کیا معدہ کی گیس دل کے دورے کا سبب بن سکتی ہے؟
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
اس وقت دنیا بھر ہارٹ اٹیک ایک وباء کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ہر دوسرا انسان دل کی تکلیف میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کو بہترین سہولیات دی جاتی ہیں ہزاروں کی جان بچائی جاتی ہے۔بہت سی تدبیرات بروئے کار لائی جاتی ہیں ۔لیکن معالجین نے تحقیق کا جو رخ اختیار کرلیا ہے۔اس سے انحراف مناسب نہین سمجھتے۔ضروری تو نہیں کہ جو پہلوں نے متعین کردیا وہ حرف آخر بن گیا ۔علمی دنیا میں دن رات نت نئے تجربات کئے جارہے ہیں۔لیکن امراض قلب جس تیزی سے پھیلے رہے ہیں قابل غور ہے۔آکر کوئی کوئی تو ایسا پہلو ہے جو نظروں سے اوجھل ہے۔امراض قلب میں جن اسباب کو مرض کا سبب بتایا جاتا ہے وہ سارے اسباب دور کر دینے کے بعد (یعنی ہر طرح کا علاج کرنے کے بعد) بھی آخر ہارٹ اٹیک ہو جاتا ہے جس مطلب یہ ہے کہ اصل سبب مرض کوئی اور ہے علاج کسی اور کا کیا جاتا ہے۔دیسی طب کیا کہتی ہے آئے دیکھتے ہیں۔
کیا دل کے مریض ھارٹ اٹیک سے ہی مرتے رھیں گے
جہاں تک ہارٹ اٹیک سے موت واقع ہونے کا تعلق ہے اس میں نوے فیصد ریاح کی بندش سے موت واقع ہوتی ہے لیکن ساری زندگی شریانیں اور دل کے تنگ والو کھولنے کی دوائیں کھا کھا کر مریض آخر مر جاتے ہیں نہ تو ان کےبند والو کھلتے ہیں اور نہ ہی شریانیں کا سکیڑ کھلتا ہے لہذا دل کے مریضوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ اپنی دواؤں اور علاج میں ریاح پیدا نہ کرنے والی اور ریاح خارج کرنے والی دوائیں اور غذا ئیں ضرور استعمال کریں تا کہ علاج کے ما وجودہارٹ اٹیک سے نا سکیں اور بلاوجہ ہارٹ سے اپنی زندگی برباد ہونے سے بچا ئیں
اعصاب پر گیس کا دبائو
اعصاب پر اگر ریاح کا دباؤ ہو یا عضلات پر ہو دونوں صورتوں میں فوری علاج ریاج خارج کرنے والی دوائیں ہیں اور مستقل علاج ریاح کی پیدائش بند کرنے والی دوائیں ہیں مریض کو فوری مرض سے نکالنے کے لئے ریاح خارج کرنے والی دوا گیر دیں اور جب ایمر جنسی ختم ہو جائے تو ریاح کیایمرجنسی تونش بند کرنے والی دوا میں دیں۔
اگر اس بحث میں پڑجائیں گے کہ میڈیکل کی اتنی زیادہ ترقی اور جدید منشنری کی موجودگی میں یہ اسباب قلب موجود ہیں توسائنس تو فیل ہوگئی ؟ایسی بات نہیں ہے۔جس رخ پر محققین نے کام ہی نہیں کیا اس بارہ میں انہیں۔مورد الزام کیوں ٹہرائیں؟۔البتہ جب وسائل کا بے دریغ استعمال کرکے جمع پونجی گنواکےٹکا سا جواب مل جائے ۔پھر انہیں کہا جائے کہ آپ گھریلو اشیاء سے علاج کریں تو بصد شکر مان جاتے ہیں ۔
غذائی درستگی۔
دل کے مریض عمومی طورپر پرہیزی کھانا کھاتے ہین ۔معالجین بہت ساری دستیاب نعمتوں سے دست برداری کا کہہ دیتے ہیں ۔اور مریض بلاچون و چرا قبول بھی کرلیتے ہیں۔جو غذائی پرہیز عارضہ قلب لاحق ہوجانے کے بعد اختیار کیا جاتا ہے اگر پہلے اس بارہ میں کسی ماہر غذائیات سے مشورہ کرکے غذائی چارٹ بنوالیا جاتا تو یہ تنگی نہ دیکھنی پڑتی،اور پرہیزی اشیاء بھی کدی مدی کھالینے سے کچھ نہ ہوتا۔لیکن عارضہ قلب لاحق ہونے کے بعد یہ اختیار بھی ختم ہوچکا ہے۔