو) کو متحرک کرکے پورے نظام کو دوبارہ متوازن کرنا 1۔
2.4 صحت و مرض کی چھ حالتیں (چھ تحریکیں)
ایک بنیادی “مکینکی” خرابی (تحریک میں مبتلا عضو) اور ایک ثانوی “کیمیائی” خرابی (پیدا ہونے والا خلط) کے باہمی تعامل سے چھ بنیادی مرضی حالتیں پیدا ہوتی ہیں۔ پہلا لفظ تحریک میں مبتلا عضو اور دوسرا لفظ ثانوی کیمیائی اثر کو ظاہر کرتا ہے:
اعصابی عضلاتی (سرد خشک)
عضلاتی اعصابی (خشک سرد)
عضلاتی غدی (خشک گرم)
غدی عضلاتی (گرم خشک)
غدی اعصابی (گرم تر)
اعصابی غدی (سرد تر)
یہ چھ حالتیں نظریہ مفرد اعضاء کا مکمل تشخیصی اور معالجاتی نقشہ تشکیل دیتی ہیں۔ ہر بیماری، نزلہ زکام سے لے کر سرطان تک، انہی چھ عنوانات میں سے کسی ایک کے تحت درجہ بند کی جاتی ہے 1۔
جدول 1: نظریہ مفرد اعضاء کی حرکیاتی حالتیں اور چھ تحریکیں |
تحریک کا نام |
اعصابی عضلاتی |
اعصابی غدی |
عضلاتی اعصابی |
عضلاتی غدی |
غدی اعصابی |
غدی عضلاتی |
یہ جدول نظریہ مفرد اعضاء کے پورے مرضیاتی نظام کو ایک جامع اور مربوط شکل میں پیش کرتا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چھ حالتیں تین اعضائے رئیسہ کے حرکیاتی تعامل سے کس طرح پیدا ہوتی ہیں۔
حصہ سوم: فنِ شفا: تشخیص اور علاج کا عملی طریقہ
یہ حصہ نظریہ مفرد اعضاء کے عملی اطلاق کا تجزیہ کرتا ہے، اور اس بات پر توجہ مرکوز کرتا ہے کہ نظریاتی ڈھانچہ کس طرح تشخیصی اور معالجاتی یقینی علم کے حصول کے لیے طبی طریقہ کار میں تبدیل ہوتا ہے۔
3.1 تشخیص میں یقینی علم کی تلاش: نبض اور قارورہ
نظریہ مفرد اعضاء نے کلاسیکی تشخیصی طریقوں کو از سر نو زندہ اور منظم کیا۔ نبض کو صرف عمومی کیفیات (تیز، سست، قوی، ضعیف) کے لیے نہیں دیکھا جاتا، بلکہ اس کا خاص طور پر تجزیہ کیا جاتا ہے تاکہ چھ تحریکوں میں سے فعال تحریک کی نشاندہی کی جا سکے 1۔ مثال کے طور پر، ایک اعصابی نبض کی خصوصیات غدی یا عضلاتی نبض سے مختلف ہوں گی۔ نبض کی نمایاں جگہ (مثلاً دائیں یا بائیں جانب) کو بھی مخصوص حالتوں سے جوڑا گیا ہے 1۔
اسی طرح، قارورہ (پیشاب) کا رنگ اور قوام بھی غالب خلط اور بالواسطہ فعال تحریک کا براہ راست اشارہ سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، سفید پیشاب اعصابی تحریک، زرد پیشاب غدی تحریک، اور سرخی مائل یا سیاہ پیشاب عضلاتی تحریک کی علامت ہے 1۔ ان طریقوں کا مقصد تشخیص کو موضوعی اندازوں سے نکال کر ایک معروضی اور قابلِ تصدیق عمل بنانا تھا۔
3.2 توازن کی بحالی اور علاج بالضد کا اصول
اس نظام کا بنیادی معالجاتی اصول “علاج بالضد” کا اعضاء کے نظام پر اطلاق ہے۔ علاج کا مقصد اس عضو کو متحرک (تحریک) کرنا ہے جو سکون (تسکین) کی حالت میں ہے۔ سست عضو کو فعال کرنے سے پورا نظام خود کو متوازن کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اس عمل میں، غیر طبعی طور پر متحرک عضو پرسکون ہوجاتا ہے اور تحلیل زدہ عضو پر سے دباؤ ختم ہوجاتا ہے 1۔
مثال کے طور پر، اگر کسی مریض کو غدی عضلاتی (گرم خشک) مرض ہے، جس میں جگر/غدد تحریک میں ہیں، تو علاج کی توجہ اعصاب (جو تسکین میں ہیں) کو متحرک کرنے پر مرکوز ہوگی۔ یہ سرد و تر مزاج کی ادویات کے استعمال سے کیا جائے گا، جو اعصابی نظام کو تحریک دے کر جسم میں سردی اور تری پیدا کریں گی اور گرمی و خشکی کو زائل کر دیں گی۔
3.3 ایک منظم فارماکوپیا (قرابادین)
صابر ملتانی نے اپنے منظم علم الامراض کے مطابق ایک انتہائی منظم فارماکوپیا تیار کیا۔ ادویات کا انتخاب علامات کی بنیاد پر نہیں، بلکہ ایک مخصوص تحریک پیدا کرنے کی ان کی صلاحیت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
ادویات کی چھ اقسام: فارماکوپیا کو چھ اہم اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے، جو چھ تحریکوں کے مطابق ہیں (مثلاً، محرک اعصابی غدی، محرک عضلاتی اعصابی) 1۔
عمل کے چار درجات: ہر قسم کے اندر، ادویات کو ان کی شدت کے مطابق مزید چار درجات میں تقسیم کیا گیا ہے، جس سے علاج پر مکمل کنٹرول حاصل ہوتا ہے:
محرک (Motive): سب سے ہلکا عمل، جو عضو کو تحریک دیتا ہے۔
محرک شدید (Severe Motive): زیادہ شدید عمل۔
ملین (Lenitive): کیمیائی تبدیلیاں اور اخراج پیدا کرتا ہے۔
مسہل (Purgative): سب سے شدید اخراجی عمل۔
دستاویز میں ان 24 زمروں (6 حالتیں × 4 درجات) کے لیے نسخہ جات کی ایک تفصیلی فہرست فراہم کی گئی ہے، جس میں تریاقات (Antidotes) اور اکسیرات (Elixirs) جیسے پیچیدہ مرکبات بھی شامل ہیں 1۔ غذا (
غذا) کو بھی علاج کا ایک لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے، اور کھانوں کو بھی چھ حالتوں کے مطابق درجہ بند کیا جاتا ہے تاکہ دوا کے عمل میں مدد مل سکے 1۔ یہ منظم طریقہ کار فنِ طب کو ایک “پروٹوکول پر مبنی” عمل میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے، جس سے معالج کی موضوعی تشریح کو کم سے کم کیا جا سکے۔
جدول 2: نظریہ مفرد اعضاء کا فارماکوپیا – ایک ساختی جائزہ |
تحریک |
اعصابی غدی |
اعصابی عضلاتی |
عضلاتی اعصابی |
عضلاتی غدی |
غدی عضلاتی |
غدی اعصابی |
یہ جدول نظریہ مفرد اعضاء کے عملی اور منظم پہلو کو واضح کرتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک تشخیص (مثلاً، عضلاتی غدی) کس طرح براہ راست مخصوص معالجاتی اختیارات کے ایک سیٹ سے منسلک ہے، جس میں شدت کے مختلف درجات موجود ہیں۔ یہ پورے نظریاتی ڈھانچے کا عملی نتیجہ ہے۔
حصہ چہارم: ایک مجادل کا مؤقف: تقابلی تجزیہ اور تنقید
اس حصے میں صابر ملتانی کی دیگر طبی نظاموں اور معالجین پر کی گئی وسیع تنقیدوں کا تجزیہ کیا جائے گا، اور انہیں اپنے نظام کی وضاحت اور قانونی حیثیت کے لیے ایک ضروری “حد بندی” کے طور پر پیش کیا جائے گا۔
4.1 “فرنگی طب” (مغربی طب) کے خلاف دلائل
صابر ملتانی کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ ایلوپیتھی علامات کا علاج کرتی ہے، نہ کہ مریض یا مرض کی اصل جڑ کا 1۔ وہ اس کی مثال ایک گرم ہوتی ہوئی مشین پر تیل یا انجن کو چیک کیے بغیر ٹھنڈا پانی پھینکنے سے دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ طریقہ نہ صرف غیر مؤثر ہے بلکہ نقصان دہ بھی ہے۔
نظریہ جراثیم کا رد: وہ اس نظریے کو مسترد کرتے ہیں کہ جراثیم بیماری کی بنیادی وجہ ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ جراثیم بیماری کا نتیجہ ہیں، وجہ نہیں۔ وہ صرف اس وقت پھلتے پھولتے ہیں جب جسم کا اندرونی ماحول (اعضاء اور اخلاط کی حالت) بگڑ جاتا ہے 1۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا نظام جسمانی توازن کو بحال کرکے “جرثومی امراض” کا علاج بغیر جراثیم کش ادویات کے کرسکتا ہے۔
تجارتی ذہنیت اور اصولوں کا فقدان: وہ مسلسل نئی ادویات کے تعارف کو ترقی کے بجائے ناکامی اور تجارتی ذہنیت کی علامت سمجھتے ہیں۔ وہ اس کا موازنہ طب یونانی کے لازوال اصولوں سے کرتے ہیں، جہاں ادرک یا لونگ کی خصوصیات ہزاروں سالوں میں تبدیل نہیں ہوئیں 1۔ ان کا دس ہزار روپے کا عوامی چیلنج ان کے مجادلانہ انداز کا ایک کلیدی عنصر ہے، جو ان کے اپنے نظریے پر غیر متزلزل اعتماد کو ظاہر کرتا ہے 1۔
4.2 ہومیوپیتھی اور دیگر نظاموں پر تنقید
وہ ہومیوپیتھی کی کامیابی کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اس پر تنقید کرتے ہیں کہ اس میں علم الامراض (ماہیت امراض) اور صحت کا کوئی مربوط نظریہ موجود نہیں ہے۔ وہ اسے محض علامات کے ملاپ کا ایک نظام سمجھتے ہیں جس کی کوئی جسمانی بنیاد نہیں ہے 1۔ ہانیمن کے تین میازم (Miasms) کو اپنے سہ رخی نظام میں ضم کرنے کی ان کی کوشش دراصل ہومیوپیتھی کو وہ مرضیاتی بنیاد فراہم کرنے کی کوشش تھی جو ان کے خیال میں اس میں موجود نہیں تھی 1۔ دیگر نظام جیسے بائیو کیمک، ہائیڈروپیتھی وغیرہ کو وہ ایک بڑی حقیقت کے نامکمل ٹکڑے قرار دیتے ہیں، نہ کہ جامع طبی نظام 1۔
4.3 داخلی مباحث: حکیم محمد حسن قرشی پر شدید تنقید
دستاویز کا ایک بڑا حصہ حکیم محمد حسن قرشی پر کی گئی تنقید پر مشتمل ہے 1۔ صابر ملتانی کی تنقید کثیر الجہتی ہے:
“فارماکوپیا” کی اصطلاح کا غلط استعمال: وہ دلیل دیتے ہیں کہ قرشی کی کتاب محض نسخوں (مجربات) کا مجموعہ ہے، نہ کہ ایک حقیقی، ریاستی طور پر منظور شدہ فارماکوپیا، اور یہ نام تجارتی فائدے کے لیے ایک “خطرناک مذاق” تھا۔
اصولوں کا فقدان: وہ قرشی پر علم الادویہ (قرابادین) کے بنیادی اصولوں سے ناواقفیت اور بغیر سمجھے نسخے نقل کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔
اخلاقی اور ذاتی خامیاں: وہ قرشی کے کردار پر گہرا ذاتی حملہ کرتے ہیں، انہیں “دوغلا” اور تجارتی ذہنیت کا حامل قرار دیتے ہیں جس نے ذاتی دولت کے لیے فنِ طب کو تباہ کردیا (“وہ کرائے کے مکان سے اٹھ کر کوٹھی نشین ہوگئے”) 1۔
یہ تنقید محض ایک ذاتی جھگڑا نہیں، بلکہ یہ فنِ طب کی روح کے لیے ایک جنگ تھی۔ صابر ملتانی خود کو اصولی اور سائنسی طب کے محافظ کے طور پر پیش کرتے ہیں، جبکہ قرشی کو وہ تجارتی ذہنیت اور فکری کاہلی کی علامت سمجھتے ہیں۔ یہ مجادلہ دراصل اپنے نظام کی حدود متعین کرنے اور اسے دیگر تمام نظاموں سے ممتاز کرنے کی ایک شعوری کوشش تھی۔
جدول 3: صابر ملتانی کے مطابق تقابلی طبی فلسفے |
تصور |
بیماری کی اکائی |
مرضیاتی بنیاد |
تشخیصی طریقہ |
علاجی اصول |
علاج کا مقصد |
یہ تقابلی جدول صابر ملتانی کے پورے مجادلانہ منصوبے کا ایک جامع خلاصہ پیش کرتا ہے، جس سے ان بنیادی فلسفیانہ اختلافات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جو انہوں نے اپنے نظام اور اپنے حریفوں کے درمیان شناخت کیے تھے۔
حصہ پنجم: نتیجہ: نظریہ مفرد اعضاء کی میراث اور تنقیدی جائزہ
یہ آخری حصہ رپورٹ کے نتائج کو یکجا کرکے حکیم صابر ملتانی کی طب یونانی میں خدمات کا ایک متوازن اور تنقیدی جائزہ پیش کرے گا۔
5.1 نظریہ مفرد اعضاء بطور “بند نظام”: خوبیاں اور خامیاں
خوبیاں: اس نظریے کی داخلی ہم آہنگی، قطعی منطق، اور منظم نقطہ نظر نے اسے ایک انتہائی مؤثر تدریسی آلہ اور طبی پروٹوکول بنا دیا۔ اس نے ایک ایسے شعبے میں، جو اپنی قانونی حیثیت کے لیے جدوجہد کر رہا تھا، اعتماد اور سائنسی سختی کا ایک نیا احساس پیدا کیا۔
خامیاں: نظام کی یہی “بند” نوعیت اس کی صلاحیت پر سوالات اٹھاتی ہے کہ وہ نئی سائنسی دریافتوں کو کیسے شامل کرسکتا ہے جو شاید اس کے سہ رخی ڈھانچے میں فٹ نہ ہوں۔ اس کے دعوے، اگرچہ داخلی طور پر ہم آہنگ ہیں، لیکن سائنس کے جدید معیار کے مطابق آسانی سے قابلِ تردید نہیں ہیں، جس کی وجہ سے یہ باہر والوں کو ایک سائنسی نظریے سے زیادہ ایک مابعد الطبیعاتی نظام معلوم ہوتا ہے۔
5.2 حکیم صابر ملتانی کی لازوال میراث
انہیں ایک حقیقی مجدد کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے طب یونانی کے زوال کے خلاف تن تنہا جنگ لڑی۔ انہوں نے ایک متحرک اور پائیدار مکتبہ فکر تخلیق کیا جو آج بھی ترقی کر رہا ہے۔ انہوں نے کامیابی کے ساتھ طبی گفتگو کا رخ موڑا، بنیادی اصولوں پر بحث کو مجبور کیا، اور مغربی طب کی غیر متنازعہ بالادستی کو چیلنج کیا۔ ان کے کام نے ہزاروں معالجین کو شناخت، مقصد اور یقینی علم کا ایک طاقتور فکری اور عملی ڈھانچہ فراہم کیا۔
5.3 حتمی تشخیص
رپورٹ کا اختتام اس نتیجے پر ہوتا ہے کہ حکیم صابر ملتانی کا نظریہ مفرد اعضاء بیسویں صدی کی طب یونانی میں سب سے اہم فکری پیشرفتوں میں سے ایک ہے۔ اگرچہ جدید مغربی نقطہ نظر سے اس کی سائنسی حیثیت پر بحث کی جاسکتی ہے، لیکن ایک مربوط فلسفیانہ نظام اور ایک عملی طبی طریقہ کار کے طور پر اس کی طاقت ناقابل تردید ہے۔ وہ اپنے بنیادی مقصد میں کامیاب ہوئے: فنِ شفا کے لیے یقینی علم کی ایک عمارت تعمیر کرنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوانح حیات مع خطابات صابر ملتانی.pdf