
قانونِ مفرد اعضاء کے تحت امراض کی جامع درجہ بندی چھ تحریکات کا تفصیلی جائزہ
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
حصہ اول: قانونِ مفرد اعضاء کے بنیادی اصول اور نظریۂ امراض
یہ حصہ اس درجہ بندی کے نظام کو سمجھنے کے لیے ضروری نظریاتی بنیاد فراہم کرے گا۔ اس میں یہ واضح کیا جائے گا کہ قانونِ مفرد اعضاء کس طرح روایتی طبِ یونانی کے اصولوں کو ایک سادہ اور عضو پر مبنی صحت و مرض کے ماڈل میں ڈھالتا ہے۔
تعارف: حکیم صابر ملتانی کا انقلابی نظریہ
بیسویں صدی میں حکیم دوست محمد صابر ملتانی نے طبِ یونانی کی تشخیص و علاج کو ایک جدید، سائنسی اور یقینی بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے ایک انقلابی نظریہ پیش کیا، جسے “قانونِ مفرد اعضاء” (The Law of Single Organs) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نظریے کا بنیادی مقصد قدیم طب میں موجود پیچیدگیوں، بالخصوص ادویہ کے مزاج کی شناخت اور تشخیص کے عمل میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کو دور کرنا تھا ۔ اس نظام کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک فطری، یقینی اور بے خطا طریقہ علاج ہے جس نے ناقابلِ علاج سمجھے جانے والے امراض کا بھی قابلِ اطمینان حل پیش کیا ہے ۔ اس کی افادیت کے باعث یہ طریقہ علاج پاکستان اور ہندوستان سے نکل کر بعض یورپی ممالک میں بھی مقبولیت حاصل کر رہا ہے ۔

اس فلسفے کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ انسانی جسم میں تمام امراض کی ابتدا جسم کے تین اعضائے رئیسہ میں سے کسی ایک میں پیدا ہونے والے غیر طبعی بگاڑ سے ہوتی ہے۔
اعضائے رئیسہ اور اخلاط کا نظریہ
قانونِ مفرد اعضاء کی پوری عمارت تین اعضائے رئیسہ پر قائم ہے، جو نہ صرف جسم کے بنیادی افعال کے ذمہ دار ہیں بلکہ مخصوص اخلاط (Humors) بھی پیدا کرتے ہیں:
دماغ و اعصاب (Nervous System): یہ اعصابی نظام کا مرکز ہے، جس کا کام احساسات اور پیغامات کی ترسیل ہے۔ یہ خلط بلغم (Phlegm) پیدا کرتا ہے، جس کا مزاج تر سرد (Cold & Moist) ہے۔
قلب و عضلات (Muscular System): یہ عضلاتی نظام کا مرکز ہے، جو جسمانی ساخت اور حرکت کا ذمہ دار ہے۔ یہ خلط سودا (Black Bile) پیدا کرتا ہے، جس کا مزاج خشک سرد (Dry & Cold) ہے۔
جگر و غدد (Glandular System): یہ غدی نظام کا مرکز ہے، جو استحالہ (Metabolism) اور ہضم کے افعال انجام دیتا ہے۔ یہ خلط صفرا (Yellow Bile) پیدا کرتا ہے، جس کا مزاج گرم خشک (Hot & Dry) ہے۔
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قانونِ مفرد اعضاء نے طبِ یونانی کی چار روایتی اخلاط (دم، بلغم، صفرا، سودا) کو آسان بناتے ہوئے ان تین اخلاط پر توجہ مرکوز کی ہے جو براہِ راست اعضائے رئیسہ میں پیدا ہوتی ہیں۔ اس نظریے کے مطابق خون (دم) کوئی مفرد خلط نہیں بلکہ ان تینوں اخلاط کا مرکب ہے ۔
نظریۂ تحریکات اور افعال کی تثلیث
اس نظام میں مرض کی کیفیت کو سمجھنے کے لیے “تحریک” کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جس کا مطلب کسی عضو کا غیر طبعی طور پر متحرک یا تیز ہو جانا ہے۔ جب ایک عضو میں تحریک ہوتی ہے تو باقی دو اعضاء پر بھی مخصوص اثرات مرتب ہوتے ہیں، جنہیں ایک تکمیلی تثلیث (Triad)
سے سمجھا جاتا ہے:
تحریک (Stimulation): وہ بنیادی عضو جو غیر طبعی طور پر تیز ہو کر مرض کا سبب بن رہا ہے۔
تحلیل (Analysis/Dissolution): وہ دوسرا عضو جو تحریک والے عضو کے فضلات کو خارج کرنے کی کوشش میں خود بھی متاثر اور متورم ہو جاتا ہے۔
تسکین (Sedation/Suppression): وہ تیسرا عضو جو اس عدم توازن کے نتیجے میں سست اور مفلوج ہو جاتا ہے اور اس کے افعال میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔
بیماری کی یہ حرکیاتی تفہیم قانونِ مفرد اعضاء کی اساس ہے۔ چھ کی چھ تحریکات کے نام اسی اصول پر رکھے گئے ہیں۔ نام کا پہلا حصہ تحریک والے عضو اور دوسرا حصہ تحلیل والے عضو کی نشاندہی کرتا ہے، جبکہ غیر مذکور تیسرا عضو ہمیشہ تسکین میں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، اعصابی عضلاتی تحریک میں اعصاب (دماغ) میں تحریک، عضلات (قلب) میں تحلیل اور غدد (جگر) میں تسکین ہوتی ہے۔ یہ ماڈل مرض کو کسی ایک عضو کی جامد خرابی کے بجائے پورے نظام کے ایک متحرک عدم توازن کے طور پر دیکھتا ہے، اور یہی اصول تشخیص اور علاج کی بنیاد بنتا ہے۔

حصہ دوم: چھ تحریکات: امراض کی جامع درجہ بندی
اس حصے میں ہر تحریک کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا، جس میں اس کی تعریف، خصوصیات اور اس سے وابستہ امراض کی فہرست شامل ہو گی۔
چھ تحریکات کا اجمالی خاکہ
تحریک نمبر | نام (اردو و انگریزی) | تحریک والا عضو (اور خلط) | تحلیل والا عضو | تسکین والا عضو | مجموعی مزاج | پیشاب کا pH | اہم امراض کی مثالیں |
1 | اعصابی عضلاتی (Asabi-Uzlati) | دماغ و اعصاب (بلغم) | قلب و عضلات | جگر و غدد | تر سرد | 7.2–6.8 | لو بلڈ پریشر، کثرتِ پیشاب، نزلہ زکام (رقیق)، اسہال |
2 | عضلاتی اعصابی (Uzlati-Asabi) | قلب و عضلات (سودا) | دماغ و اعصاب | جگر و غدد | خشک سرد | 5.7–4.4 | قبض، بادی بواسیر، گیس، عضلاتی درد، بے چینی، گنٹھیا |
3 | عضلاتی غدی (Uzlati-Ghaddi) | قلب و عضلات (سودا) | جگر و غدد | دماغ و اعصاب | خشک گرم | 6.7–5.8 | سوزشی امراض، ٹی بی، کینسر، خونی پیچش، تیز بخار |
4 | غدی عضلاتی (Ghaddi-Uzlati) | جگر و غدد (صفرا) | قلب و عضلات | دماغ و اعصاب | گرم خشک | 7.2–6.8 | ہائی بلڈ پریشر، یرقان، پتھری (بننا)، تیزابیت، آدھے سر کا درد |
5 | غدی اعصابی (Ghaddi-Asabi) | جگر و غدد (صفرا) | دماغ و اعصاب | قلب و عضلات | گرم تر | – | ٹائیفائیڈ، سوزاک، پیپ دار امراض، گلے کی سوزش |
6 | اعصابی غدی (Asabi-Ghaddi) | دماغ و اعصاب (بلغم) | جگر و غدد | قلب و عضلات | تر سرد | – | جریان، احتلام، لیکوریا (رقیق)، اعصابی کمزوری، IBS |
نوٹ: پیشاب کے pH کی قدریں قانونِ مفرد اعضاء کے لٹریچر کے مطابق ہیں ۔ ان کی تشریح معیاری کیمیائی پیمانوں سے مختلف ہو سکتی ہے۔
2.1 تحریک نمبر 1: اعصابی عضلاتی (Asabi-Uzlati)
تعریف و خصوصیات:

تحریک: دماغ و اعصاب (بلغم کی زیادتی)
تحلیل: قلب و عضلات
تسکین: جگر و غدد
مزاج: تر سرد (Cold & Moist)۔ اسے “سردی کی تحریک” بھی کہا جاتا ہے ۔
تشخیصی علامات: نبض گہری اور سست ہوتی ہے۔ پیشاب کی رنگت سفید اور مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ جسم میں رطوبات کی زیادتی اور حرارت کی کمی ہوتی ہے۔
متعلقہ امراض کی فہرست:
بلڈ پریشر کا کم ہونا (Hypotension)
کثرتِ پیشاب (Polyuria)، ذیابیطس غیر شکری (Diabetes Insipidus)
نزلہ و زکام جس میں پتلی اور بے رنگ رطوبت ہو، الرجی
پانی جیسے دست (Watery Diarrhea)، ہیضہ جیسی کیفیات
سستی، کاہلی، نیند کی زیادتی (Somnolence)، بعض اقسام کا ڈپریشن
جسم میں پانی بھرنا، ورم (Edema)
پیاس کی کمی، بھوک کا نہ لگنا
مرگی اور فالج کی وہ اقسام جن میں سردی اور اعضاء کا ڈھیلا پن نمایاں ہو
جوڑوں کا درد جس میں سوزش اور ورم نہ ہو (Non-inflammatory arthralgia)
2.2 تحریک نمبر 2: عضلاتی اعصابی (Uzlati-Asabi)
تعریف و خصوصیات:
تحریک: قلب و عضلات (سودا کی زیادتی)
تحلیل: دماغ و اعصاب
تسکین: جگر و غدد
مزاج: خشک سرد (Dry & Cold)
تشخیصی علامات: نبض باریک اور تیز ہوتی ہے۔ پیشاب کا رنگ سرخی مائل زرد یا سیاہی مائل ہوتا ہے۔ pH تیزابی (5.7–4.4) ہوتا ہے ۔ جسم میں خشکی، سردی اور ریاح (گیس) کی کثرت ہوتی ہے۔
متعلقہ امراض کی فہرست:
قبض، بادی یا خشک بواسیر
عضلاتی کھچاؤ، درد اور اکڑن
بے چینی، گھبراہٹ، وہم، خوف، بے خوابی (Insomnia)، جنونی خیالات
عرق النساء (Sciatica)، کمر کا درد (Lumbago) اور دیگر اعصابی درد جو عضلات کے دباؤ سے ہوں
پیٹ میں گیس کا بھرنا، نفخ (Flatulence)
گٹھیا (Arthritis) اور نقرس (Gout) کا دائمی اور سرد مرحلہ
جلد کی بعض بیماریاں جیسے خشک ایگزیما اور چنبل (Psoriasis)
فائبرومائیلجیا (Fibromyalgia) جس میں جسم میں درد اور سختی نمایاں ہو
یورک ایسڈ کی زیادتی
2.3 تحریک نمبر 3: عضلاتی غدی (Uzlati-Ghaddi)
تعریف و خصوصیات:
تحریک: قلب و عضلات (سودا کی زیادتی)
تحلیل: جگر و غدد
تسکین: دماغ و اعصاب
مزاج: خشک گرم (Dry & Hot)
تشخیصی علامات: نبض مضبوط اور تیز ہوتی ہے۔ پیشاب کا رنگ گہرا زرد یا بھورا ہوتا ہے۔ pH تیزابی (6.7–5.8) ہوتا ہے ۔ یہ جسم میں شدید توڑ پھوڑ (Catabolism)، سوزش اور تیزابیت کی حالت ہے۔
متعلقہ امراض کی فہرست:
سوزشی گٹھیا (Inflammatory Arthritis) جیسے Rheumatoid Arthritis
آنتوں کی سوزش، خونی پیچش (Dysentery)
سرطان اور رسولیاں (کینسر کو اکثر اسی تحریک میں شمار کیا جاتا ہے)
تپِ دق (Tuberculosis)
بواسیرِ خونی اور بھگندر (Anal fistula)
گرمی اور خشکی کی زیادتی سے بے خوابی
عضلات کا سوکھ جانا (Muscular Atrophy)
شدید سوزش والے بخار
اپینڈکس کی سوزش (Appendicitis) کا شدید مرحلہ
2.4 تحریک نمبر 4: غدی عضلاتی (Ghaddi-Uzlati)
تعریف و خصوصیات:
تحریک: جگر و غدد (صفرا کی زیادتی)
تحلیل: قلب و عضلات
تسکین: دماغ و اعصاب
مزاج: گرم خشک (Hot & Dry)۔ اسے “گرمی کی تحریک” بھی کہا جاتا ہے ۔
تشخیصی علامات: نبض تیز اور سطح پر محسوس ہوتی ہے۔ پیشاب کا رنگ شوخ زرد ہوتا ہے۔ pH قلوی (7.2–6.8) ہوتا ہے ۔ یہ جسم میں شدید استحالہ، حرارت اور صفرا کی زیادتی کی حالت ہے۔
متعلقہ امراض کی فہرست:
بلڈ پریشر کا بڑھنا (Hypertension)
دردِ دل (Angina Pectoris)، ہارٹ اٹیک کا خطرہ
تھائیرائیڈ کی زیادتی (Hyperthyroidism)
یرقان (Jaundice)، جگر کی شدید سوزش (Hepatitis)
پتے کی پتھری کا بننا (Gallstone formation)
معدے میں جلن، تیزابیت، السر (Peptic ulcers)
آدھے سر کا درد (Migraine) جو صفراوی نوعیت کا ہو
صفراوی دست اور قے
پیشاب کی جلن، یو ۔ٹی ۔آئی (UTI)
گرمی کی وجہ سے جلد پر دانے، پھوڑے اور کیل مہاسے
2.5 تحریک نمبر 5: غدی اعصابی (Ghaddi-Asabi)
تعریف و خصوصیات:
تحریک: جگر و غدد (صفرا کی زیادتی)
تحلیل: دماغ و اعصاب
تسکین: قلب و عضلات
مزاج: گرم تر (Hot & Moist)
تشخیصی علامات: نبض پھسلتی ہوئی اور تیز ہوتی ہے۔ پیشاب کا رنگ ہلکا زرد ہوتا ہے۔ یہ حرارت اور رطوبت کے امتزاج کی حالت ہے جو جسم میں تعفن (Decomposition) اور پیپ پیدا ہونے کا باعث بنتی ہے۔
متعلقہ امراض کی فہرست:
اکثر بخار (جیسے ٹائیفائیڈ، ملیریا، ڈینگی)
سوزاک (Gonorrhea) اور آتشک (Syphilis)
جسم میں پیپ (Pus) کا بننا، پھوڑے، زخموں کا خراب ہونا
گلے کی سوزش (Laryngitis)، ٹانسلز کا پکنا
نمونیا جس میں زرد بلغم آئے
لیکوریا (زرد اور متعفن رطوبت کے ساتھ)
پتے کی پتھری کا اخراج (اخراجی حالت)
جسمانی زہریلے پن کی وجہ سے چڑچڑاپن، بے چینی اور ذہنی الجھن
ذیابیطس (شوگر) کی وہ قسم جس میں گرمی اور سوزش غالب ہو
2.6 تحریک نمبر 6: اعصابی غدی (Asabi-Ghaddi)
تعریف و خصوصیات:
تحریک: دماغ و اعصاب (بلغم کی زیادتی)
تحلیل: جگر و غدد
تسکین: قلب و عضلات
مزاج: تر سرد (Moist & Cold)
تشخیصی علامات: نبض ڈوبی ہوئی اور سست ہوتی ہے۔ پیشاب سفید اور مقدار میں زیادہ ہوتا ہے۔ یہ جسم میں غیر سوزشی رطوبات کی زیادتی اور بافتوں کے ڈھیلے پن کی حالت ہے۔
متعلقہ امراض کی فہرست:
منہ میں پانی کا زیادہ آنا، آنکھوں سے پانی بہنا
جریان (Spermatorrhea)، سرعتِ انزال (Premature ejaculation) جو اعصابی حساسیت اور کمزوری کی وجہ سے ہو
کثرتِ احتلام (Nocturnal emissions)
لیکوریا (بے رنگ اور پتلی رطوبت کے ساتھ)
آئی۔ بی۔ ایس (Irritable Bowel Syndrome) جس میں دست غالب ہوں
بار بار پیشاب آنا (بغیر جلن کے)
اعصابی کمزوری، تھکاوٹ، توجہ کی کمی
اپینڈکس کی دائمی اور غیر سوزشی حالت
بے چینی سے منسلک اعصابی معدے کا درد اور ہاضمے کے مسائل
حصہ سوم: طبی اطلاق: تشخیص اور علاج
یہ آخری حصہ اس درجہ بندی کو اس کے عملی استعمال سے جوڑتا ہے، اور یہ واضح کرتا ہے کہ امراض کی یہ فہرست محض بیانیہ نہیں بلکہ علاج کی بنیاد بھی ہے۔
3.1 قانونِ مفرد اعضاء میں تشخیص کا فن اور سائنس
قانونِ مفرد اعضاء میں تشخیص کے لیے روایتی اور جدید دونوں طریقوں سے مدد لی جاتی ہے تاکہ مرض کی صحیح تحریک کا تعین کیا جا سکے۔
تشخیص بالنبض (Pulse Diagnosis): نبض کی کیفیت (گہرائی، رفتار، اور قوت) کو جانچنا تشخیص کا اولین اور اہم ترین ذریعہ ہے۔ ایک ماہر طبیب نبض پر ہاتھ رکھ کر ہی یہ تعین کر لیتا ہے کہ چھ تحریکات میں سے کون سی فعال ہے ۔
تشخیص بالقارورہ (Urinalysis): قارورہ یعنی پیشاب کا معائنہ نبض سے کی گئی تشخیص کی تصدیق کرتا ہے۔ پیشاب کا رنگ، مقدار اور خاص طور پر اس کا تیزابی یا قلوی ہونا (pH) ایک معروضی علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔
اس نظام کی ایک منفرد خصوصیت روایتی تشخیص کو جدید سائنسی پیمانوں سے جوڑنے کی کوشش ہے۔ حکیم صابر ملتانی نے ہر تحریک کو مخصوص pH قدروں سے منسلک کر کے تشخیص کے عمل کو زیادہ معروضی اور قابلِ تصدیق بنانے کی کوشش کی ۔ یہ عمل ان کے اس دعوے کو تقویت دیتا ہے کہ قانونِ مفرد اعضاء ایک سائنسی نظام ہے، اور یہ قدیم حکمت اور جدید لیبارٹری سائنس کے درمیان ایک پل کا کام کرتا ہے ۔
3.2 اصولِ علاج
قانونِ مفرد اعضاء میں علاج کا اصول “علاج بالضد” پر مبنی ہے، جو براہِ راست تشخیص اور درجہ بندی سے منسلک ہے۔ اس کا منطقی طریقہ کار تحریک، تحلیل اور تسکین کے نظریے پر استوار ہے:
تسکین والے عضو میں تحریک پیدا کرنا: علاج کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو عضو تسکین (Sedation) کی حالت میں سست پڑا ہے، اسے ایسی ادویہ اور اغذیہ دی جائیں جو اس میں تحریک پیدا کر کے اس کے افعال کو بحال کریں۔
تحریک والے عضو کو تسکین دینا: جو عضو غیر طبعی طور پر متحرک (Stimulated) ہے، اس کی شدت کو کم کرنے کے لیے مخالف مزاج کی دوائیں اور غذائیں استعمال کی جاتی ہیں۔
تحلیل والے عضو کی اعانت کرنا: جو عضو تحلیل (Analysis) کے عمل میں متاثر ہو رہا ہے، اسے سہارا دینے والی ادویہ دی جاتی ہیں تاکہ وہ فضلات کو آسانی سے خارج کر سکے۔
مثال کے طور پر، ایک اعصابی عضلاتی (تر سرد) مرض میں، جس میں جگر تسکین کی حالت میں ہوتا ہے، علاج کے لیے گرم مزاج (غدی) ادویہ اور اغذیہ استعمال کی جائیں گی تاکہ جگر کے افعال کو بحال کیا جا سکے اور جسم میں حرارت و توازن واپس لایا جا سکے ۔ اس طرح، امراض کی یہ چھ حصوں پر مشتمل درجہ بندی براہِ راست علاج کی حکمتِ عملی کا تعین کرتی ہے۔
3.3 خلاصہ: قانونِ مفرد اعضاء کی معنویت اور عصری مطابقت
یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ قانونِ مفرد اعضاء کے تحت امراض کی چھ تحریکات میں تقسیم محض ایک فہرست نہیں بلکہ ایک انتہائی منظم اور منطقی نظام ہے جو تین اعضائے رئیسہ کے باہمی افعال پر مبنی ہے۔ اس درجہ بندی کی اصل قدر اس کے عملی اطلاق میں ہے، جہاں تشخیص اور علاج ایک مربوط اور کلّی نظام کے تحت جسم کے قدرتی توازن کو بحال کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔
بانیِ نظریہ کے مقاصد کے مطابق، اس نظام کی افادیت اور تشخیصی درستی کو جدید سائنسی معیارات پر مزید پرکھنے کے لیے باضابطہ طبی تحقیقات (Clinical Trials) کی ضرورت بدستور موجود ہے، تاکہ اس روایتی حکمت کو جدید سائنس کی زبان میں مکمل طور پر ثابت کیا جا سکے ۔