ادویات کے منافع ومضرات کیا ہوتے ہیں؟
از۔۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
جب کسی د وا یا مرکب کے بارہ میں اثرات کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو لکھنے والا اپنے مطالعہ یا مشاہدات کی بنیاد پر لکھتا ہے،وہ منافع و مضرات کو اہتمام کے ساتھ جمع کرتا ہے۔مطالعہ کرنے والا اپنی ضرورت کے تحت بغور مطالعہ کرتا ہے۔دوا ہمیشہ فائدہ کی غرض سے استعمال کی جاتی ہے۔لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوا کھانے سے غیر طبعی علامات یا نقصان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔حالانکہ دوا تو فائدہ کے لئے بنائی جاتی ہے.آئے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
(1)دوا کی ضرورت کیوں ؟
دوا انسان کے لئے مقصود بالذات نہیں ہوتی بلکہ دوا کو بوقت ضرورت کام میں لایا جاتا ہے۔انسان کی بنیادی ضروریات میں کھانا اور پینا ہے ،ان کا اعتدال ہی صحت کا ضامن ہوتا ہے۔جہاں انحراف ہوا یہی غذا بیماری کا سبب بن جاتی ہے۔گوکہ امراض کے کئی اسباب ہوتے ہیں لاحقے ہوتے ہیں ،بیرونی اثرات ہوتے ہیں۔ انہی غیر طبعی اثرات کو زائل کرنے کے لئے دوا تجویز کی جاتی ہے۔غذا یا دوا وہی ٹھی رہتی ہے جو انسانی جسم کی ضرورت کے مطابق تجویز کی جائے۔
(2) انسانی مزاج اور دوائیں۔
انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے مختلف مزاج اور طبائع کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ان کے لئے اسی قسم کی غذائی اور بوقت ضرورت دوائیں رکھی ہیں۔۔جب ضرورت ہو ان سے فائدہ اٹھالیا جائے۔لیکن اگر غذائی طورپر طبیعت میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو دوا کا سہارا لیا جاتا ہے۔دوا مفردات سے بھی ہوسکتی ہے مرکبات بھی ہوسکتے ہیں۔یہ معالج حاذق کی تجویز ہے کہ وہ مفرد سے کام لیتا ہے یا مرکبات کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔جس انداز میں بھی ضرورت کی تکمیل ہو ،پوری کرنا ہی علاج کہلاتا ہے۔
(3)لمبے چوڑو ے نسخوں کی حقیقت ۔
اس وقت مختلف طریقہائے علاج رائج ہیں۔سب کو جمع کیا جائے تو ایک لمبی فہرست مرتب کی جاسکتی ہے۔من جملہ ان میں سے ۔دیسی طب۔ایلو پیٹھی۔ہومیو پیٹھی۔وغیرہ زیادہ معروف ہیں۔
اس میں ایلو پیتھی اپنی ادویات کے فوائد و مضرات ایک کتابچہ کی صورت میں لکھ کر دوا کے سات
پیک کردیتی ہے۔اس کے مطالعہ سے دوا کی افادیت و مضرات کی سمجھ آجاتی ہے۔عمومی طورپر ایک مرض کے لئے ایک دوا تجویز کی جاتی ہے۔
اپنے فارماکوپیا میں تو بیان کرتے ہیں لیکن ہر دوا کے ساتھ اس قسم کے لٹریچر کا اہتمام نہیں کرتے عمومی طورپر ان کے ٹینکچر ایک دو اجزاء پر مشتمل ہوتے ہیں۔انہیں مفردات کی کتب میں دیکھا جاسکتا ہے۔اس کے مفید و مضر پہلو کا مطالعہ آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔
دیسی طب۔
یہ فطرت کے قریب ترین ہے ،کیونکہ جہاں غذا یعنی اناج اگایا جاتا ہے انہیں کھیتوں میں جڑی بوٹیا ں ہوتی ہیں وہی جڑی بوٹیاں اس اناج سے پیدا شدہ امراض کا علاج ہوتی ہیں یعنی قدرت نے غذا کے ساتھ امراض کا حل بھی اسی کھیت میں رکھ دیا ہے۔
لیکن اطباء حضرات نے اپنے نسخہ جاتا میں اتنے زیادہ اجزاء شامل کئے ہوتے ہیں کہ ان کی فہرست دیکھ کر پنساری بھی سر پکڑکر بیٹھ جاتا ہے۔راقم الحروف کی نظروں سے ایسے نسخے بھی گزرے ہیں جن کے اجزاء سینکڑں سے بھی متجاوز تھے۔
یہ بھی مطالعہ کیجئے
یہاں اگر اطباء کرا م ٹھوکر کھاتے ہیں، وہ نسخہ جات کے اجزا میں جو مفردات شامل کئے ہیں ،ان سے کے انفرادی فوائد لکھ دئے جاتے ہیں۔یوں ایک نسخہ اجزاء اور فوائد کے لحاظ سے ایک کتابچہ کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔پڑھنے والا سمجھتا ہے اگر یہ نسخہ تیار کرلیا تو زندگی بھر کے امراض کا خاتمہ ہوجائے گا۔جب جہد بسیار کے بعد تیار کرلیا جاتا ہے تو فوائد کے اعتبار سے وہی ڈھاک کے تین پات! ۔یہی حکمت کے زوال کے اسباب سےبہت بڑا سبب ہے۔ غیر حقیقی نسخہ نویسی۔اور غیر طبعی و غیر ضروری فوائد کی فہرست۔
راقم الحروف لمبے چوڑے نسخہ جات کو دیکھتے ہیں کتاب کا اگلا صفحہ پلٹ دیتا ہے۔مطالعہ کو بھی وقت کا ضیاع سمجھتا ہے۔۔۔
بقیہ اگلی قسط میں