حضرت زید بن حارثہ(رضی اللہ عنھما)
( فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا )(الاحزاب)
واحد صحابی جن کا قران کریم میں نام آیا ہے
حضرت زید بن حارثہ(رضی اللہ عنھما)
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
حکیم بن حزام نے زید کو خرید کر خدیجہ کو ہبہ کیا [اصابہ،السیرۃ النبویہ ص۸۷ج۲ اسلام زید بن حارثہ] انکے فضائل میں یہ بھی ہے کہ عبد اللہ بن دینار کہتے ہیں میں نے عبد اللہ بن عمر سے سنا کہ جب نبیﷺ نے اسامہ کو امیر لشکر بنایا تو لوگوں نے اعتراض کیا تو نبیﷺ نے فرمایا لوگوں کا کیا ہے انہوں نے تو انکے والد کی امارت پر بھی اعتراض کیا تھا جبکہ اس کا باپ مجھے لوگوں میں بہت پسند تھا اور اب اس کے بعد اس کا بیٹا مجھے پسند ہے[ بخاری المناقب ،مسلم ص۴ ۸ ۸ ۱ ج ۴ باب فضائل زید بن حارثہ ،فضائل صحابہ ابن حنبل ص۸۳۴ج۲]فضائل صحابہ لنسائی ص۲۴ج۱
لیکن مستدرک حاکم ص۳۳۵ج۳ ]میں جو روایت ہے اس کے مطابق حضرت خدیجہ ؓ نے زید کو چار سو دراہم میں خریدا اور نبیﷺ کو ہبہ فرمایا،حسن بن اسامہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے باپ سے کہ حارثہ بن شراحبیل نے قبیلہ طے کی ایک عورت سے شادی کی اس سے اسماء و زید پیدا ہوئے،تو زید کی وفات ہوگئی پیچھے اولا د چھوڑی…
کچھ دنوں کے بعد تہامہ کے بنی فزارہ نے قبیلہ طے پر حملہ کیا اور لشکر کشی میں انہوں نے زید کو اُٹھا لیا اور عکاظ کے بازار میں فروخت کرنے کے لئے لے آئے تو نبی ﷺ نے بعثت سے پہلے زید کو دیکھا اور خدیجہ کے پاس تشریف لائے کہ اور فرمانے لگے اے خدیجہ ؓ میں بازار میں ایک غلام دیکھا ہے اس کی یہ خوبیاں اور ایسی صفات ہیں میں نے اسے عقل وادب جمال وکمال سے مزین پایا ہے اگر وہ مجھے مل جائے تو بہت خوب ہوتو ورقہ کو خدیجہ نے اپنے پیسے دیکر بھیجا کہ جاکر اس غلام کو خرید لائے ،اسکے بعد خدیجہ ؓ نے بطبیعت خوش زیدکو نبیﷺ اپنے خاوند کو بخش دیا [مستدرک ص۲۳۵ج۳]
آگے چل کر انکے والد اور چچا کی آمد اور زید کو ساتھ لیجانے کا مطالبہ اور زید کا اپنے والد کے ساتھ جانے سے انکار اور دیگر تفصیلات درج ہیں [سیرت الحلبیہ ص۴۳۸ج۱] میں ہے کہ زید کی عمر اس وقت آٹھ سال تھی ایک روایت میں ہے کہ چار صد درہم میں خریدااور دوسری میں سات سو دراہیم لکھا ہے…
ہ سے رایت ہے کہ ایک بار نبیﷺ بہت خوش اور مسرور گھر میں داخل ہوئے میں نے اس خوشی کا سبب پوچھا تو فرمانے لگے :مجزر المدلجی اسامہ اور اس کے بیٹے زید کے پاس سے گذرا وہ دونوں سوئے تھے اور منہ ڈھکا ہوا تھ اور دونوں کے پائوں ننگے تھے جو لحاف سے باہر تھے تو اس نے دیکھ کر کہا یہ قدم ایک دوسرے سے ہیں [یعنی یہ باپ بیٹا ہیں] اس بات پر مجھے بہت خوشی ہوئی ][المبسوط لسرخسی۱۷/۶۵]
یہ اس لئے اہمیت کی حامل ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کو وقتی نظریات اور رسوم کی کتنی اہمیت ہوتی ہے حالانکہ نبیﷺ کو اس کی کیا ضرورت تھی ، لیکن جو لوگ اسامہ اور انکے بارہ میں شکوک کا اظہار کرتے تھے کیونکہ ان پاب بیٹے کے رنگ میں فرق تھا اس لئے لوگ طرح طرح کی باتین کرتے تھے ،اسی بات کی خوشی تھی کہ کفار جو قیافہ شناس لوگوں کی باتوں کو بہت زیادہ اہمیت دیا کرتے تھے ان ک،ی زبانین بند ہوجایئں گی ورنہ مسلمانوں کو تو اس کی ضرورت ہی کیا تھی جب نبیﷺ کو ان سے کوئی شکایت نہیں تھی…