عملیات میں استاد و شاگرد
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے ہر فن میں اس کی تاریخ کے ساتھ وابسطہ ہے ،کوئی علم ہو یافن وہنر ،بہت سے اسرار و رموز ہر ایک میں موجود ہیںجو اس ہنر کے جاننے ہی جانتے ہیں مکمل طور پر کوئی فن وہنر کتاب سے حاصل نہیں کیا جاسکتا اگر کوئی سوجھ بوجھ پیدا کر بھی لے لیکن اعتماد کا ہر قدم فقدان رہتا ہے،استاد کی طرف سے علم و ہنر کے ساتھ جو نور اعتماد شاگرد کی طرف منتقل ہوتاہے،وہ مطالعہ سے ہرگز نہیں ملتا، اپنے طور پر انسان کسی فن میں کتنا ہی یکتا ہوجائے
مگر استاد کی جگہ بہر حال خالی رہتی ہے ،ایک نہ ایک وقت اسے استاد کی ضرورت ضرور محسوس ہوتی ہے ،یہ کمی کسی ماہر فن استاد کی کتاب کے ذریعہ پوری کرے یا پھرکسی کتاب سے
،لیکن یہ کمی انسان کو زندگی بھر محسو ہوتی ہے،کتاب و مطالعہ سے ذہین آدمی اپنی ضرورت پوری کرلیتاہے لیکن آسودگی نہیں ملا کرتی،استاد کے بنا اس فن میں برکت نہیں ہوتی۔
{شاگرد و استاد}
ذاتی مجربات کے نام سے راقم کے بیس سالہ تجربات کا نچوڑ پیش کیا جارہا ہے عملیات وطب کی دنیاکا ایک فرد ہونے اور اس فن میں زندگی کا ایک حصہ گزار نے کے سبب نہایت شرح صدر کے ساتھ کہ سکتاہوںکہ اس کے دعویداروں کی امساک و بخل کی طولانی سلسلہ پایا جاتاہے ،بعض نے تو بتانے سے گریز کیا اور نسخہ کے افشاء صدری کہ کر چھپایا اور اگر کسی نے ہمت کرکے تحریر کر بھی دیاتو مرموز انداز میں کہ کوئی اس سے مستفید نہ ہوسکے
تحریر میں ہی ایسی گجھلک لکیں رکھدیں کہ ہر دم اس کی محتاجی برقرار رہے انکی تحریرں نامانوس الفاظ سے مملو ہوتی ہیں اگر کسی نے ہمت کرکے انہیں ظاہر کیا بھی تو اتنی کڑی شرائط رکھ دیں کہ جن کا کرنا بھی معرکہ سر کرسے کم نہیں مثلاََ آج سے چند صد یا ں پہلے ایک عمل ترتیب دیا گیاحالات وماحول کے مطابق ضروری ہدایات بھی ساتھ میں بطور رہنما تحریر کردیں۔
خوراک کا معاملہ بھی طے کردیاجو اسوقت عام دستیاب تھیں، لیکن آج اس کاملنا ناممکن ہے، وہ غذا آج متروک ہوچکی ہے تو کیا ایسی صورت میں ہم اس مجرب عمل سے دست بردار ہوجایئنگے؟یا اس عمل کو خاص اس وقت کے لئے تصور کریں گے ؟
اگر کوئی اس مصروفیت کے دور میں وہی عمل کرنا چاہے تو وہ کیا لائیحہ عمل اختیار کرے یہ وہ سوالات ہیں جو اکثر و بیشتر ذہن میں گردش کرتے ہیں مضطرب ذہن کی تسکین کے لئے جب عاملین کی طرف رجوع کیا گیاتو کوئی معقول جواب نہ مل سکاکیونکہ عددے معدودے عاملوں کے سوا سب کا سرمایہ چند مخصوص وگنے چنے عملیات ہیں انکے نزدیک اس طرح کی گفتگو بھی ممنوع ہوتی ہے کیو نکہ وہ اسے اسلاف کی توھین سمجھتے ہیںبہت سے گدی نشین جن کاکاروبار ہی تعو یذا ت سے وابسطہ ہے وہ بھی اس کا کوئی شافی جوب نہ دےسکے۔ وہ تو صاحب قبر کے ترکہ کے امین ہونے کے مدعی ہیں کہ انہوں نے محنتیں کی اور ہم کھا رہے ہیں،ا نکی کل کائینات وہی مخصوص عملیات ہیںجو صاحب قبر سے وراثت میںملے انہیں کھوج پھٹک کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کہ بس جو روایت کیا وہی حرز جان بنالیا ،کتب کا بھی یہی حال ہے کہ وہی مخصوص عملیات و و ظا ئف نقل در نقل چلے آہے ہیںاگر کوئی تبدیلی ہے تو صرف مصنفین کے نامو ں کی ہے عمل وہی روایت کئے جارہے ہیں آخر کیوں؟