محرم الحرام کی حقیقی روح۔
از حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔
اسلامی دنیا میں عملی زندگی اور حقیقی اقدامات کو فراموش کردیا گیا ہے ۔لیکن انسانی جذبات تو جینے کے لئے کسی نہ کسی چیز کا تقاضاکرتے ہیں۔جینے کے لئے معاشرتی رنگینی زندگی کی چہل پہل کے لئے کچھ مواقع درکار ہوتے ہیں ۔یہ مواقع ہلہ گلہ کی شکل میں ہوں یا پھر مذہبی صورت میں ۔بہر حال ان کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔
خواہش اور مذہب
یہ خواہش اس وقت شدت اختیار کرجاتی ہے جب مذہب یا کسی معاشرتی پیغام کی حقیقی روح کو ترک کردیا جائے ۔اور من چاہے انداز میںکچھ رسومات کواپنا لیا جائے۔جب رسومات اور من گھڑت باتیں کہیں در آتی ہیں تو اصل روح کو دھکیل کر اپنی جگہ بناتی ہیں۔مثلاََ ایک دینی فریضہ نماز ہے۔روزہ۔زکوٰۃ۔حج صدقات و خیرات صلہ رحمی،معاشرتی حقوق کی پاسداری۔وغیرہ یہ سب باتیں ایک معاشرہ تشکیل دیتی ہیں،لیکن جب انہیں چھوڑ دیا جائے تو ایک خلاء پیدا ہوجاتا ہے اس خلاء کو پُر کرنے کے لئے رسومات بدعات اور لایعنی باتوں کو اپنا لیا جائے۔وقت کے دھارے میں جب ایک نسل اپنا وقت پورا کرکے فنا کے گھاٹ اترتی ہے تو آنے والی نسل ان رسومات کو مذہبی درجہ دیتی ہے۔انہیں بلاجھجک اپنا لیتی ہے۔ساتھ میں گزری ہوئی نسل کے افعال و قوال۔کو بطور دلیل پیش کرتی ہے۔اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس سے حقیقی پیغام کو نقصان پہنچتا ہے کہ نہیں۔؟
یوں چند دیہائیوں بعد دین و مذہب میں پیدا شدہ رسومات خود مذہب کی جگہ براجمان ہوجاتی ہیں ۔جو جذبات مذہب ۔دین کی حمایت کے لئے ابھرا کرتے تھے اب وہ ان رسومات کی حفاظت اور ان میں بڑھوتری کے لئے موجزن ہوتے ہیں۔
اس وقت عمومی طورپر مسلمانوں کا جائزہ لیا جائےتو دین سے زیادہ رسومات پر مفتون ہیں۔جہلاء یا عوام الناس تو رہے ایک طرف سطحی الذہن علماء بھی ان رسومات کے محافظ بن جاتی ہیں ۔رفتہ رفتہ جید سمجھنے جانے والے لوگ بھی خاموشی اختیار کرلیتے ہیں، عوام ان کی خاموشی کو بطور جواز پیش کرتے ہیں۔
اس وقت ہمیں دین اور دینی ذمہ داریاں اور عائدہ کردہ فرائض اور تفویض کردہ ذمہ داریاں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔کچھ لوگ تو اپنے مسلکی و مذہبی رسومات و معاملات کے پرجوش مبلغ اور دافع ہیں بنے ہوئے ہیں کچھ لوگ سمجھ دار ہیں لیکن مصلحت و مفادات آڑے آتے وہ چُپ سادھ لیتے ہیں۔
اس وقت محرم الحرام کے سلسلہ میں عجیب و غریب قسم کی رسومات۔واقعہ کربلاء پر غیر ذمہ دارانہ بیان بازی۔پورے نظام زندگی کا تعطل اس بات کا ثبوت ہیں کہ کربلاء والوں کے نام پرجو کچھ کیا جارہا ہے حقیقی روح اور عائد ہونے والی ذمہ داریوں کے خلاف ہے۔حقیقت سے انکا کوئی تعلق نہیں ہے۔
عمومی طورپر لوگ اہلبیت اطہار صلوٰۃ اللہ علہیم اجمعین پر ہونے والے مظالم اور ناخوشگوار واقعات کو فرط جذبات سے حقیقی و غیر فطری انداز میں پیش کرتے ہیں ۔۔۔دوسرا طبقہ فریق ثانی کے دفاع میں
گفتگو کرتے ہیں۔
دونوںکا انداز گفتگو بے جوڑ ہوتا ہے۔مثلاََ جن مفاسد ات کو روکنے کے لئے یہ حادثہ فاجعہ وقوع پزیر ہوا۔وہ کیا تھے؟۔۔امام حسین رضی اللہ عنہ کن اعمال کے پابند تھے؟ اور کن باتوں سے منع کرنے تشریف لائے تھے۔؟۔۔جب پوچھا جاتا ہے تو امام حسین اور اہلبیت اطہار کی مظلومیت اورکردار کو عجیب طریقے سے پیش کیا جاتاہے؟
سوچنا یہ ہے کہ جو پیغام حسین لیکر تشریف لائے کیا مبلغ و مدعی ومحبت حسین اس پر کار بند ہے۔جن کاموں کو یزید کرتاتھا سے رکے ہوئے ہیں؟مثلاََوہ شرابی تھے۔حقوق کی پامالی کرتے تھے۔غاصب تھے۔نبی ﷺ کی دین کو منہدم کرنے کے اقدامات میں ملوث تھے وغیرہ وغیرہ۔
دوسری طرف حسین و اہلبیت کا روشن کردار ہے ۔آخری سجدہ میں بھی وہ اپنے عقائد و نظریات پر پابند رہے نماز نہ چھوڑی۔جماعت کے ساتھ نماز اداکرتے تھے۔ستم بالائے ستم کہ مخالف لوگ بھی آپ کے پیچھے نمازیں اداکرتے تھے۔ عبادات کو دیکھا جائے ۔تلاوت قران او ر تسبیحات کی طرف توجہ کی جائے تو فریق مخالف کچھ کم نہ تھا۔لیکن نظریات و پیغام میں متصادم تھے۔جمعہ کے دن جمعۃ مخالف فوج نھی امام حسین کے پیچھے جمعہ ادا کیا تھا؟
کرداری طورپر دیکھا جائے توعمومی طورپر لوگ امام حسین کے افعال و کردار اور ان کی پاکیزہ سیرت اپنانے کی ہمت کسی میں بھی نہیں ہے ۔ لیکن نام حسین کا لیتے ہیں۔جب کہ کرداری طورپر لوگ یزید کے نقیب ہیں ۔افعال و کردار میں اس کے متبعین بنے ہوئے ہیں۔نماز کے تارک ہیں۔حقوق پامالی میں پیش پیش ہیں۔حقوق غصب کرنے۔دینی لحاظ سے فرائض میں غفلت ۔عبادات کی جگہ رسومات کا فروغ وغیرہ۔
باقی اگلی قسط میں