سونے اور چاندی کے ورق
سونے اور چاندی کے ورق
شبلی بی کام
64 سال پہلے۔ مشیر الاطباء،اپریل1958میں شائع ہونے والا مضمون
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
قیمتی سے قیمتی اور نایا ب سےنایاب اشیا کو جزو بدن بنانے کی خواہش انسان کے اندرہمیشہ کروٹیں لیتی رہی ہے۔ اسی خواہش کے مطابق یونان وروما کے قیاصرنے اپنے کھانوں پر موتی چور، بلور کو کھا یا ۔ قلو پطرہ اور فراعنہ نے اپنے مشروبات میں ہیرے کی کنی کا اضافہ کیا۔ مغل شہنشاہوں نے بادام.ا نڈ ے اد رک کے حلوئوں پر پستے کی ہوائی چھڑکنے کے علاوہ سونے اور چاندی کے اوراق بھی ملیدہ کر کے نوش جان کئے ، اور اسی خواہش کے زیر اثر یونانی اطباء نے مریضوں کےلئے بعض ایسے مرکبات تجویزکئے جن کو نقرئی اور طلائی اوراق پیچیدہ میں آمیختہ کر لیا جانا تھا۔
ورق کس نے ایجاد کیا ؟ …
سو نے اور چاندی کے پتروں کو کوٹ کر ورق بنانے کافن کس نے ایجاد کیا؟ تاریخ عالم پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فراعنہ مصر کے عہد میں تارکشی کا فن توکافی ترقی کرچکا تھا ۔حتیٰ کہ ملکہ قلوپطرہ جب دربار میں آتی تو اپنے چہرے کی دجاہت میں اتنااضافہ کرنے کےلئےتھوڑی پر سونے کے بال ایسے مہیں تاروں کی د اڑھی چپکا لیتی ۔ لیکن سونے اور چاندی کے پتروں کو کوٹ کر ٹ کر ورق بنانے کی ایجاد کا سہرا حکیم لقمان کے سر ہے۔ جن کی حکمت و دانش کا تذکرہ قرآن مجید نے بھی کیا ہے(سورہ لقمان) حکیمصاحب نے اپنے استنباط سے معلوم کیا کہ انسان کا بدن مختلف معدنیات سے مرکب ہے۔ اور دہ صحت مند اسی صورت میں رہ سکتا ہے کہ تمام معدنی اجزاکا مناسب بر قرارر ہے۔ معدنی اجزاء یوں تو سبزی ، فواکہات. گوشت. دودھ ۔انڈوں سے بھی فراہم ہوسکتے ہیں ۔ اگر انہیں براہ راست جسم میں
داخل کیا جائے تو کیسا رہے؟ اس سوال کے پیش نظر سونے اور چاند کی فولادد کے کشتے تیار کئے گئے ۔ اور اسی ضمن میں حکیم ساحب نے سونے اورچاندی کے پتروں کو کوٹ کوٹ اوراق بنائے ۔ جن میں خمیرے ادرمعجون لپیٹ کر مریضوں کو کھلائے جاتے تھے۔
مطلاو مذہب تحریریں۔
سونے اور چاندی کے اوراق صرف کھانے کے کام نہیں آتے۔ بلکہ ان کوگھول کر ان سے کتب مقدسہ کومطلاء و مذہب کرنے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ چنانچہ مغلیہ اور اس سے پہلے کے ادوار میں قرآن مجید کے جو نسخے آب زر سے لکھے گئے وہ آج ہمارے ثقافتی سرمایہ کاقیمتی جزو ہیں۔ آج کل پوری پوری کتابیں تو سونے کے پانی سے شاذ و نادر ہی لکھی جاتی ہیں۔ البتہ سونےکےور قوں سے ان کی چر می
جلدوں پر نام چھاپنے کا رواج برابر پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کھیلوں کے سامان اور چوتوںوغیرہ پر جو سنہری مہر ثبت کی جاتی ہیں۔ ان میں بھی سونے کے اوراق استعمال ہوتے ہیں۔لوگ مسجدوں۔ مندروں اورخا نقاہوں کے گنبدوں یا کلیسوں پر بھی سونے کے اوراق جڑ کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں
۔ چنانچہ لاہور میں سنہری مسجد ،اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی اور امرتسرمیں سکھوں کے دربارصاحب کے گنبدوں پراسی کی نیاز مندی کا کرشمہ دکھائی دیتا ہے۔ ابھی زیادہ مدت نہیں گزری پاکپتن کی خانقاہ کے گنبد پر بھی چارپانچ سونے کے اوراق جڑے گئے تھے جو پاکستانی ورق سازوں کی ہنرمندی کا ثبوت ہے۔ .
ایک سربستہ راز۔
بر صغیر ہند و پاکستان میں ورق سازی نے مغل شہنا ہوں کے دور میں ایک گھریلو صنعت کا درجہ اختیار کر لی
انگریزی عہد میں اسکے مراکز زیادہ تر شمالی ہند میں پھیلے ہوئےتھے جن میں سے آگرہ ۔بنارس . دہلی اور امرت سر کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ قیام پاکستان کے بعد امرت سر(مہلانوالہ) کے کاریگر جن کی تعداد پانچ ہزار سے کم نہیں ہے،ہجرت کر کے پاکستان آگئے ۔ اور عام مہاجروںکی طرح جہاں سنگ
سمائے وہاں بیٹھ گئے ۔ لیکن ان کی بیشتر تعداد گوجر انوالہ ۔ ننکانہ۔ لائل پور(فیصل آباد)۔ لا ہور۔ ملتان حیدر آباد سندھ اور کراچی میں نظر آتی ہے۔
سونے اور چاندی کے ورق تیار کرنے کے لیے جس سامان کی ضرورت ہے اس میں جھلی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس جھلی کی ,دفتریاں بناکر ان میں سونے یا چاندی کے ننھے ننھے پتر رکھ دیئے جاتے ہیں۔ پھر ان کو گھنٹہ دو گھنٹہ تک ہتھوڑے سے برابر کوٹا جاتا ہے۔اگر جھلی کی بجائے کوئی اورغلاف ہو تووہ ہتھوڑے کی ضربوں سے پھٹ جائے۔ لیکن یہ جھلی چھ ماہ تک بخوبی کا م دے سکتی ہے۔بدقسمتی
سے یہ جھلی آگرہ کے سوا برصغیر ہند و پاکستان میں کسی اور جگہ نہیں بنتی ۔ کیونکہ اسے تیار کرنے کا راز صرف صرف ایک قبیلہ کو معلوم ہے جو آگرہ میں چمڑے کی رنگائی کا کام کرتا ہے۔ اورکھٹیک کے نام سے مشہور ہے۔
جھلی بکرےکی کھال کے اُس حصےپر مشتمل ہوتی ہے۔ جو کھال اور اون کے درمیان ہوتا ہے۔ اسے اتارنا ایک خاص فن ہے جو صدیوں سے کھٹیک قبیلہ کے سینوں میں مدفون چلا آرہا ہے ۔ وہ کسی قیمت پر بھی اسےفاش کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے اس خام جھلی کو تیارکرنے کے لئے اسے گرم مصالحوں میں پکایا جاتا ہے۔ اس فن سے پاکستان میں صرف چند افراد آکاہ ہیں۔ اگر خام جھلی کوگرم مصالحوں نہ پکایا جائےتو شاید چاندی کے پترے بھی ان کی گرمی سے نرم ہوکر ور ق کی صورت اختیار نہ کریں ۔چاندی کا پترابنانے کے لئے چاندی تیزابی کو خوب صاف کرکے اسے رولنگ مشین میں بار بار کھینچا جاتا ہے اس کی دس گز کمبی اور 4/1 انچ چوڑی کناری کی صورت میںڈھال لیا جات ہے یہ فن بھی پاکستان میں کسی کسی کو آتا ہے۔۔۔مشیر الاطباء لاہور اپریل 1958۔
2 Comments
I may need your help. I’ve been doing research on gate io recently, and I’ve tried a lot of different things. Later, I read your article, and I think your way of writing has given me some innovative ideas, thank you very much.
Thanks for visiting our website. Feel free to ask any question, we will answer your question.