سخن ہائے گفتنی۔
روح ایک ایسا موضوع ہے جو دنیا کے ہر خطے اور ہر قوم کے لئے اہم رہا ہے۔ایک جنگلی وحشی انسان سے لیکر ایک مہذب ترین شخص تک ہر کوئی روح کے بارہ میں سنے ان سنے دیکھے ان دیکھے تصورات و اعتقادات میں گھرا ہوا ہے۔کچھ است حددرجہ اہمیت دیتے ہیں تو کچھ ماننے کی حد تک تسلیم کرتے ہیں۔
اہل اسلام کا اس بارہ میں خاص نظریہ ہے۔قل الروح من امر ربی۔۔۔کہ روح تو ایک امر ربی ہے۔جس میں کسی فرد و بشر کا عمل دخل نہیں۔آسمانی مذاہب کے پیرو کار اس کی توجیہ اپنے اپنے عقائد کے تصورات کے تحت کرتے ہیں۔ہندومت میں تناسخ کا عقیدہ پایا جاتا ہے۔باربار جنم لینا اور اپنے اعمال کا خمیازہ بھگتنا وغیرہ۔
جب کہ یہودیت و عیسایت اور اسلام میں تناسخ کا کوئی تصور موجود نہیں ہے لیکن روح کا ایک مضبوط
کردار پایا جاتا ہے۔
ہر ایک روح کا نام لیکر اپنا اپنا دھندہ کئے ہوئےہیں۔عاملین امراض کو روحانی قرار دیتے ہیں۔اہل تصور روح کی جلاء دینے کے نام پر طرح طرح کی مشقیں اور چلے وظائف کراتے ہیں۔جب کہ مبلغین کی تحقیق و تدقیق روح پر آکر ختم ہوتی ہے ۔مذہبی لوگ روح کی پرواز و پاکیزگی پر زور دیتے ہیں۔لیکن کچھ لوگ خفیہ انسانی طاقتوں کو بیدار کرنے کے بے شمار طریقے بیان کرتے ہیں ،یہ لوگ اپنے طریقے اور اعمال میں کسی مذہب کو نہیں گھسیڑتے۔اپنی مشقیں دُہراتے ہیں۔ ایک نہ ایک راستہ ایسا تلاشتے ہیں جو ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔
مشرقی لوگ روح کے اعمال میں اپنے مذہبی اوراد و ازکار کو شامل کرتے ہیں جبکہ مغربی لوگ اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے گوکہ وہ اپنے اعمال کو قبول عامہ کی خاطر مذہب اور نیک لوگوں کا حوالہ ضرور دیتے ہیں۔لیکن اسے اس انداز یں نہیں لیتے جس طرح مشرقی لوگ خیال کرتے ہیں ۔
زیر نظر کتاب”روح کی مہم جوئی”ایک عیسائی مصنف کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔وہ کہیں کہیں بائبل کا حوالہ دیتے ہیں۔اور اپنی ضرورت کے مطابق مذہب سے وابسطگی کا اظہار کرتے ہیں۔لیکن ان کی کتاب میں مذہبی انداز میں روحانی اعمال موجود نہیں ہیں۔ایک خاص وجہ یہ سمجھی جاسکتی ہے کہ عمر رسیدہ
لوگ ہی زیادہ تر اعمال روحانیہ کی طرف رجحان رکھتے ہیں۔
اور بوڑھاپے میں جب جسمانی سرگرمیاں محدود ہوجاتی ہیں تو وہ جینے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔بالخصوص وہ لوگ جنہوں نے زندگی بھرپور انداز میں گزاری ہو۔لوگوں کے ہجوم میں خوش رہے ہوں۔بوڑھاپے میں اکے وہ خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔اگر وہ انسانی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے روحانیات کے میدان میں اپنی جگہ بنالیں تو لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ پھر سے شروع کیا جاسکتا ہے۔دو باتیں ہوئیں ایک عمر کی پراگندگی نے انہیں زندگی کی سرگرمیوں سے محروم کردیا ہے۔دوسرا جینے کی خواہش اور لوگوں کا ہجوم جو کہ انہیں قابل قدر نگاہ سے دیکھے کی خواہش۔
حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ انسانی جیسے جیسے بوڑھا ہوتا ہے اس کی خواہشات اور دنیا سے محبت جوان ہونا شروع ہوجاتی ہیں
یہ کتاب آپ کو ایسے طریقے مہیا کرے گی اور ایسی مشقیں بتائے گی جن کی مدد سے ذہنی طورپر آسودگی کا سامان بہم پہنچایا جاسکتا ہے۔
مشرقی عاملین کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ہاتھ کوئی ایسا کلیہ لگ جائے جس کے بل بوتے پر وہ دوسروں سے تفوق حاصل کرسکیں ۔ اس لئے وہ کالے پیلے۔چلے کرتے ہیں۔اور ہر اس عمل کی پرکھ کرتے ہیں جس میں انہیں امید برآنے کی کرن دکھائی دے۔
عملیاتی کتب کا نقص۔
عملیات کے فن پر لکھی گئی کتب اس قسم کے اعمال سے بھری ہوئی ہیں کہ فلاں عمل سے ہمزاد قابو کرلوگے۔فلاں سے جنات سے روابط پیدا ہوجائیں گے۔فلاں روحانی عمل سے کشف قبور حاصل ہوجائے گا۔فلاں سے تسخیر خلائق کا حصول ممکن ہے۔ان ساری باتوں میں خوف ناک بات یہ ہے کہ یہاں مشاہدات کے بجائے منقولات ملتے۔ان کتب میں کئی قسم کے دجل و فریب بھی موجود ہوتے ہیں۔سب سے بڑی خامی یہ کہ اعمال کے ماخذ و مصدر کا حوالہ نہیں دیا جاتا۔دوسری بات یہ کہ ان کے ساتھ ایسے شرائط عائد کردی جاتی ہیں۔جن کا عمل کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔تیسرا فریب یہ کہ انہیں مذہب و مسلک کے رنگ میں دکھایا جاتا ہے۔چوتھا نقص یہ کہ جو باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ان کا مسلک و مذہب بھی اس کی تائید نہیں کرتا۔
بہتر تجویز۔
اگر عملیات کو مذہب و مسلک کا رنگ دینے کے بجائے اسے بطور فن و ہنر اپنا لیا جائے۔عملیات کے میدان میں انقلابی پیش رفت ہوسکتی ہے۔راقم الحروف عملیات کو مذۃب کا حصہ نہیں سمجھتا بلکہ دیگر فنون کی طرح ایک ہنر و فن سمجھتا ہے۔اپنے مدعا کے ثبوت میں کئی کتب لکھی ہیں جیسے”جادو جنات کا طبی علاج””جادو کی تاریخ”جادو کے بنیادی قوانین اور ان کا توڑ” وغیرہ۔زیر نظر کتاب بھی اس کی تائید کرتی ہے۔
سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد وورچوئل سکلز پاکستان کے پلیٹ فارم سے طب و عملیات پر دوسو کے قریب کتب ڈیجیٹل فارمیٹ میں شئاع ہوچکی ہیں۔ادارے کی نمائندہ ویب سائٹس۔
1۔www.tibb4all.com…۔۔2www.dunyakailm.com ۔پر اپلوڈ کردی گئی ہیں۔۔کتابوں کی فہرست کتاب کے آخرمیں دیدی گئی ہے۔
کتاب مطالعہ کرنے والوں سے التماس ہے میرے والدین اور بیٹے سعد یونس مرحوم کو اپنی دعائوں میں ضرور یاد رکھیں ۔مطالعہ کرنے والے اپنی رائے کا ضرور اظہا ر کریں۔تاکہ بہتر سے بہتر کتب پیش کی جاسکیں۔
خیر اندیش۔طالب دعا۔
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان