How do you become a successful physician?
How do you become a successful physician
آپ کامیاب انسان (معالج)کیسے بنیں
میری طبی زندگی کا نچوڑ۔ہڈ بیتی
حکیم المیوات:قاری محمدیونس شاہد میو
۔۔۔۔۔۔۔
کوئی بھی فن وہنر ہو اس کا اختصار وطوالت کتنی بھی وسیع ہو بہر حال محدود ہوتی ہے۔جب نکمے اور ناکارہ لوگوں کے ہاتھ میں ان علوم و فنون کی قیادت و سیادت آتی ہے تو غیر ضروری و لایعنی باتیں صرف اس لئے داخل کرلی جاتی ہیں کہ ان کے اضافہ سے ان کی بزرگی و علمیت میں اضافہ ہوگا۔اس روش سے اصل روح ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔اہل اسلام پر بھی ایسے ادوار گزرے ہیں جب مختصر و جامع علوم کو مزید مختصر کرکے چیہستان بنا دیا گیا۔کبھی ہوا چلی تو معمولی قوانین کو بھی حاشیہ در حاشیہ کو مطولات میں تبدیک کردیا گیا۔چند صفحات کے رسالے جلدات کی شکل اختیار کرتے گئے۔
یہی کچھ طب و طبیب کے ساتھ ہوا،کبھی تو بنیادی قوانین کواتنامختصر بیان کیا گیا کہ قانونچہ کے نام سے پیش کردیا گیا،کبھی اتنی لمبی شروحات کی گئیں کہ اصل تلاش کرنا تپتے صحرا سے پانی کی بوندیں تلاش کرناجیسا ہوتاہے۔
جب کہ ایک کامیاب معالج بننے کے لئے جن باتوں کی ضرورت ہے وہ بہت مختصر اور جامع ہیں،بالخصوص آج کی جدید دنیا جہاں وسائل و کتب اور تجربات کی فراوانی ہے۔عمومی طورپر ہمیں مشکلات کا سامان اس لئے کرنا پڑتا ہے کہ جس فن و ہنر کو سیکھنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ان سے وابسطہ خوف۔ڈر ،واہمے اور خدشات پہلے سے ذہن میں ٹھونس دئے جاتے ہیں۔
علمی شخصیات اور انکے افکار بالکل واضح ہوتے ہیں لیکن کچھ خود ساختہ راہنما ایسے بھی ہوتے ہیں جنکا کام ہی خدشات۔توہمات اور لایعنی امور کی دیوار بنانا ہوتی ہے۔وہ نہیں چاہتے کہ ان علوم و فنون تک کسی کی رسائی ہو۔یہ روشن کسی ایک میدان/ہنر تک محدود نہیں جدھر نگاہ اٹھائو اس کے نظارے دیکھنے کو ملیں گے۔یہ مکڑی کے وہ جالے ہوتے ہیں جن میں کثیر تعداد میں خلق خدا مکھی طرح پھنس جاتی ہے۔اور ایک نرم سے جالے سے نکلنا ان کے بس کی بات نہیں ہوتی۔آفت در آفت یہ دیکھی جاتی ہے جو اس جالے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اسے قابل تعزیر جرم سجھا جاتا ہے۔اس کے خلاف مہمات سر کی جاتی ہیں۔پروپوگنڈہ کیا جاتا ہے۔اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو ان کے خلاف خدا واسطے کا محاذ کھو لیا جاتا ہے۔یہ روش وہ قاتل روش ہے جس کے منجھ دھار میں بہت سے جوہر قابل لوگ زندگی کی بازی ہار گئے۔
معلم و متعلم دونون ان واہموں کا شکار رہتے ہیں۔اس سے باہر سوچنا۔اور آگے بڑھ کر کچھ کرنا ےقریبا ناممکن ہوتا ہے۔یہ کنوئیں کے منیڈک ہوتے ہیں جن کی دنیا جب فٹ سے شروع ہوکر چند گز تک ختم ہوجاتی ہے۔سب سے پہلے ہمیں لایعنی باتیں ۔تعریفات۔اور غیر مفید باتیں تعارف کے طورپر پڑھائی جاتی ہیں ۔ ہزاروں سال پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے خیالات و رجحانات از بر کرائے جاتے ہیں۔جن کا عملی زندگی سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا۔فلاں نے یوں کہا فلاں کا نظریہ یہ ہے۔فلاں اس بارہ میں اختلاف رکھتا ہے وغیرہ ایسی لایعنی باتیں طلباء کے ذہنوں میں ٹھونسی جاتی ہیں جن کا عملی زندگی سے لینا دینا نہیں ہوتا۔
زیادہ مشکلات اس وقت پیش آتی ہیں جب شخصی تقدس کوعلوم و فنون پر بطور طوق چڑھا دیا جاتا ہے۔شخصیات اتنی بلندی اختیار کرلیتی ہیں کہ علوم و فنون کی نگاہیںا س کے سامنے مات کھاجاتی ہیں۔انہوں چاہےکتنیبھی بے جوڑ باتیں کی ہوں،بعد والے پوری زندگی انہیں عین ثواب ثابت کرنے پر صرف کردیتے ہیں۔
اس کے بعد کچھ غیر معتبر قسم کے قوانین از بر کرائے جاتے ہیں جو صدیوں پہلے سے عملی دنیا میں دم توڑ چکے ہوتے ہیں۔
یہ کسی ایک فن کے ساتھ نہیں بلکہ تمام علوم و فنون صنعت و حرفت میں اس کی گیڑاند پھیلی ہوئی ہے۔جو بھی اس بدبودار طریقہ تعلیم سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو پورے معاشرے میں ہیجان برپا ہوجاتا ہے۔ایسے نظام میں کامیابی سے زندگی گزارنا تقریبا ناممکن رہتا ہے۔
کامیاب معالج بننے کے لئے
(1)سب سے پہلے خود سے سوال کریں واقعی آپ اس میدان میں آگے بڑھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ؟۔اگر اندر سے ہاں کی آواز آتی ہے رو آپ کو کامیاب معالج بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
ـ(2)اپنا میدان عمل منتخب کریں۔
میدان طب بہت بڑا ہے۔طب پر بہت کچھ لکھا گیا ہے
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو