Ulama e Hind ka Shandar Mazi By Maulana Muhammad Mian علماء ہند کا شاندار ماضی
علماء ہند کا شاندار ماضی بھارتی دیوبندی عالم محمد میاں دیوبندی کی لکھی ہوئی علمائے ہند پر ایک کتاب۔ اس کتاب میں علمائے ہند کے کارناموں کو بیان کیا ہے، اس سے انگریزی حکومت کو غصہ آیا، کتاب ضبط کر لی گئی اور مصنف کو جیل میں ڈال دیا گیا، پھر چند دنوں کے بعد رہا ہوئے تو مزید حوصلہ بڑھا اور اگلی کتاب علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے کے نام سے دو جلدوں میں تصنیف فرمائی، عرض یہ ہے کہ مذکورہ بالا کتاب چار جلدوں میں مکمل ہوئی، مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی سے بات شروع کی ہے اور ہندوستان کی آزادی پر لا کر ختم کی ہے، اس درمیان کے تقریباً سارے اہم ترین کارنامے اس میں شامل ہو گئے ہیں، ہندوستان کے تین مجد دین کے کارناموں کو تفصیل سے لکھا گیا ہے، پہلے مجددالف ثانی، پھر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی اوران کے معاصر مین کے علمی اور سیاسی
کارناموں کو ان میں سمیٹا گیا ہے
پہلی جلد[ترمیم]
اس میں مجددالف ثانی اور ان کے معاصرین، خلفاء خلفاۓ خلفاء ، سلطنت مغلیہ کے چارتاج داروں ( اکبر، جہاں گیر، شاہ جہاں اور اورنگ زیب) کے حالات و واقعات کو قلم بند کیا گیا ہے، اس درمیان کی سیاسی، معاشی ماحول میں علمائے امت کی مجاہدانہ اصلاحی سرگرمیوں اوران کے نتائج پرتفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ تصنیف کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”ایک ناکارہ دسر گرداں دیدہ ریزی اور دل سوزی سے ہزار ہا اوراق کو پلٹ کر ایک مجموعہ مرتب کیا ہے …. التجا ہے کہ ہم نے اپنے مقدس کا برکوز بد، تقف، پلی شی، شب بیداری سے خوانی، سعید وریزی کے چشمہ سے دیکھا تو بہت جلیل القدر اور عظیم الشان نظر آئے، آیئے اب مکہ کی مظلومیت، طائف کی مقہوریت، ہجرت وطن، ترک ا تقارب، غارثور کی روایشی، بدر کی نصرت، احد کی شہادت، فتح مکہ کی مسرت بختین وثقیف کی سطوت، تبوک کی شوکت وغیرہ وغیرہ سنن جہاد وسیاست کے چلمن سے نظر ڈالیں، کیسے نظر آتے ہیں؟ ہمارا حال ماضی کا ثمرہ اور مستقبل کا سنگ بنیاد ہے، آیئے تاریخ ماضی سے اپنے مستقبل کے لیے کچھ سبق حاصل کر میں“ ۔ مجدد الف ثانی کے اوصاف حمیدہ، حلیہ اتباع سنت اور اشاعت اسلام کے جذبات کو بڑے ہی اچھے انداز میں بیان فرمایا ہے، علمائے سوء اور صوفیاۓ خام کا بھی ذکر ہے جنھوں نے حضرت مجد دگو دربار میں سجدہ کر نے کا حکم صادر کروایا اور حکم عدولی کی سزا کے طور پر جیل کی راہ دکھائی، مگر حضرت نے جیل میں بھی اشاعت اسلام کا کام جاری رکھا، سارے بدمعاش نیک صفت ہو گئے، رہائی ملی تو بادشاہ نے فوج میں اپنے ساتھ رہنے کا حکم دیا، بادشاہ بھی متاثر ہوا اور حضرت سے معافی مانگی اور مکمل طور پر رہائی دے دی پھر حضرت نے دربار سے قریب لوگوں سے رابطہ کیا۔ بالآ خرا کبری فتنی ختم ہو گیا، ان کی ساری تفصیلات الفرقان مجد نمبر کے تنقیدی تجزیہ کے ضمن میں لکھی گئی ہیں ۔ ای جلد میں ’ ’ تحریک مہدویت ‘ ‘ کا بھی ذکر ہے، سید محمد جون پوری نے مہدی ہونے کا دعوی کیا ، اس کی ابتدائی حالت اچھی تھی ، انداز خطابت پر کشش تھا ، اس سے عبداللہ نیازی اور شیخ علائی بھی متاثر ہوئے ۔ مجددالف ثانی کا زمانہ ۱۰۰۰ ھ / ۱۵۹۱ ء سے شروع ہوا ، اس کے بعد میں سال تک جن اہل علم نے ان کے ساتھ رہ کر خدمات انجام دیں ، ان کی تعداد و وسو سے زائد ہے ، ان سب کے احوال ذکر نہیں کیے گئے ہیں ، جن کا تعلق ہندوستان کی سیاست سے رہا ، یا کم از کم درس و تدریس کے ذریعہ سے اشاعت علم اور اصلاح خلق کی کوشش کی ہے ۔ ان میں مشہور فقیہ ملا جیون بھی ہیں ، جنھوں نے عالم گیر اور ان کے صاحب زادے شاہ عالم کو پڑھایا ، ان کی کتاب نورالانوار دارالعلوم دیو بنداور دیگر مدارس کے نصاب میں داخل نصاب ہے ، مقالہ نگارکو بھی بارہا اس کے پڑھانے کا شرفع حاصل ہوا ہے ، آیات احکام کی تفسیر تفسیرات احمدیہ کے نام سے انھوں نے لکھی بھی بڑی مقبول ہوئی ۔ اس میں ’ ’ فتاوی عالم گیری ‘ ‘ کا بھی ذکر ہے کہ اورنگ زیب عالم گیر نے ملک بھر کے بڑے بڑے فقہاۓ کرام کو جمع فرمایا تھا ، ان سب کا نگراں’’ملا نظام الدین ‘ ‘ کو بنایا ، دولا کھ روپے اس کی تدوین میں صرف ہوۓ ، خود بھی ایک دوصفحہ روزانہ دیکھتے تھے ، موصوف متقی و پرہیز گار تھے ، اپنے ہاتھ سے قرآن کریم کی کتابت فرماتے تھے ، ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن پاک کا چوبیسواں پارہ دارالعلوم دیو بند کے کتب خانے میں محفوظ ہے ۔ مقالہ نگار نے بارہا اس کا مشاہدہ کیا ہے ۔ پہلی جلد کے تیار کرنے میں موصوف نے بیالیس مآخذ سے استفادہ کیا ہے ، ان سب کی تفصیلات فہرست مضامین سے پہلے موجود ہے ، طوالت کے خوف سے ان کو قل نہیں کیا جا تا ہے ۔
دوسری جلد[ترمیم]
دوسری جلد میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے سیاسی اور اقتصادی نظریات ان کی تعلیم وتربیت کے مرکز ، حضرت شاہ عبدالعزیز کی سیاسی خدمات ان کے فتوئی اور اس کے قوی ترین اثرات کا ذکر ہے ، اسی طرح حضرت شاہ محمداسماعیل شہید اوران کے رفقائے کار کے مجاہدانہ کارنامے بیان کیے گیے ہیں ، اٹھار ہو میں اور انیسویں صدی کے نصف اول کا سیاسی ماحول ، شاہان اودھ ، حافظ رحمت خان شہید ، روہیلے اور مرہٹے ، مرہٹوں کی قلیل ترین حکومت کا بھی ذکر ہے۔اسی طرح لفظ وہابی ‘ ‘ کی تشریح بھی کی گئی ہے : ی لفظ ہندوستانی زبان کی ڈکشنری میں انیسویں صدی ہی میں داخل کیا گیا اور اس مذہبی لفظ سے وہ عظیم الشان سیاسی مقاصد حاصل کیے گیے جو لاکھوں انسانوں کی قربانی اور کروڑوں اربوں روپے کے خرچ کرنے سے بھی نہیں حاصل ہو سکتے تھے ۔ نجد کے ایک شخص محمد بن عبدالوہاب نے محمد بن سعود کے ساتھ حرمین شریفین پرحکومت کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اس وقت کی حکومت جو شریف حسین مکہ کے ہاتھ میں تھی ، اس کو باغی اور حرمین کا مخالف کہ کر بدنام کیا ، حجاج کرام کے درمیان حکومت اسلامی کا باغی قرار دے کر شہرت دی ، وہابی کہہ کر بد نام کیا ، اس طرح پوری دنیا میں ان کولوگ وہابی کہنے لگے ، رفتہ رفتہ عوام میں یہ لفظ بددمین کا مترادف ہو گیا اور گالی کی طرح استعمال کیا جانے لگا ، ہندستان کے رضاخانی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ’ ’ اہل حدیث ‘ ‘ کو وہابی کہنے لگے اور کبھی ’ ’ دیو بندی ‘ ‘ مکتب فکر کے حامل کو بھی کہنے لگے ؛ حالاں کہ ان سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا ۔ اس طرح کی بہت سی علمی اور تاریخی معلومات اس جلد میں موجود ہیں ۔
تیسری جلد[ترمیم]
تیسری جلد میں شیاہ ولی اللہ دہلوی کے کارناموں کا دوسرا دور ذکر کیا گیا ، علماۓ صادق پوراور ان کے پر اسرار مجاہدانہ کارنامے بیان ہوۓ ہیں ، ایک عظیم ترین انقلابی تحریک جس کو ۱۲۷۴ / ۰۱۸۵۷ ھ کا خونی طوفان بھی مٹا نہ سکا ، جس کے لیے انگریزوں کو بار بار فوج کشی کر نی پڑی ، گرفتاریاں ہوئیں ، سزائیں دی گئیں ، حضرت مولا نا عنایت علی غازی کا کارنامہ بھلایا نہیں جا سکتا ، حضرت مولا نا محد جعفر تھانیسری کو سرکاری گواہ بنانے کے لیے بارہ گھنٹے پٹیا گیا ، پہلے پھانسی کا حکم ہوا ، پھر کا پانی میں قید کی سزا ہوئی ، ان کے بھائی مولانا احد اللہ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ، تمام جائداد میں قرق کر کے نیلام کر دی گئیں ، گھر سے عورتوں اور بچوں کو نکال کر مکانات مسمار کر دیے گئے ۔ خاندانی قبرستان کھدوا کر مردوں کو پھینکوادیا گیا ، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے’’وبشر الصابرین ‘ ‘ الخ پڑھ کر تسلی دی کہ شکر کرو ک تم ایسے امتحان کے لائق مطہرے ۔ یہا ہوں یہ جلد پوری ہوئی ہے ۔ حضرت مولانامحد جعفر ٹھانیسری نے ’ ’ تواریخ کالا پانی ‘ ‘ کے نام سے اپنی آپ بیتی لکھی ہے ، جو پہلے نایاب تھی ، کچھ دنوں پہلے دیو بند کے مکتبہ حجاز سے راقم حروف نے حاصل کر کے اس کا دوبارہ مطالعہ کیا بڑی معلوماتی خود نوشت ہے۔
چوتھی جلد[ترمیم]
چوتھی جلد بڑی اہمیت کی حامل ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جلد میں ۱۲۷۴ / ۰۱۸۵۷ ھ کی مکمل داستان موجود ہے ، اس کے سارے اجزا کا باریکی سے جائزہ لیا گیا ہے ، اسباب و وجوہات پر نئے انداز سے بحث کی گئی ہے ، مجاہدین کے کارناموں کو چھوتے انداز میں بیان کیا گیا ہے ، اس میں بہت سے ایسے بزرگوں کا تذکرہ ہے جن کا ذکر دوسری کتابوں میں اتنی جامعیت کے ساتھ نہیں ملتا ہے ۔