مرن سوپہلے بھی کندھان کی ضرورت پڑے ہے۔
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
زندگی کا اتنا رخ ہاں گِنن پے آئو تو حد رہ جائوگا۔زندگی نام ای ایک دوسرا سو تعاون کرن کوہے۔جو لوگ سوچا ہاں کہ ہم نے کائی کہا ضرورت ہے؟ وے غلط سوچاہاں اگر دوسران کی ضرورت نہ ہوئے تو ایک معاشرہ دھواں کی طرح فضاء میں بکھر جائے۔کدی سوچو ہے جا لباس اے پہرو ہو اُو کہا تم نے بنائیو ہے؟ایک دھاگہ بنانا کے مارے کتنو نظام ہے کتنی افرادی قوت کام کرری ہے۔کہاں کہاں سو کون کون سو سامان آرو ہے؟
لتا کپڑا تو دوسرا کی بات جا نوالہ اے منہ میں لیکے جارا ہو۔یائی کا بارہ میں سوچ لئیو کہ ای تہارا منہ رک کیسے پہنچو ہے۔ایک نوالہ کے مارے بیج۔کھیت باری زمیندار کی محنت۔سو لیکے روٹی بنانا تک پھر تہارے آگے دھرنا تک قدرت نے کتنو نظام بنا ئیو ہے۔پھر بھی تہارو خیال ہے کہتم نے کائی کی ضرورت نہ ہے؟
نظام حیات کچھ ایسے کام کرے ہے جیسے انسانی جسم۔،اگر ایک رَگ میں بھی درد ہوجائے تو پورو جسم تڑپ جاوے ہے۔ ہم نے کدی یا میں فرق نہ کرو ہے کہ سر درد ہوئے تو دوائی لے لئیو ۔پائوں میں درد ہوئے و مت لئیو؟جتنی تکلیف سر درد کی محسوس کرو ہو ایسی ای تکلیف پائوں میں ہون والا درد کی کرو ہو ۔کیونکہ سر کی اہمیت اپنی جگہ لیکن زندگی میں پائوں کو بھی ایک جاندار کردار ہے۔
یائے بھی پڑھو
میو قوم میں خدمت کو جذبہ۔
بس یہی انسانی معاشرہ ہے۔کہ کوئی سر کی جگہ ہوئے(مالدار۔عہدہ دار)یا کوئی پائوں کی جگہ ہوئے(نوکر چاکر۔غریب نادار)ہر کوئی اپنو اپنو کردار نبھا واہاں اگر سرباراہ یا دھنیڑی کی جگہ کوئی نادار نردھن ہے تو معاشرہ میں چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنو کردار ادا کرے ہے۔اگر نچلا طبقہ اے سات لیکے چلو جائے تو چلنا میں آسانی پیدا ہوسکے ہے۔گھوڑا سوا ی میں اگر کاٹھی لگام ضروری ہے تو تیہ نال(کھری) بھی اتنی ہی ضروری ہے۔یا پھر نوں سمجھ لئیو کہ۔قیمتی گاڑی کی آرام دہ سیٹ کو سب دھیان راکھاہاں لیکن واکا ٹارئر
(پیہ)بھی اتنی اہمیت راکھاہاں جتنی سیٹ کی ہے۔
میو قوم میں سارا طبقات موجود ہاں ۔پڑھا لکھا بھی ہاں ۔اَن پڑھ اور گنوار بھی ۔مالدار دھنیڑی بھی ہاں۔کنگال نردھن بھی ہاں۔لیکن ہر کوئی اپنو اپنو کردار ادا کررو ہے۔اگر دونوں اونچا نچلا طبقہ مین رابطہ پیدا ہوجائے تو بہتر انداز میں ترقی کو سفر ممکن ہوسکے ہے۔مالدار اپنی مالی حیثیت سو آگے آواں اور غریب لوگ افرادی قوت اور ہنر مندی کا اعتبار سو آگے بڑھا ں ۔جو جا میدان میں مہارت راکھے ہے اپنی خدمات قوم کے مارے پیش کردئے۔جب دھنیڑی مال پیش کرنگا اور غریب محنت کرنگا تو دونون کو فائدہ پہنچے گو اور قوم جلدی ترقی کرے گی۔
یائے بھی پڑھو
ضروری تو نہ ہے کہ ہدیران کی منجھی کو ای کندھا دئیو۔ای تو سبن نے پتو ہے مردہ کی کھاٹ اے غریب لوگ ای اٹھاواہاں۔مرن سو پیچھے جو کھاٹ کو کندھا دینو ہے واکندھا اے زندان کے مارے پیش کردئیو تو قوم کو بہت بھلو ہوجائے گو۔