بگڑا میو ن کی بگڑی عادت
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔
میو قوم اپنی مخصوص شناخت راکھے ہیں بڑا بوڑھا بتاواہاں کہ ۔میو قوم میں ایک دوسرا کو احساس بہت زیادہ ہو۔دکھ درد میں ایک دوسرا کا بارہ میں سوچے ہا۔خوشی غمی میں ہاتھ بٹاوے ہا۔اولاد کے مارے فکر مند رہے ہا کہ کوئی ایسو ککرم نہ کردیوے کہ بھائی برادری میں ناک کٹ جائے۔میون کی اپنی ثقافت اور روایات رہے ہی اپنا رہن سہن تہذیب و روایات پے خوش ہا۔میو قوم مالی لحاظ سئ کوئی قابل رشک قوم
نہ ہی ۔گزارو ہو روکھی سوکھی کھاکے اللہ کو شکر ادا کرے ہی۔
ہولے ہولے اللہ نے میو قوم کی حالت بدلی۔یہ لوگ نردھن سو دھوان کردیا.ن پڑھن کی اولاد صاحب علم کردی۔بیلا نکمان کی جگہ کاروباری مواقع میسر آیا۔چٹنی روٹی کی جگہ لگان چیون اچھو کھان لگ پڑا۔باجرہ۔گوچنی،جو۔گیہوں کی روٹی کے بجائے۔نان۔شوارما۔برگر کھان لغگ پڑا۔ان کا محنتی اور سخت ہاتھ میمن کی طرح نرم و نازک اور پوپلا ہوگیا۔
یائے بھی پڑھو
ایک نسل کی عادت دوسری نسل میں سرایت کرجاواہاں۔ماں دادا،دادی،نانا ۔نانی ۔چچا ۔پھوپھی۔بڑا بوڑھا اپنی جوانی پر اور گزری زندگی اور قومی عادات و خصائل کا بارہ میں نونہال نسل کو بتاواہاں۔
لیکن موقوم میں ایک کمزوری رہی ہے اور آج بھی ہے۔اچھی باتن نے یاد راکھے ہے۔لیکن عمل گندی اور بری
یائے بھی پڑھو
باتن پے کرے۔۔دیکھو ہمارا بڑان نے کچھ اپنی نیکی بتائی کہ میو قوم سو تبلیغی جماعت کی شروعات ہوئی۔ای بات سبن نے پلے باندھ لی۔لیکن تبلیغی جماعت کو مشن اور غرض و غایت کہا ہی ۔میون نے بھلادی۔
بیاہ بدو پہلے بھی ہوتا آیا۔آج بھی دھڑا دھڑ ہوراہاں۔میون نے کائی بات میں ترقی کری یا نہ کری لیکن اولاد پیدا کرن میں مخلص رہاہاں۔بہت اچھی بات ہے لیکن اولاد پیدا کرکے تربیت کرنو بھول گیا۔مجموعی طورپے دیکھو جائے تو۔میون میں اچھی اور بہتر عادت۔ایثار ہمدردی۔دکھ درد کم پائیو جاوے ہے۔جب کہ ٹانک
کھچائی۔مقدمہ بازی ۔ناک کھڑی راکھنو۔لڑائی جھگڑا میں بہت گھنو ہے۔
سوشل میڈیا۔کا ذریعہ سو ایک میون کا بیاہ کی تشہیر دیکھی۔کہ سو من گھی لگو۔پانچ ہزار کا نوٹ لٹایا گیا۔جتنا اوندھا کام کرا جاسکے ہا۔یا اُن سو ہوسکے ہا ،انن نے کرا۔بتائیو کہ کڑوڑوں روپی ہ کڑچ کردئیو۔
میو قوم کی مہنگی ترین شادی ہوئی اور ریکارڈ توڑ دیا۔
بہت بھلو۔موکو ایک بات کوئی سمجھا سکے ہے کہ یا نکاح سو کہا ناہر کا بچہ پیدا ہونگا؟
اگر نکما اور نٹھلا بہت سے دوسرا میون کی طرح اولاد پیدا کرنی ہے تو ای تو سادہ سا نکاح سو بھی ہوسکے ہی۔
۔کاش میو جیسے مال میں موقوم آغے بڑھی ہے،سوچ اور بہتری کا معاملہ میں آگے قدم بڑھاتی۔
یا شادی میں جتنی رقم خرچ ہوئی۔جن پے ہی اُنن نے کردی۔ممکن ہے وے سوچ را ہونگا ۔
ہماری دولت ہی ۔ہم نے خرچ کردی۔کائی اے تکلیف کیوں ہوئے؟ہم مختار ہاں ۔
بے شک مختار ہو لیکن یائی رقم اے قوم کی فلاح و بہبود پے خرچ کردی جاتی کوئی ادارہ۔
کوئی فلاحی کام کردیو جاتو۔اوپر تختی لگا دی جاتی کہ فلاں کی شادی کا خرچ سو ایک منصوبہ بنائیو گئیو ہے
تو میو قوم کی تاریخ میں نام لکھواتا۔دوسرو آن والی نسل کو تہاری بسل بتاتی کہ ہمارا باپ دادان نے ایک منصوبہ بنائیو ہو
ایک اہم سوال
یا بیاہ سو یہ میو دوسران میون کو کہا پیغام دینو چاہاں؟
اگر سادہ طریقہ سو نکاح کردئیو جاتو ۔بالک تو پھر بھی پیدا ہوجاتا ۔
لیکن یا فضول خرچی کی وجہ سو غریب بیٹی والان کے مارے جو کانٹا بویا ہاں ۔ان کو جواب دینو پڑے گو
یائے بھی پڑھو
میو قوم بہادر(1857) اورمیوات کا شہداء
لمحہ فکریہ۔
وے لوگ جو میو قوم کا دکھ درد کے مارے رات دن بے چین رہواہاں۔
انن نے بھی منہ میں دہی جمالیتی ہے۔مجال ہے جو میو قوم کی خرافات ایک بھی بولاں