مسلم اطباء کے انقلابی اقدام
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
ابن خطیب غرناطی کے ہمعصر طبیب ابن خاتمہ(م1369ء ) نے بھی طاعون پر ایک کتاب لکھی، طاعون پر مسلم اطباء کی یہ تحریریں ان رسائل طاعون سے بہتر ہیں جو یورپ میں چودھویں سے سولہویں صدی کے درمیان لکھے گئے ۔
زیر نظر صدی کے حوالےسے مشرق کا ایک اہم نام رشید الدین فضل اللہ (م1318ء) کا ہے، جو ایل خانیوں کا وزیر با تدبیر تھا، وہ بڑا مورخ اور ماہر طبیب تھا، اس نے ایک طبی دائرہ المعارف تصنیف کی، کئ درسگاہیں اور ہسپتال قائم کئے۔
اس کے بعد کی صدیوں کو اسلامی طب کے حوالےسے زوال کی صدیاں مانا گیا ہے، اس کی حقیقت پر کل آخری قسط میں روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گی ۔
علم طب کا ذکر ادھورا رہتا ہے اگر علم الادویا Pharmacy کا بھی احاطہ نہ کیا جائے ۔ لیکن اس طرح تحریر طولانی ہو جائے گی تاہم اپنے مقالے میں اس کا احاطہ کیا ہے ۔
اب تک کے تفصیلی بیان کو یوں سمیٹا جا سکتا ہے کہ علم طب میں یونانی، مسلمانوں کے اساتذہ تھے۔عرب مسلمانوں نے مختلف ذرائع سے تمام و کمال یونانی طب حاصل کرنے کے بعد اس میں گرانقدر عملی و نظری اضافے کئے،اور چونکہ ان کا مذھب بھی اس علم میں معاون تھا اور طب نبوی کے سادہ اصولوں پر وہ پہلے سے کاربند بھی تھے لہذا کسی بندش اور رکاوٹ کے بغیر انہوں نے طبی تجربات شروع کئے، اس راہ میں مزاحم ہونے کے بجائے مسلمان خلفا اور امراء نے اس میں بھرپور تعاون کیا یوں طب اسلامی کی بنیاد پڑی اور مسلمان اطباء تین سو سال تک طب کی دنیا پر چھائے رہے۔
جب بارھویں صدی عیسوی کے قریب مسلمانوں کے قدم اندلس/اسپین سے اکھڑنے لگے اور ان کے علمی مراکز ایک ایک کر کے مسیحی یورپ کے قبضے میں آنے لگے تو ان کی کتابیں، خواہ طب کی ہوں یا ریاضی کی،فلسفہ ہو یا تاریخ، ادب ہو یا سائنس، لاطینی میں ترجمہ ہو کر مغرب منتقل ہونے لگیں ۔
اسپین کا سب سے پہلا شہر، جو مسلمانوں کا علمی مرکز بھی تھا ۔۔۔۔یعنی طلیطلہ Toledo پر 1085پر مسیحی قابض ہو گئے، لا طینی اور مسیحی طلبہ جو پہلے سے یہاں تھے یا قبضے کے بعد یہاں ائے، انہوں نے یہاں عربی علوم و فنون سیکھنے شروع کئے ۔بارھویں صدی عیسوی میں طلیطلہ میں علمی زندگی نے جو صورت اختیار کی وہ کئ اعتبار سے بغداد کے دور ترجمہ سے مشابہ تھی۔جس طرح عباسی خلیفہ مامون الرشید نے دار الترجمہ قائم کیا تھا اسی طرح آرچ بشپ ریمنڈ کے زیر ہدایت ایک دار الترجمہ قائم کیا جو تیرھویں صدی عیسوی تک عروج پر رہا ۔جو کام بغداد میں عیسائی اور صابی مترجمین نے انجام دیا تھا وہی طلیطلہ میں ان یہودیوں نے انجام دیا جو عربی،عبرانی،ہسپانوی اور بعض اوقات لاطینی میں مہارت رکھتے تھے۔ ترجمے میں جو کارہائے نمایاں حنین ابن اسحاق اور اس کے شاگردوں کے ہیں، اسی طرح کے کارنامے جیرارڈ اور اس کی ٹیم کے ہیں۔
جیرارڈ 508ھج/ 1114ء میں اٹلی میں پیدا ہوا، یہ یورپ میں عربیت کا بانی تھا ۔جس طرح حنین ابن اسحاق نے ماہرین علم کو مشرق میں روشناس کرایا تھا، اسی طرح جیرارڈ نے مسلمان اطبا ،علما، حکما اور ادبا کو ترجمے کے ذریعے مغرب میں روشناس کرایا ۔
سسلی یعنی صقلیہ 130 سال تک مسلمانوں کے قبضے میں رہا 1091ء(484ھج) میں اس پر نارمن قابض ہو گئے ۔جزیرہ صقلیہ بھی علوم عربیہ کی اشاعت کا بہت بڑا مرکز تھا ۔یہاں بھی قابل مترجمین کی فوج کی فوج عربی علوم کو لاطینی میں ترجمہ کرنے میں مصروف تھی۔تراجم کا یہ سلسلہ دسویں صدی ہجری/سولہویں صدی عیسوی تک جاری رہا، یونانی اور عربی علوم و ادبیات کے صد ہا تراجم نے یورپ کی علمی تقدیر بدل کر رکھ دی۔
پندرھویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں فن طباعت ایجاد ہو گیا تو علوم و ادبیات کی کتابیں سرگرمی سے شایع کی جانے لگیں ۔
ان تراجم کی وجہ سے، اور مسلمانوں کے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عربی زبان کی علمی حیثیت مجروح ہونے لگی اس کی جگہ پہلے لاطینی اور پھر انگریزی زبان نے لے لی، پھر جب یورپ میں طبع زاد تصانیف کا دور آیا تو یورپ میں “قرون وسطی “کا خاتمہ ہوا اور جدید دور کا آغاز ہوا ۔
طب کے سلسلےمیں علم کا جو سفر یونان سے شروع ہوا تھا، وہ ایران۔۔۔۔عراق۔۔۔۔۔مصر۔۔۔۔۔المغرب سے ہوتا ہوا، اندلس کے راستے دوبارہ یورپ میں پہنچا، جس طرح مسلمان صدیوں علم کی دنیا کے بے تاج بادشاہ بنے رہے اسی طرح کئ صدیوں سے