
خزینہ اکسیرات۔حکیم عبد الرحیم جمیل
دیباچه
اطبا یونانی کشتہ جات کے مخالف ہیں لیکن اطباء ہند کشتہ جات کے ملاح اور ان کو اکسیر کی جان اور تمام امراض کا دور کرنے کا واحد ذریعہ خیال کرتے ہیں چنانچہ موجہ وہ نہ مانے کی تحقیقات بھی ان کے اس خیال کی حمایت کرتی ہے ۔
بعض اطباء کا خیال ہے ۔ کہ کشتہ خود کشته شوی اور چالیس سال سے پہلے تو وہ کشتہ کے استعمال کے مخالف ہیں کہ کشتہ کا نام آتے ہی کانوں پر ہاتھ دھرتے ہیں اور اپنے زیر عالی معرفی کو تو انہوں نے اپنی تقریر سے اس قسم کا ڈرایا ہوتا ہے کہ اگر کوئی دوسرا طبیب کو دوا دیتا ہے۔ تو وہ سوال کرتے ہیں کہ اس نسخہ میں کوئی کشتہ تو نہیں حالانکہ وہ اس دوا کے تاثیر سے قطعاً نا واقف ہوتے ہیں۔ در اصل یہ قاعدہ اس وقت ایجاد کیا گیا۔

جبکہ بنی نوح انسان کی عمریں دو دو سال ہوا کرتی تھیں اور چالیس سال تک بمشکل تمام اعضاء کی پرورش ہوتی اور انسانی جسم کو راہر سکتا بخلاف آج کل سترہ کی عمر سے پہلے ہی جوانی کو رخصت کر کے قلا جسم کو پورا کر کے بیکار کر دیتے ہیں۔ اس حالت میں اگر اُن زائل شدہ قوتوں کو کوئی چیز واپس لا سکتی ہے تو وہ صرف کشتہ جات ہیں۔ یہ تو نہیں کہا سکتا کہ کشتہ جات کے سوا ایسی کوئی چیز نہیں جو اس حالت میں فائدہ کر سکے۔

لیکن تجربہ نے ثابت کر دیا ہے ۔ کہ کشتہ جات میں یہ قوت بلا درجہ اتم موجود ہے۔ چنانچہ اس اصول کے ماتحت دیدوں نے صرف کشتہ جات کے مرکب سے کئی طرح کی ادویات تیار کی ہیں ۔ جن کو رہنی کہا جاتا ہے۔ جو دیکھا