میو قوم، 14 اگست1947 سے 2024 تک۔
از ۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان۔
تقسیم بر صغیر پاک و ہند کی ہجرت تاریخ کی بہت بڑی ہجرت تھی ۔جب ہندستان کے بطن سے پاکستان کا جنم ہوا تو بےشمار لوگ اس حادثہ سے متاثر ہوئے۔
یہ بھی پڑھئے
مِنی پاکستانhttp://مِنی پاکستان
میو قوم اس تقسیم سے بہت زیادہ متاثر ہوئی۔میوا قوم یا میوات کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ آزاد منش قوم تھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ صدیوں حکمران طبقے نے اس قوم کی طرف سے تعلیم ،وسائل اور انصاف کی نہروں کوطاقت کے بل بوتے پر دہلی کی دہلیز تک محدود کردیا تھا۔حالانکہ دہلی اور میواتکی دیواریں متصل تھیں۔
لیکن میو قوم سے جذبہ آزادی اور ان کی بہادری کوئی نہ چھین سکا۔یہ قوم کھری سچی اور جس بات کو حق سمجھتی اس پر ڈت جانا ان کے خمیر میں شامل تھا۔ہمیں افسوس کے سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہزاروں سے سال اپنا وجود بقرار رکھنے والی میو قوم کے پاس ہزار صفحات کی مستند تاریخ کی کتاب بھی نہیں ہے۔زبانی رویات ان گنت
بہادری کی داستانوں سے بھرے ہوئے۔
یہ بھی پڑھئے
جامعہ ملیہ میں ‘یوم میوات‘ کا انعقاد، سنہری تاریخ کی یادیں تازہ
میو قوم کو غیر ملکی فاتحین سے جو لڑائی لڑنی پڑ وہ یہ تھی کہ وہ لوگ جس مذہب یا جس ملک سے بھی تعلق رکھتے ہوں،بہر حال وہ غیر ملکی تھے۔وہ عرب ہوں یا افغان۔کاکو رانا اور حسن میواتی کی مغلوں کے ساتھ مڈبھیڑ اس کا بین ثبوت ہے۔میوات جہاں بھی رہے اپنی مٹی اور اپنے ملک سے بے پناہ محبت کرتے رہے،
تقیم ہند کے وقت ہجرت کرنے والی سب سے بڑی قوم میو تھی۔یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ دیگر قومیں اس ہجرت میں شریک نہ تھیں یا ان تک اس الائو کی تپش نہ پہنچی تھی۔لیکن میو قوم تو اس الائو میں مکمل طورپر جھونک دی
گئی تھی۔
میو قوم کو تقسیم سے سب زیادہ نقصان ہوا۔
میو قوم اپنے قول فعل کے تضاد سے ناآشنا تھی انہیں جو بھی سچا و کھرا انسان ملا اس کے پیچھے چل دی۔عام طورپر میو قوم کسی کی قیادت و سیادت کو تسلیم کرنا توہین سمجھتی ہے ۔یہ جس حال میں بھی ہو خوش رہتی ہے۔جو قومیں آزاد تو ہوں لیکن قیادت کے بغیر ہو سب سے زیادہ نقصان اٹھا تی ہیں۔یہ حال میو قوم کا بھی ہے۔
آض تک میو قوم کسی قائد و رہبر کی قیادت پر متفق نہ ہو ئی ،کاش تقسیم ہند کے وقت میو قوم کسی ایک کو لیڈر تسلیم کرلیتی تو شاید اتنا نقصان نہ ہوتا۔آج بھی یہ قوم بے قیادت ہے البتہ اس وقت بھی کچھ مخلص لوگ موجود و مستحق تھے کہ سرداری کی پاگ اپنے سر سجاتے۔لیکن نقال و موقع پرستوں کے اس جم گھٹے میں شناخت اس وقت بھی مشکل تھی آج بھی مشکل ہے۔
میو قوم کے لاکھوں افراد پاکستان آئے اور سچے دل سے قربانی دی ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہجر کے اس سیلاب میں جنتا حصہ میو قوم تھا اسے آباد کاریاور ان کے کلیم اور ان کے حقوق میں بھی اتنا ہی حصہ ہوتا۔لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔
میو قوم اپنے اصل مقام سے بھی زمین جائیداد سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔یہاں بھیانہیں انصاف نہ ملا۔یوں اس قوم نے
ایک مقصد کے لئے کئی کئی قربانیاں دیں۔
آج چودہ اگست2024 ہے۔ آج سے ٹھیک 77 سال پہلے میو قوم نے آزادی کے لئے جو قربانی دی تھی اس پر بجا طور پر فخر کرتی ہے گوگہ پاکستان بننے سے لیکر آج تک میو قوم کی چال نسلیں آزادی کی فضائوں میں سانس لے رہی ہیں۔لیکن مغلوں اور انگریزوں سے لڑائی بھڑائی میں جوکردار میو قوم نے ادا کیا لکھنے والوں نے اس کا حق ادا نہیں کیا۔
ورنہ تاریخ میں میو قوم کا مزید اجلا و بہتر کردار ملتا۔
دودروں سے کیا گلہ خود میو قوم نے اپنی تاریخ کو یوں بھلایا جیسے ان کا اپنے ابائو اجداد سے کوئی تعلق نہ ہو۔
آج میو قوم دیگر لوگوں کے ساتھ جشن آزادی میں شریک ہے۔افسوس تو اس بات کا ہے صرف جھنڈیوں اور باجوں کے شور میں اضافہ کا بنے ہیں ۔کاش میو قوم زیادہ پرانی نہ سہی صرف 1947 کسے لیکر آج تک کی تاریخ ہی محفوظ کرلیتے تو یہ نئی نسل جو جشن آزادی کی خوشیوں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔وہ ضرور ان لوگوں کو یاد کرتے جو خاک و خون سے لت پت ہوکر کسمپرسی کی حالت پاکستان آئے تھے۔
ہمارے دادا جان بتایا کرتے تھے جب کوئی قافلہ لڑنے یا کٹنے سے بچ کر حدود پاکستان مین داخل ہوجاتا تو اتنی خوشی ہوتی ممکن ہے آج کی نسل اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر
ایسی بہار اترے کہ جسے اندیشہ خزاں نہ ہو۔
ان لوگوں کو ضرور اپنی دعائوں میں یاد رکھئے ،جو اپنے پیاروں کے خون میں لتھڑے پائو سے سرزمین پاکستان میں داخل ہوئے۔جنہوں نے اپنے پیاروں کو بے بے گور و کفن چھوڑ کے حصول آزادی کا جھنڈا تھاما تھا۔
جو ہوا سو ہوا کوئی بھی قیمتی چیز بے قربانی نہیں ملا کرتی۔انہوں نے تو اپنا فرض بہتر انداز میں نبھایا ،سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم پر جو فرائض عائد ہوتے کیا ہمیں ان کا احساس ہے۔کیا قوم و ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں ؟