ڈاکٹر محمد ایوب قادری کی علمی اور تحقیقی خدمات۔1
ڈاکٹر محمد ایوب قادری کی علمی اور تحقیقی خدمات۔1
خان رضوان
ناقل:حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
ڈاکٹر محمد ایوب قادری (۲۸ جولائی ۱۹۲۶ء۔ ۲۵ نومبر ۱۹۸۳ء) تاریخ و تحقیق کی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ وہ ایک ممتاز محقق، مولف، اور متر جم ہیں، ان کا شمار نابغہ روز گار علمی و ادبی شخصیات میں ہو تا ہے۔ انھیں تا ریخ، سوانح، ادب اور فن اسماء الر جال پر مکمل درک حاصل تھا۔ انھو ں نے تحقیق کے میدان میں دور اندیشی، بالغ النظری، ذہانت و ذکا وت، انتھک ریاضت، باریک بینی اور علمی و فنی آگہی کے ساتھ تا ریخی بصیرت کو بروے کار لاتے ہوئے فن تحقیق کے چراغ کو روشن کیا۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں ایک مستند اور معتبر محقق کا اعتبار حاصل رہا۔ ایوب قادری بر صغیر کی یکتا ویگا نا اور متنوع ادیب تھے۔ وہ ایسے نا بغئہ روزگار شخصیت تھے جسے زمانہ برسوں میں جنم دیتا ہے۔ ایوب قادری علم کا ایسا خاموش دریا تھے جس کی بے کرانی میں سینکڑوں لہریں تہہ آب رواں دواں ہوں اور سطح آب پر پر بہار سکوت گہرائی وگیرائی کی آگہی دے رہا ہو۔ آپ کی علمی بصیرت و آگہی پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ،
اک ہمالہ جس کے قد سے پوری دنیا آشنا
اک سمندر اپنی گہرائی سے خود نا آشنا
ایوب قادری کا تعلق اتر پر دیش کی اس سر زمین سے ہے جس نے ایک سے ایک لعل وگہر کو جنم دیا جن کی عظمتوں کے نقوش پوری دنیا پر مرتسم ہیں۔ جسے علما، ا دبا اور شعرا کی سر زمین کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، ان میں مولانا احمد رضا خان بریلوی، شیام موہن لال جگر بریلوی، ڈاکٹر عبادت بریلوی، پرو فیسر شہریار، ڈاکٹر لطیف حسین ادیب، ڈاکٹر وسیم بریلوی، عقیل نعمانی، افتخار رضوی (انگریزی کے شاعر) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اسی ریاست کے شہر بریلی کا ایک چھوٹا سا قصبہ آنو لہ ہے جس کی تاریخی حیثیت اپنی جگہ مسلم۔ صنعت حرفت میں اتر پردیش میں قصبہ آنولہ کو جو مقام حاصل ہے قنوج کے علاوہ کسی اور شہر کو حاصل نہیں ہے، یہ حکومت روہیلہ کا پہلا دار الحکومت بھی رہا ہے۔ جس کے پہلے فر ما ں روانواب علی محمد خان (۱۷۴۹) تھے۔ ان کے گزر جانے کے بعد حافظ رحمت خاں ان کے جانشیں ہوئے، جنہوں نے بریلی کو اپنا مسکن بنایا۔ نواب علی محمد خان اور حافظ الملک حافظ رحمت خاں کے ابتدائی دور میں روہیل کھنڈ کا صدر مقام آنولہ تھا اور اس دور میں یہاں غیر معمولی ترقی ہوئی۔
اسی آنولہ میں ڈاکٹر ایوب قادری ایک علمی خاندان میں پیدا ہوئے، ان کا خاندان شروع سے علم وادب کا گہوارا رہا ہے۔ تاریخ وانساب اور علوم دینیہ سے دل چسپی اس کا نمایاں وصف رہا ہے اور ایوب قادری کو یہ چیزیں وراثت میں ملی تھیں۔ ان کے مورث اعلی روہیلوں کے عہد میں آنو لہ آئے۔ نواب علی محمد خان والی روہیل کھنڈ نے حضرت شاہ نوری نیازی کی زیارت کے بعد جو بڑی اراضی وقف کی تھی اس کے متولی ان کے جد امجد حکیم احمد اللہ تھے۔ جو اپنے دور کے نا م ور عالم اور خطیب تھے۔ ایوب قادری نے اسی قصبہ میں مروجہ روایت کے تحت سب سے پہلے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی۔ پھر مدرسہ تعلیم المومنین آنولہ میں تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۳۹ء میں پرائمری کاامتحان اول درجے میں پاس کیااور وظیفے کے مستحق قرار پائے ۱۹۴۲ء میں مڈل کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ ۱۹۴۷ء میں الہ آباد بورڈ سے میٹرک کا امتحا ن دیا اور فرسٹ ڈویژن سے پاس ہوئے۔ ۱۹۵۰ء میں انٹر کا امتحان اسلامیہ کالج بدایوں سے پاس کیا۔ اس دوران ان کے والد ماجد ہجرت کرکے پاکستان جاچکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب والد کی جدائی برداشت نہیں کرسکے اور بالآخر وہ بھی مئی۱۹۵۱ء میں پاکستان جا پہنچے۔ ابتدا میں والد کے پاس قیام کیا اور پھر روزگار کی تلاش میں کراچی کارخ کیا۔ ستمبر۱۹۵۱ء میں سپلائی اینڈڈولپمنٹ یعنی وزارتِ صنعت، محکمہ رسدوترقیات میں نوکری کرلی۔
دورانِ ملازمت انہوں نے اپنے تعلیمی سلسلے کو پھر سے شروع کیا اور ۱۹۵۶ء میں اردو کالج سے بی، اے کیا۔ ۱۹۵۷ء میں سید الطاف علی بریلوی نے آل پاکستان ایجوکیشن کانفرنس قائم کی اور ایک سہ ماہی رسالہ ’العلم‘ بھی جاری کیا۔ اسی اثنا میں سید صاحب مرحوم کی ملاقات ڈاکٹر ایوب قادری سے ہوئی۔ پہلی ہی ملاقات میں سید صاحب نے ایک پارکھ کی طرح اس جوہر قابل کو پرکھ لیا اور ان کو اپنے رسالہ ’العلم‘ کے لیے مضامین لکھنے پر آمادہ کرلیا۔ چنانچہ قادری صاحب نے مذکورہ رسالہ کے لیے کثرت سے مضامین لکھے۔ اسی دوران ان کی پہلی تصنیف ’مولانا فیض احمد بدایونی‘ شائع ہوئی۔ او ر یہاں سے جو سلسلہ شروع ہوا وہ ان کی موت پر ہی جا کر ختم ہوا۔
۱۔ شخصی تحقیق (یعنی تحقیقی سوانح عمریاں)
(۱) مولانا فیض احمد بدایونی، کراچی ۱۹۵۷ء
(۲) مخدوم جہانیان گشت، کراچی، ۱۹۶۳ء
(۳) مولانا محمد احسن نا نوتوی، کراچی، ۱۹۶۶ء
(۴) کاروان رفتہ، کراچی، ۱۹۶۳ء
(۵) ارباب فضل وکمال (یاد گار بریلی) کراچی، ۱۹۷۰ء
۲۔ تاریخ و تحریکات
۱۔ تبلیغی جماعت تاریخی جائزہ، کراچی، ۱۹۷۱ء
۲۔ جنگ آزادی ۱۸۵۷ء ’واقعات و شخصیات‘ کراچی، ۱۹۷۶ء
۳۔ غالبیات (غالب اور عصر غالب، کراچی، ۱۹۸۲ء)
۴۔ تراجم
(۱) تذکرۂ علمائے ہند (رحمان علی) کراچی۱۹۶۱ء (۲) وقائع نصیر خانی (مرزا نصیر الدین) کراچی ۱۹۶۱ء (۳) مجموعہ وصایا اربعہ (شاہ ولی اللہ وغیرہ) حیدر آباد ۱۹۶۴ء (۴) مآثر الامراء (صمصام الدولہ شاہ نواز خاں) تین جلدیں، لاہور ۱۹۶۸ء- ۱۹۷۰ء (۵) فرحة الناظرین (محمد اسلم انصاری) کراچی ۱۹۷۲ء (۶) سیر العارفین (جمالی) لاہور۱۹۷۶ء
ترتیب و تدوین
(۱) علم و عمل (وقائع عبد القادر خانی) دو جلدیں، کراچی ۱۹۶۰ء
(۲) تواریخ عجیب (کالا پانی۔ محمد جعفر تھانیسری) کراچی ۱۹۶۲ء
(۳) عہد بنگش کی سیاسی، علمی و ثقافتی تاریخ (تاریخ فرخ آباد) مؤ لف مولوی فرحت اللہ فرخ آبادی، کراچی ۱۹۶۵ء
(۴) مقالاتِ یوم عالمگیر، کراچی ۱۹۶۶ء
(۵) تذکرہ نوری (مفصل حالات و سوانح حضرت شاہ عبد الحسین نوری مارہروی) لائیل پور۱۹۸۶ء
(۶) مرقع ِ شہابی (مفتی انتظام اللہ شہابی) کراچی ۱۹۷۹ء
(۷) جنگ نامہ آصف الدولہ و نواب رام پور (خلیفہ محمد معظم عباسی ۴۹۷۱ء) کراچی ۱۹۸۰ء
ان کے علاوہ تین کتابوں میں شریک مصنف رہے،
(۱) خط و خطاطی، کراچی ۱۹۶۱ء
(۲) علی گڑھ تحریک اور قومی نظمیں، کراچی ۱۹۷۰ء
(۳) نقوشِ سیرت، کراچی ۷۷۹۱ء
اس کے علاوہ ڈاکٹر ایوب قادری نے تقریباً تیس سے زائد کتب کے مقدمات تحریر کیے ہیں اور تقریباً دو سو قابل قدر مضامین لکھے جو برصغیر ہندو پاک کے ممتاز علمی و تحقیقی رسائل و جرائد کی زینت بنے۔
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔