
میواتی شاعری میں زراعت(کھیتی باڑی)
لکھاری:عزیز سہسولہ
میواتی:حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

ہندوستان و پاکستان کی تقریبا ستّر فیصد سو زیادہ آبادی گاؤں دیہات میں رہوے ہے ۱ جن میں سو تقریبا ۶۲فیصد لوگ زراعت کا پیشہ اختیار کیے ہوئے ہاں ۲ ۔ پاکو ہندہندوستان ایک ایسو خطہ ہے کہ ہیں کائی بھی علاقہ اے یا کا زراعتی کلچر مکمل طرح سو متاثر کرےہے ۔شمالی ہندوستان میں واقع میوات کامیو خالص چھتری النسل ہاں جن کو آبائی پیشہ ہمیشہ سو زراعت ہی رہوہے۔میوات میں مثل مشہور ہے ’’ میو کو پوت ہل کی چوٹیا اے پکڑنو جانے ہے‘‘یعنی میوکو صرف ہَل چلانو ہی آوے ہے۔ روز ازل سو ہی میوات کی اپنی ایک ممتاز تہذیب رہی ہے۔ ہیں کا تمام شعرا اور لکھاری اپنی تہذیب سو کدی دور نہ رہا۔ ان تمام لوگن نے جن موضوعات پے شاعری کری اور مختلف

گیت لکھا اُن میں زراعت ایک بہت اہم موضوع رہو ہے۔
میوات میں کسان سو کاشتکار یا زمیندار کہو جاوے ہے اور یاکو کام زمیندارا ، کھیتی یا کاشتکاری کہلاوے ہے۔ کسان کے متعلق کہو جاوے ہے کہ کسان کدی بھی سست اور آرام طلب نہ ہوسکےہے ۔ جفاکشی اور مشکل سو مشکل حالات میں کام کرنویاکی فطرت میں شامل ہے۔ اُو ہَر وقت کھیتی باڑی کے مارے تیار رہوےے۔
آلَس نیند کسان کو‘ کھووے، چور کو‘ کھووے کھانسی
ٹَکا بیاج باباجی کو ‘ کھووے، تِرِیا کو‘ کھووے ہانسی
زراعت کو کام بہت مشقت طلب ہے۔ موسم کی تیز دھوپ ہو ئے، بارش ہوئے یا پھر کڑاکا کی سردی، کسان اے سب کچھ سہنو پڑے ہے۔ جو کسان انن کی سہن نہ کر سکے یا کی قابل رحم حالت کو ذکر یا دوہا میں کروگیو ہے۔
آسوجا کی تاوڑی، جوگی ہوگا باٹ
میو فقیری لے گیا، بَنِیانّے لے لی کھاٹ
کانٹو برُو بَبول کو اور سَاجھی کو کام
سَوت برُی ہے چو‘ن کی اور بھَادو کی گھام
کھیت کو مالک کسان جب اپنا ہاتھن سو کھیتی کرے ہے جب ہی زیادہ پیداوار ہووے ہے۔ موقعہ پے اپنو دھن ہی کام آوے ہے نہ کہ کائی کا ادھار دیا ہویو۔یائی میوات میں مشہور ہے:
کھیتی کیاری چاکری اور گھوڑا کا تنگ
اپنے ہاتھ سنبھالیے لاکھ لوگ ہوئیں سنگ
میو قوم مویشی پالے ہے جا کے مارے زراعت بہت ضروری ہے ۔ کھیتن میں سو چارا وغیرہ لاکے مویشین کو کھلایو جاوے ہے جا سو ان کو دودھ و گھی وغیرہ حاصل ہووے ہے جو ہیں کا باشندان کی عام خوراک ہے۔ایک میو شاعر کھیتی کی اہمیت و فوائد کو ذکر کچھ یا انداز میں کرےہے:
کھیتی میں رَس بہت ہے، اُپجے بھاری نِیار
سات طور سُلاکھنا، بھینس بندھایو چار
بھینس بندھایو چار کہ کھاوے چھاچھ ملیدو
نِربھے پَیلو ڈنڈ، بندھے دَیہی پہ گودو
ہو تن سو ہُسیار، کام سب کرو اگیتی
چھوڑ سوچ، سَسپنج، رنج، غم، کر لیو کھیتی ۳
زراعت کا مذکورہ بالا فوائدواہمیت اپنی جگہ مسلّم مگر زراعت کو کام بہت محنت کو کام تصور کرو جاوے ہے جا میں انسان شب وروز لگو رہوے ہے اورای چکرّ پورا سال چلے ہے۔ یائی مارے کھیتی خصم سیتی جیسی بہت سی مشہور کہاوت وجود میں آئی ہاں۔
قدرت اور مٹی سو کسان کو ایک اٹوٹ رشتہ رہوےہے۔ زراعتی زندگی میں خواہ کھیتن کی جُتائی، بُوائی اور سینچائی کو کام ہو یے، لاؤنی اور کھلیان کا کام کاج ہوواں، زراعت سو متعلق جانور ہوواں یا کسان کا گھریلوکام کاج ہوواں، یا کا کھان پان اور پہناوا ہوئے یامذہبی و سماجی زندگی ہوئے، اُو شب وروز کا اِن کامن میں کہاوت ، محاورا، پہیلی اور ضرب الامثال کو استعمال کرے ہے جن میں زندگی کا تجربات پیوست رہواہاں۔ ایک مثال ملاحظہ ہوئے:
بَیاہات تیرے پاؤں تیرے مِنَخ کی سی دیہہ
تو کِیں بھیگے بانْدرا، اوپر برسے مینہہ
یائے سن کے بندر بَیا کا گھونسلہ اے برباد کردیوے ہے:
سیٖکھ وائی کو‘ دیجیے جاکو‘ سیٖکھ سُہائے
سیٖکھ دیٖنی بانْدرہی گھر بیا کو جائے
کھیتی باڑی کے مارے بلین کی اہمیت کائی سو دُکی نہہے۔ قدیم زمانہ میں صرف بیلن سو ہی کھیتی باڑی کری جاوےہی ۔ میوات میں آج بھی وہی انسان سب سو زیادہ امیر اور سرمایہ دار خیال کرو جاوے ہے جا کے پئےزرعی زمین زیادہ ہوئے۔ میوات میں ایک کہاوت مشہور ہے ’’ وا کے نو بَیل چلا ہاں‘‘ یعنی وا کے پئے زرعی زمین اتنی زیادہ ہے کہ وا کی جتائی ، بوائی اور کاشت کےمارے ایک دو بیل کافی نہ ہاں بلکہ پورا نو بینں کی ضرورت ہے۔ بیلن کو ہَل میں آہستہ آہستہ اور کنویں سو سینچائی کرتے وقت درمیانی رفتار سو چلنو اچھو سمجھو جاوے ہے لیکن کولہومیں تیل پلائی تیز رفتاری سو ہی ممکن ہوسکے ہے۔ یاسو متعلق کہو گیو ہے:
ہَل ہولے ہولے چلے، کنووں مَنْدری چال
کولہو بھائی تب پِلے جب چلے چِرپَری چال
کھیت میں ہل چلاتو کسان اور بیلن کی جوڑی کا بارہ میں ایک پہیلی مشہور ہے:
رَگّو چلے رَگ پَگ
تین مونْڈ دس پَگ
کھیت کی جُتائی کے بعد وائے برابر کرن کےمارے مَیج (پٹیلا) لگائی جاوے ہے کہ ڈھیلان نے ختم کرکے مٹی ہموار کری جاسکے۔ یا کا بارہ میں لوگن میں مشہور ہے کہ:
راجو رب کو ناؤں لے مَن میں کر لے چَیت
گناہ معاف ہو جاں گے جوں مَیج سنوارے کھیت
مَیج کھینچن میں چاربیل لگا ہاں نیز دو کسان یاپے کھڑا ہوجاواہاں ۔ چار بیل اور دو کسانن نے ملا کے کل بارہ آنکھ، بیس پیر اور چھیانوے دانت ہوواہاں۔ یہ سب کھیت میں کئی بار گزراہاں مگر مَیج پھرن سو پیچھے اِن کا نشان تک کہیں دکھائی نہ دیواہاں یا کا بارہ میں ایک بہت خوبصورت پہیلی مشہور ہے:
بارہ نَینا بیس پَگ اور چھیانوے دَنْت
یہاں ہوکے اتنے گئے کھوج نہ پایو کَنْت
باجرہ ، مکئی، جوار، گوار، تِلّی (تِل)، مونگ اور اُرَد وغیرہ سات قسم کی چیزن سو ساتوں توُڑ کہو جاوے ہے۔ کاتک (کارتک ایک ہندی مہینہ کو نام ہے )کی اچھی فصل ہونا کی امید میں کسان کی بیٹی ایک لوک گیت کے ذریعہ سو اپنی خواہش کو اظہار اپنا باپ سو یا طرےکرے ہے:
گَھڑا دے بابُل ہَتھ پھول
بھارو ہووے گو باجرو
نِپجَنگا ساتو توڑ
کھیت میں جب کسان بُوائی کرے ہے تو ہر طرح کا بیج کی بُوائی کو ڈھنگ الگ الگ رہوے ہے ۔ یا بات اے چالاک کسان کہاوتن کے ذریعہ ہی بتا دیوے ہے:
سَن گہرو، بَن بَیگلو، مینڈک پھُدّی جوار
پینڈ دوپَینڈو باجرو، کرے دَلِدَّر پار
چھِیدا چھِیدا جَو چنا ، چھِیدی بھلی کپاس
جن کی چھِیدی ایٖکھ ہے اُن کی چھوڑو آس
چنے کی فصل کا مختلف مدارج کا بارہ میں ای میواتی کہاوت بہت مشہور ہے جو تقریبا ہر کسان سو سنی جا سکے ہے:
چھوٹو ہو تب چھُٹّم چھُٹّا ، بڑو ہُیو تب لال
بوڑھو ہُیو تب بھارو ناچو، گھال گلا میں ٹال
مِلو رہے تو پُرُش ہے ، الگ ہوئے تو ناری
سونے کو سو رنگ ہے چَتُر لیؤ وِچاری
فصلن میں اَرہر کا پودا کی عمر سب سو زیادہ رہوے ہے۔ یہ اساڑھ میں بوئی جاوے ہے اور جیٹھ ماہ میں کاٹی جاوے ہے ۔یا دورانیہ، رنگ روپ اور کھیتی کا بارہ میں کہو جاوےہے:
پِیلی پِیلی تیٖتری کیسر کو سو رنگ
گیارہ دیور پھر گئے گئی جیٹھ کے سنگ
بڑی جِٹھانی سَبَن کی جھَبَر جھابرو اَنگ
پِیلی لوگڑی چھیٖنٹ کی لَکھی دیورانی دَنگ
پیاز سبزی اور سلاد کی شکل میں کام آوے ہے ۔ ایسی کوئی سبزی نہ ہے جا میں پیاز کو استعمال نہ ہوتوہوئے۔ ای نقدی فصل بھی کہلاوے ہے ۔ پیاز کسان کہ ہر کھان پان کی ساتھی ہے۔ سبزی نہ ہونا کی صورت میں کسان پیاز روٹی سو ہی کام چلاوےہے۔ پیاز کا پودا کی بناوٹ کا بارہ میں ایک پہلی معروف ہے:
اوپر کو تو جھَلّر مَلّر نیچے کو ہے گَٹّھ
یا پہیلی کو نام بتا نہیں دوں گو لَٹّھ
کھیتی کرنو اور یائے سنبھالنو تو مشکل کام ہے ہی یا کے علاوہ پکی ہوئی فصل کو صحیح سلامت گھر لے جانو بھی کم مشقت طلب کام نہ ہے۔ فصل کی بوائی سو یا کی کٹائی اور اکٹھا کرن کے دوران کسان کو قدرتی آفات کو بھی سامنا کرنو پڑے ہے۔ کبھی کبھی یا کی ساری محنت قدرتی مصائب کے باعث رائیگاں چلی جاوے ہے۔یائی مارے میوات میں کہو جاوے ہے:
کھڑی کھیتی گِیابھَن گائے
جب جانو جب ہات آ جائے
قحط، زیادہ بارش اور ژالہ باری جیسی قدرتی آفات کے علاوہ مختلف کیڑہ مکوڑا اور بیمارین سو کسان خوفزدہ رہوےہے ۔ مانسون میں تاخیر ہونا سو بھی فصل متاثر ہوجاوے ہے ۔ دیر تک بارش نہ ہونا کی وجہ سو ہَڑوائی یا ہاڑِیا ہوا چل جائے تو کسان بہت دکھی ہوجاوےہے۔ ایک کسان کی بیوی یا کا یہی دکھ ایک گیت میں یا طرح بیان کرے ہے:
ہَڑِیا چل گی پون
بلم بیٹھا کو روٹی کون دیے گو
عوام میں ای مشہور ہے کہ ہَڑِیا ہوا بارش نہ ہون دیوے ہے۔ ہر کسان کی یہی خواہش رہوے ہے جلد از جلد بارش ہوئےخواہ کثرت بارش سو واکو نقصان ہی کیوں نہ اٹھانو پڑے۔ منقول ہے کہ ایک بنجارا کی نو سو گائے ، بیٹا او ر بہوپانی میں بہہ گیا پھر بھی وا نے یہی کہو:
نو سو موڑی بہہ گئی، اور پُتّر سَنگ جوئے
مینہا تو برسا بھلا، رب کرے سو ہوئے
میوات علاقہ میں ہر گھر میں کسان لوگ گائے بھینس پالا ہاں اور ہر ایک کے دھینا(دودھ گھی کو ہونو) رہوے ہے۔ کچھ غریب لوگ یاسو محروم بھی رہ جاواہاں۔ یا دھینا کی خاطر کسان اے گائے کی لات بھی سہنی پڑے ہے۔ جا کی وجہ سو کہاوت معرض وجود میں آئی ہے:
گائے نِیانہ کی ، بہو ٹھکانہ کی
دودھ دین والا جانورن میں سب سو اچھو اور طاقتور دھینا بھینس کو ہی مانو جاوے ہے ۔ میوات میں کہواہاں:
دھینا بھینس کو چاہے سیر ای ہو
ہونی چَہیے چھایہ چاہے کیر ای ہو
چلنا گَیلا کو چاہے پھیرای ہو
بیٹھنو بھائین کو چاہے بَیر ای ہو
ہرموسم میں الگ الگ فصل بوئی جاواہاں۔ بوائی کے وقت گھر میں سب مل جل کے مشورہ کراہاں کہ کونسا کھیت میں کہا بونو ہے۔ میوات میں مردن کے شانہ بہ شانہ عورت بھی زراعت کو کام کراہاں۔ کھیتن کی بوائی کےمارے اب تو ٹریکٹر اور دیگر مشینن کو استعمال کرو جاوے ہےمگر پہلے جب ہل بیل کو استعمال ہو تو مرد ہل چلاوے ہو اور عورت یا کے پیچھے پیچھے بیج گیرتی جاوے ہی ۔ مندرجہ ذیل گیت میں بیوی شوہرسو کہہ رہی ہے کہ انن نے کہا کہا بونو چاہیے :
ٹَیول کے نیچے بودے راجا جوار چَری کی
نیہنی نیہنی بوند پڑا ہاں
جوار باجرہ بہت بورا ہاں
اَر سُنیو میرا راجا، کھیت بہت پڑاہاں
جلدی جلدی چلا بَیلن نے ، دنیا آگے نکلے رے
ٹَیول کے نیچے بودے راجا جوار چَری کی
مونگ، چولا اور آرہڑ بوئی
تِل کی وا میں آڑ لگائی
اچھی فصل ساؤنی جا میں لگری جھڑی رے
ٹَیول کے نیچے بودے راجا جوار چَری کی ۴
بوائی کے بعد فصل میں نرائی کرنع بہت ضروری رہوےہے جاسوکہ فصل اچھی ہو سکے۔ نرائی کرنو بہت مشقت طلب کام ہے ۔ میوات میں ای کام صرف بیر بانی ہی کرے ہی ۔ اساڑھ اور بھادوں وغیرہ کا موسم میں فصلن میں نرائی کرنو نہایت مشکل رہوے ہے۔ ایک تو گرمی ، اوپر سو بارش کی وجہ سے سب کچھ بھیگو ہونو مزید ہوا کو رُک جانوجا کی وجہ سو کھیتن میں کام کرن والی پسینہ میں شرابور ہو جاوے ہی۔ یائی مضمون کو ایک گیت ملاحظہ کرو:
پسینومیرو نوٗئی ٹپکے، نوئی ٹپکے ری
تو راجا میرا کدی نہ لایو چپّل
کدی نہ چلے میڈم بن کے، میڈم بن کے رے
تو سیّاں میرا کدی نہ لایو لڈّو
کدی نہ گایا گلّا بھر کے رے، گلّا بھر کے رے
تو پیا میرا کدی نہ لایو گھیور
کدی نہ کھایا جی بھرکے رے، جی بھر کے رے
پسینومیرو نوٗئی ٹپکے، نوئی ٹپکے ری ۵
ایک عورت کو شوہر یا کے ساتھ کھیتن میں یاکوہاتھ نہ بٹاتوا ُو واکی خوب خوشامد اور منت سماجت کرے ہے لیکن میاں صاحب ہاں کہ وا کی بات پے کان ہی نہ دھرےہے ۔اُ و صرف اپنا حْقہ میں مست رہوے ہے۔ اُوواکو ملامت کرتے ہوئے کہوے ہے:
کھیتی کر لے ، اَر کھیتی کر لے رے
میری جان کا جلاوا کھیتی کر لے
اَر حقّہ چھوڑ کے چل میرے گیلے
کھیت دیکھ کے آواں
کھیتی کر لے ، اَر کھیتی کر لے رے
میری جان کا جلاوا کھیتی کر لے
اَر اُوڑ پاس لو‘ وامیں جوار باجرو
رے بیج میں تِل کو پیڑ
نگوڑا کھیتی کر لے، اَرکھیتی کر لے
میری جان کا جلاوا کھیتی کر لے
جوار باجرہ دیکھن چلی رے میں
بیچ میں پایو مور
نگوڑا کھیتی کر لے، اَرکھیتی کر لے
میری جان کا جلاوا کھیتی کر لے
مور چُگے ہے رے، اَر چڑیا چُگ ری
اور چرے ہیں ڈھور
نگوڑا کھیتی کر لے، اَرکھیتی کر لے
میری جان کا جلاوا کھیتی کر لے ۶
فصل کا کاٹن سو میوات میں لاؤنی کہوا ہاں۔ فصل کی کٹائی گھر کا بڑا افراد مل جل کے کراہاں۔ ای اُ و وقت رہوے ہے جب سب کا چہرہ کھلا رہواہاں کیونکہ فصل اٹھن کے بعد سب کی خواہشات کی تکمیل ہون والی رہواہاں۔ لاؤنی میں سب ایک دوسرا سو ہنسی مذاق بھی کراہاں۔ناشتہ اور دوپہرکو کھانو کھیتن میں ہی پہنچا دیو جاوے ہے۔ شام کے وقت سب لوگ کھیتن سو گھر واپس آواہاں۔ ہمارا سماج میں دیور بھابھی کو رشتہ بڑو مقدس خیال کروجاوے ہے جا میں ہنسی مذاق اور شرارت ضرور شامل رہوے ہے مگر ان کی محبت خالص اور بے لوث رہوے ہے۔ لاؤنی کرتے وقت دیور دیگر تمام لوگن سو پیچھے رہ جاوے ہے تو اُو اپنی بھابھی سو مدد طلب کرے ہے۔ ایسے میں وا کی بھابھی واسو مذاق کرتے ہوئے کہوے ہے:
برفی کُھواوے تو لِواؤں تیری مانگ
یا گِہوں چَنا کا کھیت میں
آنکھ مارے تو لِواؤں تیری مانگ
یا گِہوں چَنا کا کھیت میں
ناک رِگڑے تو لواؤں تیری مانگ
یا گِہوں چَنا کا کھیت میں
برفی کُھواوے تو لِواؤں تیری مانگ ۷
جوائنٹ فیملی میں کھانو پینو، کام کاج، کاروبار،مکان اور کھیتی باڑی وغیرہ سب کچھ مشترکہ رہوے ہے ۔ ایک عورت جب اپنا شوہر کے ساتھ نِیالی (گھر والان سو الگ ) ہوئی توو ا نے اپنا شوہر سو مطالبہ کرو کہ گھر الگ الگ ہونا کے ساتھ ساتھ زمین اور کام کاج بھی الگ الگ ہوجانو چاہیے۔ اب ساجھا کا کام کرن کو طبیعت نہ مانے ہے ۔ سب سو پہلے کھیت کھلیان علیحدہ علیحدہ ہونا چاہاں:
جنگل میں نِیالی جھونپڑی تَنوا دے میرے راجا
رے جنگل میں نِیالی جھونپڑی
ارے تو تو جاواہل پہ گھنی رات سِدوسی
دونوں جِٹھانی موسو‘ دِنّوں بحثی
اَرا اِن میں نائیں بَجَنگا اپنا باجا
جنگل میں نِیالی جھونپڑی تَنوا دے میرے راجا
رے جنگل میں نِیالی جھونپڑی
الگ سو‘ ایک کنووں بنوادے
بجلی کو یاپے پمپ لگوا دے
تولو‘ پکاؤں گی ترکاری نِت تاجا
جنگل میں نِیالی جھونپڑی تَنوا دے میرے راجا
رے جنگل میں نِیالی جھونپڑی ۸
میواتی شاعری کا مختلف موضوعات میں سو زراعت ایک اہم موضوع ہے جو سبھی میواتی شعرا نے اپنا کلام میں برتو ہے۔میواتی شاعری کی سنگل واٹی صنف میں زراعت کو استعمال کثرت سو کرو گیو ہے ۔ زراعت میواتی تہذیب کو ایک جزء لاینفک ہے چنانچہ جب تک میواتی تہذیب اور شاعری باقی رہے گی زراعت کو ذکر ہوتو رہے گو۔
حوالہ جات
۱۔انڈین سینسس
۲۔ایگری کلچرل سینسس ۲۰۱۱
۳۔اعجاز احمد، میوات اے ریٹروسپیکٹیو، ایم ڈی اے،۲۰۱۳، ص ۱۱
۴۔ڈاکٹر ماجد میواتی، میواتی لوک گیتوں میں سماج اور سنسکرتی، نیہاپرکاشن، دہلی، ۲۰۱۰، ص ۶۲
۵۔ایضا ، ص۶۳
۶۔میری جان کا جلاوا کھیتی کر لے، اپنا میوات ، یوٹیوب چینل
۷۔ڈاکٹر ماجد میواتی، میواتی لوک گیتوں میں سماج اور سنسکرتی، نیہاپرکاشن، دہلی، ۲۰۱۰، ص۶۴
۸۔جٖیون سنگھ مانوی، دادا ہِمتا دِوس پروگرا، ۲۰۱۸