ڈاکٹر محمد ایوب قادری کی علمی اور تحقیقی خدمات۔2
ڈاکٹر محمد ایوب قادری کی علمی اور تحقیقی خدمات۔2
خان رضوان
ناقل:حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
قسط 2،
مولانا فیض احمد بدا یونی کی اشاعت کے بعد اہل علم کی نظریں ایوب قادری کی طرف اٹھنے لگیں۔ یہ اگرچہ مختصر کتاب تھی، لیکن ان کی تحقیقی وتصنیفی صلاحیتوں کا اندازہ لگانے کے لیے کافی تھی۔ ڈاکٹر معین الحق، جوکہ ہسٹاریکل سوسائٹی کے معتمد تھے انہوں نے اپنے ادارہ میں تحقیقی کاموں میں تعاون اور ریسرچ کے لیے ڈاکٹر ایوب کو اپنے پاس بلالیا
انہی دنوں انھوں نے مفوضہ ذمے داریوں کو ادا کرنے کے ساتھ کراچی یونیورسٹی سے ۱۹۶۲ء میں اردو سے ایم، اے کرلیا۔ اس کے بعد اردو کالجمیں جزوقتی لکچرار کی حیثیت سے خدمت انجام دینے لگے۔ بعد میں اسی کالج میں مستقل لکچرر کی حیثیت سے وابستہ ہوگئے۔ ۱۹۸۰ء میں ’اردو نثر کے ارتقا میں علما کا حصہ‘ (شمالی ہند میں ۱۸۵۷ء تک) کے عنوان سے کراچی یونیورسٹی سے اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔
اردو کالج سے وابستہ ہونے کے بعد ڈاکٹر صاحب کی علمی وتحقیقی اور تصنیفی سرگرمیوں کا دائرہ مزید وسیع ہوگیا۔ اس زمانے کی کاوشوں میں مخدوم جہانیان جہاں گشت، مولانا محمد احسن نانوتوی، ارباب فضل وکمال (بریلی) کی سوانح عمریاں اور ان کے علمی کارناموں کا مفصل تذکرہ اور پھر تبلیغی جماعت کا تاریخی جائزہ اور جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے واقعات وشخصیات پر ان کی جامع اور وقیع تصانیف ان کے یادگار علمی کارنامے ہیں۔ ان کے علاوہ تراجم میں دو مجموعہ وصایا اربعہ، شاہ ولی اللہ وغیرہ) ماثرالامرا (شاہ نواز خاں کی تصنیف کردہ تین جلدیں)
فرحة الناظرین، (محمد اسلم انصاری پسروری) اور ’سید العارفین، (جمالی) اور ترتیب وحواشی میں تواریخ عجیب، (کالا پانی) عہد بنگش کی سیاسی، علمی اور ثقافتی تاریخ، مقالاتِ یوم عالمگیر، تذکرۂ نوری، (حالات شاہ ابوالحسن نوری مارہروی) اور جنگ نامہ آصف الدولہ ونواب رام پور(معظم عباسی) وغیرہ ان کی ایسی کاوشیں ہیں جو علمی دنیا کے لیے مستقل استفادہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
۱۹۶۲ء کے بعد ڈاکٹر ایوب کی تصنیف وتالیف میں مزید تیزی آگئی۔ اسی سال یعنی۱۹۶۲ء میں ہی تواریخ عجیب عرف کالا پانی، کو جس کے مصنف جعفر تھا نیسری ہیں، قیمتی اور مفید حواشی کے ساتھ ترتیب دے کر سلمان اکیڈمی سے شائع کرایا۔ مذکورہ بالا تالیف وتصنیف کے علاوہ ڈاکٹرمحمد ایوب قادری کی دوسری تالیفات و تصنیفات بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ لیکن یہاں میں صرف دو کتابوں کے تعلق سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ تواریخ عجیب اپریل ۱۸۷۹ء میں مکمل ہوئی۔ اس کا دوسرا حصہ کالا پانی کے نام سے ۱۸۸۴ میں مکمل ہوا۔
یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کا نام اکثر کالا پانی بھی لکھا جاتا ہے۔ جب مولوی محمد جعفر تھانیسری انڈمان سے واپس آئے توان کے احباب واعزہ ان سے طویل زمانہ اسیری کے حالات پوچھنے شروع کیے تو جوابا انھوں نے اس مختصر سی کتاب میں اپنی اسیری، مقدمے، سفر انڈمان، انڈمان کی زندگی اور رہائی کے حالات نہایت دلدوز اور جاں کاہ انداز میں لکھے۔ تا ریخ عجیب دو حصوں پر مشتمل ہے اس کا پہلا حصہ جزائر انڈمان وپورٹ بلیئر کے حالات وواقعات سے متعلق ہے اور دوسرے حصے میں ان جزائر میں مروجہ بتیس مشہور زبانوں کے روز مرے اور محاورے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
مولوی تھانیسری نے اس کتاب میں ایک جگہ وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے ’’کچھ لوگ جو مجھ سے اردو ناگری اور فارسی سیکھتے تھے انھوں نے فرمائش کی تھی کہ مروجہ اردو پر پورٹ بلیئر میں کوئی ایک کتاب تصنیف کی جائے جس سے یہاں کے لوگوں کو اردو سیکھنے میں مدد مل سکے، در حقیقت یہ کتاب سید احمد شہید کی تحریک کے سلسلے میں مولوی محمد جعفر کی خود نوشت اور ایک قیمتی دستاویز ہے۔ اس میں ایسے ایسے حالات و واقعات ہیں جو کسی دوسرے ذرائع سے معلوم نہیں کیے جا سکتے۔
جب ۱۹۳۱ء میں حادثہ بالا کوٹ پیش آیا سید احمد شہید اور شاہ اسمعٰیل کوشہید کر دیا گیا تو اس کے بعد اس تحریک کے قائد مولانا ولایت علی صادق پوری ہوئے جو اس وقت دکن میں حاد ثہ عظیم کے بعد وہ فورا َصادق پور پہنچے مولانا کا انتقال ۱۸۵۲ء میں ہوا۔ اس کے بعد ان کے منچھلے بھائی مولانا عنایت علی امیر مقرر ہوئے، مولاناپر جوش مجاہدتھے اس لیے ہمیشہ انگریزوں سے ان کی جھڑپیں ہوتی تھیں۔ آخر کار ۱۸۵۸ء میں پشاور سے جنرل کاٹن کی سر کردگی میں مجاہدین پر حملہ ہوا اور بڑی تعداد میں مجاہدین شہید ہوئے اورکچھ پہاڑوں میں چھپ گئے۔ مولانا عنایت علی نے استھاواں (بہار شریف) کا رخ کیا مگر راستے میں بہ مقام چمپئی ۱۸۵۸ء کو داعیِ اجل کو لبیک کہا
مولانا عنایت علی کے بعد ان کے بھتیجے مولانا عبداللہ ابن مولانا ولایت علی امیر قرار پائے۔ اس بیچ میں میر نصر اللہ اور میر مقصود نے قیادت کی۔ مولانا عبد اللہ نے جب زمام ِکار ہاتھ میں لیا تو اس وقت سب سے اہم واقعہ معرکہ امبیلہ ۱۸۶۲ء پیش آیا جس میں مجایدین نے عزم و استقلال کے ساتھ مقابلہ کیا، اس وقت تحریک کا ہند وپاک میں سب سے بڑا مر کز صادق پور پٹنہ تھا۔ درحقیقت انگریز وں نے تحریک ِجہاد کو بری طرح کچلا اور مجاہدین ومصلحین کو وہابی کے نام سے موسوم کر کے بدنام کیا۔ سید احمد شہید کی تحریک خالص دینی تحریک تھی، اس تحریک کا اہم ترین عنصر جہاد اور اصل مقصد حکومت ِ الٰہی کا قیام تھا۔ مولانا نے طاغوطی نظام کے خلاف اور سکھا شاہی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔ اس وقت پنجاب میں مساجد اور اسلامی شعائر کی اعلانیہ بے حرمتی ہوتی تھی۔ اور اس علاقے میں مسلمان سخت اذیت وپریشانی میں مبتلا تھے۔ اس علمِ جہاد کے نتیجے میں ۶مئی ۱۸۳۱ء کو سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل نے بالا کوٹ میں جام شہادت نوش کیا۔
جاری ہے