روزمرہ کی جڑی بوٹیوں سے کیسےفائدہ اٹھایا جائے
کیا انگریزی کتب اور معالجین پر اعتماد کیا جاسکتا ہے؟
یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ آگے بڑھنے والی قومیں اپنی ضروریات کے پیش نظر کسی سے بھی کہیں سے بھی کچھ بھی حاصل کرنے کے لکئے پہنچ جاتے ہیں۔پھر اس کا برملا اقرار بھیکرتے ہیں کہ ہم نے فلاں چیز فلاں سے حاصل کی ہے۔یہ زندگی اور تحقیق کی صحت مندانہ روش ہے۔جس نے کو کام کیا اس کی اعتراف کرو اس کے حوالے سے بیان کرو۔تمہارے لئے اتناہی کافی ہے حوالہ دینے سے لوگ سمجھ جائیں گے کہ یہ علمی شخصیت ہے۔اور اس کا مطالعہ و مشاہدہ تجربہ دوسروں سے بہتر ہے۔بالفاظ دیگر یہ پڑھا لکھا ہے۔
اس کے برعکس
جولوگ دوسروں کی باتوں کو اپنی تحقیق بتاتے ہیں انہیں وقتی سہارا تو مل جاتا ہے لیکن علمی دنیا میں یہ سرقہ کہلاتا ہے۔جب لوگوں کو اس علمی خیانت و بددیانتی کا پتہ چلتا ہے تواس کی عزت و شہرت کی عمارت دھڑام سے زمین پر آ رہتی ہے۔اس کے بھرم کا بت آں واحد میں پاش پاش ہوجاتا ہے۔اس لئے علمی خیانت و بددیانتی سے بہتر ہے کہ جس کا جو حق ہے اسے دیدیا جائے۔
دیسی معالجین کے لئے انگریزی کتب۔
کچھ لوگ اس بات پر بضد ہیں کہ جو کچھ اہل بند کردیا ہے ہے وہ حرف آخر وہ ماضی کے دریچوں سے جھانکتے ہیں اور اس دریچہ کے علاوہ انہیں دیگر دریچوں سے جھانکنا گوارا نہیں۔اس میں شک نہیں کہ ایلو پیتھی کو اہل مغرب نے اہل بند پر مسلط کیا۔اور دیسی طب کے ساتھ موادانہ رویہ رکھا لیکن ضروری تو نہیں کہ جو چیز بھی ان کی طرف منسوب ہو وہ غلط و مضر پہلو ہی رکھتی ہو۔
روزمرہ کی جڑی بوٹیوں سے کیسےفائدہ اٹھایا جائے
جس طرح اہل ہند علم العقاقیر۔خواص و ادویہ۔غذا و خوراک پر تحقیقات۔جڑی بوٹیوں پر تجربات کا وسیع جہان رکھتے ہیں۔اہل مغرب بھی کسی طرح کم نہیں ۔ان کی کتب اور ان کے مضامین و تحقیقات اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ اس فن مین اہل ہند سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔لیکن ہم ماضی اور کم علمی کو اتنا محبوب بنائے ہوئے ہیں کہ کسی دوسری طرف نگاہ اٹھانا گناہ سمجھتے ہیں۔
ان کتب کا مطالعہ کیوں ضروری ہے؟
علم العقایر وسیع علم ہے۔دنیا بھر میں اس پر کام ہورہا ہے۔نت نئی تحقیقات سامنے آرہی ہیں۔جو چیزیں مفروضات و واہموں پر مبنی ہوتی ہیں انہیں ترک کردیا جاتا ہے۔جو مفید پہلو رکھتی ہیں ان پرتحقیقات و تجربات کئے جاتے ہیں۔یہی وجہ سے کہ روزہ مرہ استعمال کی اشیاء کے وہ پہلو سامنے آرہے ہیں جن کا دیسی کتب میں ذکر تک موجود نہیں ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس وسائل ہیں۔میدان عمل ہے۔لبارٹریز ہیں۔اور جدید سائنسی آلات ہیں۔پھر وہ ایک دوسری کی نقالی کے بجائےاپنی انفرادی رائے رکھتے ہیں۔اپنے تجربات کو خفیہ رکھنے اور صدری راز کہنے کے بجائے شائع کرنے میں زیادہ لطف محسوس کرتے ہیں۔عمومی طورپر انہیں اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ ارسطو۔بطلیموس وغیرہ نے کیا کہا وہ اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ آج کی تحقیقات کے نتائج کیا ہیں۔ہو لوگ عزت کو ان معنوں میں نہیں لیتے کہ صدیوں پرانے لوگوں کی تحقیقات و مفروضات کو من و عن تسلیم کرلیں۔وہ کہتے ہیں جو چیز دکھائی دے رہی ہے جو محسوسات و تجربات کے نتائج ہیں وہ کیا ہیں۔بے دھڑک بیان کرتے ہیں ۔اپنی کتب ان کے مضامین اور ان کی ویب سائٹس اس بات کی گواہ ہیں۔
لازمی نہیں کہ سب ہی اس معیار پر پورا اترتے ہیں کچھ غاصب و نقال سارق بھی ہیں۔لیکن ایک محقق و صاحب نظر کے لئے اس میں بہت سا سامان تسکین موجود ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔