بچھڑنے والے یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔
از حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔
صبح صبح گائوں جارہاہوں۔آج پھر مجھے ایک جنازہ میں شریک ہونا ہے۔۔
زندگی کا پیہہ یوں ہی گھومتا رہتا ہے۔انسان جینے کے جتن کرتے کرتے زندگی میں کئی بار موت سے آنکھ مچولی کرتا ہے۔زندگی کا سفر نہ تو بتاکر شروع ہوتا ہے نہ اس کے کتم ہونے کی نشان دہی کی جاسکتی ہے۔البتہ کچھ علامات مقرر کرلی گئی ہیں کہ فلاں وقت موت آسکتی ہے جیسے شدید خطرات۔امراض ،حادثات۔نزدگی اور موت لازم و ملزوم ہیں۔ایک کے بنا دوسری کا تصور ممکن نہیں ہوتا۔
کوئی کتنی زندگی لیکر آتا ہے کسی کو معلوم نہیں لیکن جتنی بھی لیکر آئے بہر حال محدود ہوتی ہے۔ایک آدمی نے بیس سال زندگی پائی وہ بھی جس دن سے دنیا میںآیا اپنی زندگی کا آغآز کردیا۔وہ خوش رہے یا رہے ۔صحت مند رہے یا بیمار جب اس کے بیس سال مکمل ہوئے اسے جانا ہی ہے۔یہی حال سو سال والے کا بھی ہے۔
انسان جینے کے لئے موت سے لڑتا ہے ۔لیکن موت تو اس حد حیات کا نام ہے اس تک پہنچا اس کی زندگی کا سب سے بڑا مشن ہوتا ہے۔
صحت و تندرستی اور مالی فراوانی اور وسائل کی دستیابی انسان کے اندر بہت سے اضافی سوچیں پیدا کردیتے ہیں۔یہ چیزں جینے والے کے اطوار و عادات مقرر کرتی ہیں۔
کچھ لوگ نیکی بھلائی اور خدا ترسی اپنا کر خلق خدا کے لئے نفع رسانی کا کام کرتے ہیں،اور کچھ لوگ انہیں باتوں سے خلق خدا کے لئے زندگی کردیتے ہیں۔
مرنا سب نے ہے۔
لیکن کچھ لوگوں کو مرنے کے بعد بھی لوگ یاد رکھتے ہیں۔اور کچھ کو بوجھ سمجھا جاتا ہے ادھر مرا ادھر شکر ادا کیا ۔خلق خدا سکھ کا سانس لیتی ہے۔
میری ڈائری کے کئی اوراق۔اور میرے فوان کی ڈائریکٹری کے کئیی نمبر جنہیں میں بہت احتیاط سے رکھا کرتا تھا آج میرے لئے بےکار ہوچکے ہیں۔انہیں دیکھتا ہوں تو زندگی کی کئی یادیں گھیر لیتی ہیں ۔مٹا سکتا نہیں۔کیونکہ ان سے بہترین گزرے ہوئے لمحات وابسطہ ہیں ۔جن کے لوٹنمے کی سر دست کوئی صورت و امکان
نہیں سوائے ان نمبروں اور اوراق کے۔
کئی شہر اور کئی دیہات جن میں کئی کئی پھیرے رہا کرتے تھے،اب ان کی شکلیں او ر خدو خال بدل چکے ہیں۔کوئی ایسی چیز جسے لوگوں نے بےکار سمجھ کر ترک کردیا ہے۔جب دیکھنے کو ملتی ہے تو ماضی کا دریچہ کھل جاتا ہے۔
بچوں کی شکل بڑھاپے میں ڈھل چکی ہیں ۔جن بچوں کے کانوں میںآزانیں دی تھیں آج ان کےجنازے پڑھانے پڑتے ہیں۔
جن لوگوں سے جینے کی تمنا وابسطہ تھی انہیں اپنے ہاتھوں سے دفناتے ہیں۔
زندگی اور موت کا گہرا کھیل ہر کسی کو کھیلنا پڑتا ہے۔
کچھ کلمات جیسے تو مرجائے۔تیرا کچھ نہ رہے۔ زندگی میں سننا کوئی بھی گوارا نہیں کرتا۔لیکن ۔وقت آنے پر کفن دفن کرتے وقت اطمنان محسوس ہوتا کہ خدا کا شکر ہے اپنے ہاتھوں سے آخری رسومات ادا لرلیں۔۔۔جنازہ میں شریک ہوگیا۔
جب بھی گائوں جاتا ہوں والدین ،بھائیوں اور اہل خاندان۔اپنے بیٹے سعد یونس کی قبر پر ضرور جاتا ہوں۔فاتحہ کہتا ہوں۔
مجھت قبروں کے سناٹے میں بہت اپنایت نصیب ہوتی ہے۔پہروں والدیں اور بیٹے کی قبروں پر سر جھکائے مراقب رہتا ہوں۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ مجھ سے سرگوشی کررہے ہیں۔
زندگی کے الجھے ہوئے مسائل بھی ان کے سامنے کھول کر رکھتا ہوں۔وہاں سے مناسب جوابات اور مسائل کے حل کا اشارہ ملتا ہے۔
جب کبھی زندگی سے اکتاتاہوں سب چھوڑ چھاڑ کر والدین محترمین کی قبروں پر جاکر سر جھکالیتا ہوں ۔ ٹیکنیکی مسائل کے لئے بیٹے سے مشورہ کرتا ہوں ۔یہ لوگ مجھ سے باتیں کرتے ہیں۔ میرے مسائل پر رائے سے نوازتے ہیں۔یا کم از اس الجھی ہوئی دنیا میں مجھے راستے صاف دکھائی دیتے لگتے ہیں۔
اتنا انس ہوگیا ہے کہ اپنی قبر کی جگہ کی نشان دہی کرتا ہوں کہ اگر ممکن ہوسکے تو میرے والد محترم محروم کے بازو میں ایک قبر کی جگہ ہے،میرے لئے مختص کردی جائے۔
پانچ سات قبیرں چھوڑ کر اسی لائن میں میرے بیٹے سعد کی قبر ہے۔سرہانے کی طرف آٹھ دس فٹ کے فاصلے پر والدہ محترمہ آرام فرمارہی ہیں ۔ایک قبر کے فاصلے پر چھوٹا بھائی عباس موجود ہے۔
چاروں طرف گھر کنبہ خاندان موجود ہے۔
یوں لگتا ہے جو چہل پہل گائوں کی گلیوں اور گھروں کے آنگنوں میں تھی اب وہ یہاں منتقل ہوچکی ہے
میری دادی مرحومہ اکثر مجھے پاس بٹھا کر کہا کرتی تھیں ۔جب میں مرجائوں تو میرے لئے دعا کرنا ۔دادی مرحومہ کی بات کانوں میں گونجنے لگتی ہے۔یوں ایک نئی دنیا میں کھوجاتا ہوں۔کئی دنوں تک ذہن سے یہ باتں نہیں اترتیں۔بہت سے کام جنہیں عمومی لوگ بے خطر کرتے ہیں یہ تخیلاتی ملاقاتیں مجھے ان سے باز رکھتی ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے صحٹ و زندگی پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔لیکن اب تو ہلجل اور جکللدی سی لگی ہوئی ہے ۔کہیں ایسا نہ میرے والد محترم کے پاس والی جگہ کسی اور کے حصۓ مین آجائے۔اور مجھے کہیں اور دنا دیا جائے۔۔۔