کچھ راز اور بھی ہیں!
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
{کائیناتی قوتوں سے استفادہ کرنا شرک ہے؟}
اللہ تعالی نے انسان کی فلاح و بہبود کے لئے کایئنات میںبے شمارقوتیں پیدا کی ہیں جن سے ہمہ وقت انسان اپنی ضرورتیں پوری کرتا ہے ان کی اہمیت کا یہ حال ہے کہ اگر انہیں انسان تک نہ پہنچنے دیا جائے تو انسان کی زندگی اجڑ کر رہ جائے ۔مختلف شعاعیں ۔ گیسز۔موسموں کااختلاف وغیرہ سب ہی ااسی قبیل سے ہیں ،سائنسدانوں کے جدید تجربات کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ انسان کی زندگی کے لئے صرف غذا ہی ضروری نہیں ہے اور بھی بے شمار چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ،مختلف شعاعوں۔روشنی اورمختلف درجہ حرارت کی ضرورت پڑتی ہے۔تخلق کار نے کوئی چیز لایعنی و بے کار پیدا نہیں کی ہے کوتاہ فہمی یا تجربات نہ ہونے کی وجہ سے کسی چیز ظاہر نہ ہوسکے یہالگ بات ہے کسی چیز کا معلوم نہ ہونا اس کے عدم کی دلیل
نہیں ۔
کچھ لوگ اپنے ہم جنسوں سے زیادہ ذہین و طباع ہوتے ہیں انہیں قدرت نے مخصوص صفات اور صلاحیتوں سے نوازا ہوتا ہے،وہ خدمت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں ان کی نگاہیں اور ان کی فہم وہ کچھ محسوس کرلیتی ہے جوعام نگاہوں سے اوجھل رہ جاتی ہیں ۔جنہیں دوسرے لوگ جب تسلیم کرتے ہیں جب انہیں مسلمات کا درجہ مل جاتا ہے ،علوم و فنون کی دنیا میں کچھ چیزیں وہ ہیں جن کا طلسم صرف ماہرین کے سامنے ہی ٹوٹتاہے دوسرے لوگ اس کے ادراک سے قاصر ہوتے ہیں،بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ دوسرے لوگوں کا اس طرف دھیان ہی نہیں جاتا کبھی کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کسی کے آگے ایک کائیناتی راز ظاہر ہوتا ہے لیکن وہ سمجھنے اور اس کی تیہ تک پہنچنے سے قاصر رہتا ہے مگر جب وہ کسی رمز آشنا سے گفتگو کرتا ہے تو اس کے ذہن میں لگی ہوئی ایک گرہ کھل جاتی ہے برسوں سے التوا میں پڑے ہوئے امور سر انجام پانے لگ جاتے وہی ایک کمی ان نظریات و قوانین کیاندر موجود تھی جو اس گفتگو سے دور ہوگئی ۔
کچھ راز اور بھی ہیں
یہ بھی مطالعہ کی جئے
دنیا وہی تو نہیں جو ہمیں دکھائی دیتی ہے اسرار صرف وہی تو نہیں جو ہمیں معلوم ہیں اس کے علاوہ بھی راز سربستہ ایسے موجود ہیں جو معمولی کاوش کے منظر ہیں کہ انہیں تھوڑی سی جدجہد سے آشکارا کیا جاسکتا ہے ،اللہ تعالی نے ہر انسان کو ایک نہ ایک جداگانہ صلاحیت دی ہو جس میں کوئی دوسرا شریک و سہیم نہیں ہے حتی کہ ایک جاہل گنوار اور کم عقل انسان میں بھی کوئی نہ کوئی ایسی انفرادیت موجود ہوتی ہے جس سے عقلاء بھی محروم ہوتے ہیں۔مگر اسے سمجھ نہیں ہوتی اور یہ انفرادی صلاحیت دب جاتی ہے جس کا خود اسے احساس تک نہیں ہوتا،کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے وہ علمی کمال و معلومات بھگارنے کے لئے اور اپنی صلاحیت کا لوہا منوانے کے لئے ہر موضوع پر اظہار خیال کرتے ہیں اور ہر ایک سے بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔جو ان کی فہم سے بالاہو اسکی تردید کرنا بھی اپنا ح سمجھتے ہیں ،ضروری نہیں کہ ان کی ہر بات لائق توجہ ہو ہر آدمی اپنے میدان کا ہی شہسوار ہوسکتا ہے اس کے فن اور تجربے کی وجہ سے مخصوص میدان میں اسے تفوق دیا جاسکتا ہے مگر ہر بات ان کی معتبر نہیں ہوسکتی بہت سے لوگ کسی کو نیک اور صالح سمجھتے ہیں اسے فرشتہ صفت تصور کرتے ہیں اس کی بات کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اسے اپنے نجی معاملات تک آگاہ رکھتے ہیں زندگی کے بہت سے امور میں دعا کے متمنی اور مشاورت کے آرزو مند دکھائی دیتے ہیں۔اسی عقیدت میں ان سے ایسے امور میں بھی مشاورت کرتے ہیں جو درحقیقت ان کی معلومات سے جدا ہوتے ہیں۔ایسے میں پوچھنے والااور بتانے والا دونوں اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔
مثلا ایک انسان کو نیک ۔عالم سمجھ دار اور مسائل فقہ شریعت میں اور تقوی و طہار ت میں اسے مثالی مانا جاتا ہے۔مگر اس کی یہ اکتسابی صفات اس بات کی دلیل تو نہیں کہ اسے ہر میدان میں ایسا ہی مقام دیا جائے۔اس کا حق ہے جو اس نے پڑھا ہے یا جس فن میں اسے مہارت ہے اس میں مقام دیا جائے مثلاََ ایک آدمی مذہبی معالات میں سوجھ بوجھ رکھتا ہے تقوی وطہارت سے بھی متصف ہے اسے اپنے فن میں مہارت حاصل ہے اس سے یہ بات تو لازم نہیں آتی کہ اس سے تمام امور میں مشاورت کی جائے کاروبار میں اس سے مشورہ لیا جائے زمیندارہ کے بارہ میں اس سے معلومات لی جائیں ۔
اگر فصل باڑی بیجنی ہے تو اس کے کے لئے تو ایک زمیندار زیادہ معتبر ہوگا نہ کہ ایک مفتی ۔اکثر معالات مین بے اعتدالی دیکھنے میں آتی ہے کہ ایک مریض جو کہ جادو کا شکار ہے یا پھر اسے ایسی نادیدہ قوتوں نے دبایا ہوا ہے کہ اس کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے ایسے میں وہ کسی ماہر فن جادو کا توڑ کرنے والے کے پاس جانے کی بجائے وہ کسی نیک اور مفتی عالم کے پاس جاتا ہے اس سے اپنے معالجہ کا خواستگار ہوتا ہے۔ایسی صورت میں وہ اپنے اوپر ظلم کرتا ہے دوسری طرف وہ عالم صاحب بھی ظلم پر کمر کسے ہوئے ہیں انصاف کا تقاضاتو یہ تھا اگر جادو کے توڑ اور منفی قوتوں کے حالہ سے نکالنے والے فن سے اسے آگاہی تھی تو بہتر ورنہ وہ مریض کے ساتھ ساتھ اپنے پیشے اور فن کے ساتھ بھی بددنیاتی کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ وہ ایسے میدان میں طل نے کے لئے پر تول رہا ہے جس کے بارہ میں اسے معلومات نہیں وہ اناڑی سرجن کی طرح ہے جو بدن انسانی کے بارہ میں کچھ نہیں جانتا مگر چیر پھاڑ کے لئے مصروف عمل ہے، انصاف کا تقاضاتو یہ تھا کہ پہلے متعلقہ فن میں مہارت پیدا کی جاتی پھر علاج معالجہ کی طرف بڑھا جاتا۔بہت سے مریض جادوئی بلاخیزیوںمیں جکڑاہوتے ہیں وہ ان نیک لوگوں سے رابطہ کرتے ہیں جب کہ یہ اپنی ساتھ اس مریض پر بھی ظلم کرتے ہیں۔نیک ہونے کے یہ معنی تو نہیں کہ لوگوں کی عقیدت سے کھلواڑ کرتے پھریں۔
مخفی قوتوں کا ماہر
دوسری طرف اگر کوئی ایسی صفات سے متصف ہے جو ان مخفی قوتوں کا مقابلہ کرسکتا ہے ان سے ان مخفی طاقتوں سے آشنائی رکھتا ہے اگروہ علاج و معالجہ کرتا ہے اور اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن اس فن کے واعد ایسے ہیں جنہیں معالم صاحب نہیں سمجھتے تو لازم نہی کہ اس پر گمراہی کا فتویٰ لگایا جائے بلکہ چاہئے کہ اس فن میں سوجھ بوجھ پیدا کی جائے۔ضروری تو نہیں دنیا کے ہر فن کے بارہ میں عالم صاحب کی معلومات مکمل ہوں۔
عروج کے دن
قرون اولی میں اہل فہم حضرات نے اجتہاد سے کام لیا اور پیش آمدہ مسائل کو حل کیا وقت کی ضرورتوں کو سمجھا اور ان کا حل پیش کیا طب و حکمت عملیاتی قوانین مقرر فرمائے۔آج کے اہل حل وعقد کو بھی اس بارہ میں سوچنا چاہئے کہ پیش آمدہ مسائل سے کس طرح نبرد آزما ہوا جاسکتاہے،اس کے علاوہ اگر کوئی صاحب عزم و ہمت کایئناتی مخفی طاقتوں کے کام لینے کا ڈھنگ معلوم کرلیتا ہے تو یہ عین رضائے خدا وندی ہے۔جو کام پہلے جادو کے زمرے میں شمار کیا جاتا تھا اور اس کے اظہار کی دوسری صورتیں معلوم نہ تھیں ۔انہیں صرف تخریبی انداز میں استعمال کیا جاتا تھا اور تخریبی ہیولی ہی اس نام سے وابسطہ تھا۔ جیسے پہلے کا انسان سانپ و بچھو کو ایک موزی کے طور پر شناخت کیا کرتا تھا مگر آج اس نظریہ کو مسترد کردیا گیا ہے اور اس کے اتنے سارے مفید پہلو سامنے آچکے ہیں کہ سانپوں کوپالنا ایک صنعت کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔بچھوئوں کو مصنوعی طور پر نسل کشی کے طور پر حاصل کیا جارہا ہے۔ ایسے ہی وہ صلاحتیں جو کبھی صرف تخریب اور برائی کے لئے مخصوص تھیں آج انہیں اس انداز میں برتا جارہا ہے کہ انسانی خدمت کے نئے افق سامنے آرہے ہیں۔